پُرتشدد مظاہرے، قتل کے واقعات اور الزامات: بنگلہ دیش اور انڈیا کے تعلقات کا ’تاریخی بحران‘ شدید تر کیوں ہو رہا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Dec 24, 2025

بنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہروں کے دوران ایک ہندو شخص کی ہلاکت نے بنگلہ دیش اور انڈیا کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات کو مزید خراب کر دیا ہے۔

اب دونوں ہمسایہ ممالک تواتر سے ایک دوسرے پر تعلقات خراب کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں، ایک دوسرے کے سفارتی عملے کو طلب کر کے احتجاج ریکارڈ رہے ہیں اور عوامی سطح پر بیانات جاری کیے جا رہے ہیں۔ جس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی کے اتحادی اور قریبی دوست کیا مستقبل میں دوبارہ کبھی ایک ساتھ ہو سکیں گے۔

بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ ہندو شہری ڈیپو چندرا کو ایک مشتعل ہجوم نے توہینِ مذہب کا الزام عائد کرنے کے بعد ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے پر انڈیا کے ہندو انتہا پسند گروہوں نے بہت احتجاج کیا۔

بنگلہ دیش میں ہندو شخص کو اُس وقت ہلاک کیا گیا جب دارالحکومت ڈھاکہ میں طالبعلم رہنما عثمان ہادی کے قتل کے بعدپُرتشدد مظاہرے کیے جا رہے تھے۔

عثمان ہادی کے حامیوں کا الزام ہے کہ انھیں (عثمان) ہلاک کرنے والے مرکزی ملزم کا تعلق شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ سے تھا اور یہ کہ قتل کرنے کے بعد حملہ آور فرار ہو کر انڈیا چلا گیا ہے۔ اس تاثر سے بنگلہ دیش مں انڈیا مخالف جذبات مزید بھڑک اُٹھے۔ تاہم بنگلہ دیشی پولیس کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مشتبہ شخص ملک چھوڑ گیا ہے۔

اسی بڑھتی تلخی اور پرتشدد واقعات کے تناظر میں دونوں ممالک نے اپنے کئی شہروں سے اپنی اپنی ویزا سروس معطل کی ہے، اور دونوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اُن کے سفارتی مشنز کو مؤثر سکیورٹی نہیں دی جا رہی ہے۔

انھی سکیورٹی خدشات کے سبب حالیہ دنوں میں انڈیا اور بنگلہ دیش نے ایک دوسرے کے کمشنرز کو بھی طلب کیا ہے۔

ڈھاکہ میں تعینات انڈیا کے سابق ہائی کمشنر ریوا گنگولی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ امید کرتے ہیں کہ تعلقات مزید خراب نہ ہوں۔‘ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں عدم استحکام کے دوران یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ حالات کس جانب بڑھ رہے ہیں۔

Getty Imagesطالبعلم رہنما عثمان ہادی شریف کو گولی مارک کر ہلاک کر دیا گیا تھا

بنگلہ دیش میں انڈیا مخالف جذبات کوئی نئی بات نہیں ہے۔

بنگلہ دیش میں چند عوامی حلقے اس بات پر نالاں تھے کہ شیخ حسینہ کی 15 سالہ دورِ حکومت میں بنگلہ دیش پر انڈیا کا کنٹرول بہت زیادہ تھا۔

ان افراد میں یہ غصہ اُس وقت مزید بڑھ گیا جب معزولی کے بعد شیخ حسینہ نے ملک سے فرار ہو کر انڈیا میں پناہ لی اور اب ڈھاکہ کی متعدد درخواستوں کے بعد بھی نئی دہلی شیخ حسینہ کی حوالگی پر تیار نہیں ہے۔

عثمان ہادی کے قتل کے بعد اطلاعات ہیں کہ بنگلہ دیش کے بعض نوجوان رہنماؤں نے کُھلے بندوں انڈیا مخالف اشتعال انگیز بیانات دیے ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں بنگلہ دیش کی سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو ڈھاکہ میں موجود انڈین ہائی کمیشن کی جانب مارچ کرنے سے متعدد بار روکا ہے۔

