زمبابوے میں خشک سالی کی وجہ سے خوراک کی قلت پیدا ہو گئی ہے جس کے بعد 200 ہاتھیوں کو مارنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ملک کی وائلڈ لائف اتھارٹی نے جمعے کو کہا کہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جو اسے ہاتھیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے نمٹنے میں مدد دے گا۔زمبابوے کے وزیر ماحولیات نے بدھ کے روز پارلیمنٹ میں کہا کہ ملک میں ضرورت سے زیادہ ہاتھی ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے زمبابوے پارکس اینڈ وائلڈ لائف اتھارٹی (زم پارکس) کو ہاتھیوں کو مارنے کا عمل شروع کرنے کی ہدایت کی ہے۔زم پارکس کے ڈائریکٹر جنرل فلٹن منگوانیا نے اے ایف پی کو بتایا کہ 200 ہاتھیوں کو ان علاقوں میں مارا جائے گا جہاں ان کی انسانوں سے جھڑپ ہوئی ہے، جن میں زمبابوے کے سب سے بڑے قدرتی ذخیرے کا گھر ہوانگ بھی شامل ہے۔زمبابوے ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ ہاتھیوں کا گھر ہے، اور بوٹسوانا کے بعد دنیا میں ہاتھیوں کی دوسری سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے۔ زمبابوے نے آخری بار 1988 میں ہاتھیوں کو مارا تھا۔ہمسایہ ملک نمیبیا نے اس ماہ کہا ہے کہ اس نے دہائیوں میں اپنی بدترین خشک سالی سے نمٹنے کے لیے 83 ہاتھیوں کو مارا ہے۔زمبابوے اور نمیبیا جنوبی افریقہ کے ان ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے خشک سالی کی وجہ سے ہنگامی حالت کا اعلان کیا ہے۔اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق، زمبابوے کے تقریباً 42 فیصد لوگ غربت میں رہتے ہیں، اور حکام کا کہنا ہے کہ تقریباً 60 لاکھ افراد کو نومبر سے مارچ کے موسم کے دوران خوراک کی امداد کی ضرورت ہوگی، جب خوراک کی قلت ہوتی ہے۔ہاتھیوں کو مارنے کے اقدام کو کچھ لوگوں نے تنقید کا نشانہ بنایا، کیونکہ یہ جانور سیاحوں کے لیے ایک بڑی توجہ ہیں۔نمیبیا کے ہاتھیوں کے شکار کو تحفظ پسندوں اور جانوروں کے حقوق کے گروپ پیٹا نے ظالمانہ اور غیر موثر قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔لیکن حکومت نے کہا کہ مارے جانے والے 83 ہاتھی بنجر ملک میں اندازے کے مطابق 20,000 ہاتھیوں کا صرف ایک چھوٹا حصہ ہوں گے، اور اس سے چرنے اور پانی کی فراہمی پر دباؤ کم ہوگا۔