گذشتہ ہفتے بھی مشتعل ہجوم نے چٹاگانگ میں انڈیا کے اسسٹنٹ ہائی کمیشن کی عمارت پر پتھراؤ کیا، جس کے بعد پولیس نے اس واقعے میں ملوث 12 افراد کو حراست میں لیا تاہم بعد میں انھیں رہا کر دیا گیا۔

اس واقعے کے بعد انڈیا میں بھی کئی ریلیاں نکالی گئی ہیں۔ بنگلہ دیش نے دہلی میں اپنے سفارتی مشن کے باہر ہندو گروپ کے احتجاج پر سخت اعتراض کیا اور اسے ’غیر منصفانہ‘ قرار دیا۔

بنگلہ دیش کے سابق سفارتکار ہمایوں کبیر نے کہا کہ انڈیا اور بنگلہ دیش کے مابین اس نوعیت کے شکوک و شبہات اور بداعتمادی اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔

انھوں نے مزید کہا کہ بین الااقوامی اصولوں کے تحت دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کے سفارتی مشنز کو تحفظ دینا چاہیے۔

AFP via Getty Imagesبنگلہ دیش میں ہندو شہری کی ہلاکت پر ہونے والے مظاہرے کا منظر

ذیل میں درج معلومات قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔

اس سب کے بیچ کپڑے بنانے کی فیکٹری میں کام کرنے والے داس نامی ہندو ملازم کی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت نے انڈیا کی ناراضی اور غصے کو مزید بڑھایا۔ اُن پر توہینِ مذہب کا الزام عائد کرنے کے بعد مشتعل ہجوم نے انھیں درخت سے باندھ کر آگ لگا دی۔

اُس کے بعد اُن کی قتل کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں جس سے سرحد کے دونوں جانب مزید غصہ اور اشتعال انگیزی پھیلی۔

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے کہا کہ ’نئے بنگلہ دیش میں اس طرح کے تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے‘ اور وعدہ کیا کہ قتل میں ملوث کسی بھی شخص کو کوئی رعایت نہیں ملے گی۔

بنگلہ دیشی پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے داس کے قتل کے سلسلے میں 12 افراد کو گرفتار کیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہندو شخص کے قتل نے ایک بار پھر بنگلہ دیش میں اقلیتوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کے تحفظ پر مزید سوالات کو جنم دیا ہے کیونکہ شیخ حسینہ کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے مذہبی بنیاد پرست مزید تعصب اورعدم برداشت کا شکار ہو گئے ہیں۔

حالیہ دنوں میں مذہبی انتہا پسند افراد نے بنگلہ دیش میں سینکڑوں مزارت کی بے حرمتی کی، ہندوؤں پر حملے کیے ہیں، کچھ علاقوں میں خواتین کا فٹ بال میچ رکوا دیا اور موسیقی اور ثقافتی شوز کو بھی روکا گیا۔

انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھی گذشتہ ایک سال کے دوران بنگلہ دیش میں بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار آصف بن علی کا کہنا ہے کہ ’معاشرے کے سخت گیر عناصر اب خود کو مرکزی حکومت کے اہم رکن کے طور پر دیکھتے ہیں، اور وہ ملک میں وسیع فکر کو نہیں دیکھنا چاہتے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ بنیاد پرست عناصر لوگوں اور اداروں میں غیر انسانی سوچ پروان چڑھا رہے ہیں اورایک بیانیہ قائم کر رہے ہیں کہ اُن کے مخالف انڈیا کے حامی ہیں۔ جس سے انھیں دوسروں پر حملہ کرنے کی ترغیب یا اجازت مل جاتی ہے۔‘

بنگلہ دیش میں کئی افراد کو شبہ ہے کہ اسلامی انتہا پسند اس ہجوم کا حصہ تھے جنھوں نے بنگلہ دیش کے دو اخبارات کے دفاتر اور ثقافتی ادارے کی عمارتوں میں توڑ پھوڑ کی اور آگ لگائی۔ ان اخبارات پر انڈیا کے حامی ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

Getty Imagesگذشتہ ہفتے پولیس نے انڈین ہائی کمیشن کی جانب جانے والی مشتعل افراد کی ریلی کو روک لیا تھا

بنگلہ دیش میں سول سوسائٹی کے کارکنوں نے حالیہ تشدد کو روکنے میں ناکامی پر عبوری انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ حالیہ مظاہروں سے پہلے بھی عبوری حکومت پر سیاسی بحران کے دوران امن و امان کو برقرار رکھنے میں ناکامی پر تنقید ہو رہی ہے۔

اشوک اسوین جیسے ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں جانب دائیں بازو کے رہنما اپنے مفاد کے لیے اشتعال انگیز بیانات دے رہے ہیں اور کشیدگی اور عوامی غصے کو ہوا دے رہے ہیں۔

سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی میں امن اور تنازعات کی تحقیق کے پروفیسراسوین کا کہنا ہے کہ انڈیا کے میڈیا کا ایک بڑا حصہ بنگلہ دیش میں ہونے والے واقعات کو بھی بڑھا چڑھا کر اس طرح بیان کر رہا ہے کہ ملک فرقہ وارانہ انتشار کی جانب بڑھ رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’بنگلہ دیش میں استحکام انڈیا اور خاص کر شمال مشرقی علاقے کی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔‘

ڈھاکہ میں عبوری انتظامیہ کو تنقید کا سامنا ہے اور اس بات پر وسیع اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش کو چیلنجزسے نمٹنے کے لیے ایک منتخب حکومت کی ضرورت ہے۔

ملک میں 12 فروری کو انتخابات ہونے والے ہیں لیکن اس وقت تک سربراہ محمد یونس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ملک میں تشدد کم کر کے استحکام لائیں۔

اب جبکہ شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد ہے ایسے میں بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی جیت کے واضح امکانات ہیں لیکن مذہبی سیاسی جماعت، جماعتِ اسلامی، بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کو چیلنج کر سکتی ہے۔

بنگلہ دیش میں مزید تشدد کے بارے میں خدشات موجود ہیں کیونکہ سخت گیر مذہبی جماعتیں انڈیا مخالف جذبات کا بڑھا رہی ہیں۔

تجزیہ کار آصف بن علی نے کہا کہ ’انڈیا مخالف سیاست کا سب سے بڑا ہدف انڈیا نہیں بلکہ خود بنگلہ دیشی شہری ہیں خاص کر سیکولر نظریات رکھنے والے افراد اور اقلیتیں وغیرہ۔‘

انڈیا میں پالیسی ساز بنگلہ دیش میں بدلتی ہوئی صورتحال سے واقف ہیں۔

ایک انڈین پارلیمانی پینل کا کہنا ہے کہ 1971 میں بنگلہ دیش بننے کے بعد سے اب تک یہ نئی دہلی کے لیے ’سب سے بڑا سٹریٹجک چیلنج‘ ہے۔

ہمایوں کبیر جیسے سابق بنگلہ دیشی سفارت کاروں کا خیال ہے کہ انڈیا کو زمینی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اعتماد بحال کرنے کے لیے بنگلہ دیش سے رابطہ کرنا چاہیے۔

ہمایوں کبیر کے مطابق ’ہم پڑوسی ہیں اور اہم یک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔‘

انڈیا پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں ایک منتخب حکومت کے ساتھ بات چیت کرے گا اور اس سے سفارتی بحالی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

بنگلہ دیش میں نئی حکومت کے قیام تک مبصرین کا کہنا ہے کہغصے کو دو طرفہ تعلقات کو مزید کشیدہ نہیں ہونے دینا چاہیے۔

بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی طاقت کا گڑھ وہ انتخابی حلقہ جہاں آج بھی عوامی لیگ کے ووٹرز موجود ہیںعثمان ہادی: قاتلانہ حملے میں مارے جانے والے بنگلہ دیش کے ’انڈیا مخالف‘ نوجوان رہنما کون ہیں؟’سیون سسٹرز‘ الگ کرنے کی دھمکی: بنگلہ دیش میں انڈین ہائی کمشنر کی ملک بدری کا مطالبہ’جب تک وہ زندہ ہیں ہماری لیڈر ہیں‘: سزائے موت کے فیصلے کے بعد شیخ حسینہ کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More