وزارت منصوبہ بندی میں اختیارات کی کشمکش، احسن اقبال جیت گئے؟

اردو نیوز  |  Aug 31, 2024

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر جہانزیب خان کا استعفیٰ منظور کر لیا ہے اور ان کی جگہ پر وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کو پلاننگ کمیشن کا نیا ڈپٹی چیئرمین تعینات کیا گیا ہے۔

جمعے کی شام اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نے ڈاکٹر جہانزیب خان کا استعفیٰ فوری طور پر منظور کر لیا ہے۔

آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت مرکز میں قائم ہوئی تو بعض عہدوں پر ایسی تعیناتیاں دیکھنے میں آئیں جو مسلم لیگ ن روایتی طور پر اپنے پاس رکھتی ہے۔

وزارت خزانہ، وزارت داخلہ اور ڈپٹی چیئرمین منصوبہ بندی کمیشن سمیت کئی ایک عہدوں پر ایسے افراد کو تعینات کیا گیا جن کا تعلق بنیادی طور پر مسلم لیگ ن سے نہیں تھا۔

اس حوالے سے مسلم لیگ ن کی قیادت سے جب کبھی بھی سوال پوچھا جاتا ہے تو ان کا جواب اگرچہ واضح نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود وہ اشاروں کنایوں میں یہ بات بتا دیتے ہیں کہ ان عہدوں پر تعیناتیاں مقتدر حلقوں کے کوٹے پر کی گئی ہے۔

یہ تعیناتیاں پہلی دفعہ نہیں ہو رہی ہیں بلکہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں جب وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم کو ایم کیو ایم سے جوڑا جاتا تھا تو اس وقت بھی ایم کیو ایم یہ کہا کرتی تھی کہ ڈاکٹر فروغ نسیم ایم کیو ایم کے کوٹے پر وزیر نہیں بنے بلکہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے وزیر قانون بنایا گیا ہے۔

خزانہ اور داخلہ کے وفاقی وزراء کا تعلق ن لیگ سے نہیں ہے۔ اس لیے ان وزارتوں میں بظاہر انتظامی طور پر کوئی بڑا مسئلہ درپیش نہیں آیا یا کم از کم رپورٹ نہیں ہوا۔

وزارت منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے اور وہ پارٹی کے جنرل سیکریٹری بھی ہیں۔ ان کی وزارت کے سب سے اہم شعبے یعنی منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ ڈاکٹر جہانزیب خان کے پاس ہونے کی وجہ سے وفاقی وزیر کی حیثیت کم ہو گئی تھی۔

اگر وزارت منصوبہ بندی کی ورکنگ یا کام کا طریقہ کار دیکھیں تو اس کا سب سے اہم شعبہ پلاننگ کمیشن ہی ہوتا ہے جو وزارت کے تمام تکنیکی امور، منصوبہ جات، سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی، اکانومسٹ گروپ اور دیگر اہم شعبوں کا نگران ہوتا ہے۔

پلاننگ کمیشن کے بورڈ کے تمام اراکین بھی ڈپٹی چیئرمین کو ہی رپورٹ کرتے ہیں۔

ایسی صورت میں ایک وفاقی وزیر کی موجودگی اور ان کے پاس اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے احسن اقبال خود کو بے بس محسوس کر رہے تھے۔ ذرائع کے مطابق بعض امور پر ان کے ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کے ساتھ اختلافات بھی سامنے آئے۔ جس کے باعث احسن اقبال کے استعفے کی خبریں بھی میڈیا کی زینت بنیں۔  

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ عین ممکن تھا کہ یہ سب کچھ ویسے ہی چلتا رہتا لیکن ایک تو وزارت کے انتظامی معاملات انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں آگے بڑھ رہے تھے تو دوسری جانب پی ڈی ایم کے دور حکومت میں وزارت منصوبہ بندی اور دیگر کئی وزارتوں کی مشاورت سے تیار ہونے والی فائیو ایز پالیسی کے بجائے شہباز شریف نے ایک برطانوی ماہر معیشت کی تیار کی گئی پالیسی کا اعلان کرنے کا فیصلہ کیا تو احسن اقبال یہ شکایت لے کر نواز شریف کے پاس پہنچ گئے۔

نواز شریف نے پارٹی رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا جس میں احسن اقبال نے تمام تر صورتحال پارٹی صدر کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے پانچ سالہ منصوبے کے حوالے سے ہوم ورک مکمل کر رکھا ہے۔ معاشی بحالی کے حوالے سے فائیو ایز پر مبنی حکمت عملی بھی تیار کی جا چکی ہے۔ لیکن موجودہ ڈپٹی چیئرمین منصوبہ بندی کمیشن جو پروگرام اور پانچ سالہ منصوبہ لا رہے ہیں وہ مسلم لیگ نون کے پارٹی منشور سے مطابقت نہیں رکھتا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ احسن اقبال نے کہا کہ اگر پارٹی اپنے منشور پر عمل درآمد نہیں کروا سکتی اور بحیثیت جنرل سیکرٹری مسلم لیگ نون پارٹی کے ووٹر اور سپورٹر ان سے توقع بھی رکھتے ہیں کہ میں پارٹی منشور کے مطابق کام کروں لیکن بے اختیار ہونے کی وجہ سے میں ایسا نہیں کر سکتا تو بہتر ہے کہ میری وزارت تبدیل کر دی جائے یا پھر میں کابینہ سے ہی نکل جاؤں۔

ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں نواز شریف نے احسن اقبال کو صبر اور ہمت سے کام لینے کی تلقین کی اور پہلے مرحلے میں اسی وقت برطانوی ماہر معیشت کی تیار کی گئی معاشی پالیسی کا اعلان کرنے سے شہباز شریف کو روک دیا اور ساتھ ہی ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جو ہوم گراؤنڈ پالیسی کو حتمی شکل دے رہی ہے۔

اس اجلاس کے بعد احسن اقبال نے باضابطہ طور پر نہ صرف پارٹی پالیسیوں کی میڈیا میں آ کر دفاع کرنا شروع کیا بلکہ وہ جارحانہ انداز میں اپنا کام بھی کرنے لگے۔

نواز شریف کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس کے فیصلوں کے دوسرے مرحلے کے تحت ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کا استعفیٰ بھی آیا ہے جس کے بعد یہ عہدہ بھی احسن اقبال کو سونپ دیا گیا ہے۔

یوں احسن اقبال کم و بیش چھ ماہ تک ایک اعصابی جنگ لڑنے کے بعد کامیاب ہوئے ہیں اور بحیثیت وفاقی وزیر اپنے تمام اختیارات حاصل کر چکے ہیں۔

منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ ڈاکٹر جہانزیب خان کے پاس ہونے کی وجہ سے وفاقی وزیر کی حیثیت کم ہو گئی تھی (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)وزارت منصوبہ بندی کا سیکٹورل پلان، فائیو ایز  فریم ورک کیا ہیں؟

مختلف وزارتوں اور مسلم لیگ ن کی قیادت کی جانب سے جہاں پروفیسر سٹیفن ڈرکن کے تیار کیے گئے معاشی منصوبے کے اعلان کو روکا ہے وہیں ان کے تیار کیے گئے مسودے کے ساتھ وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے 2022-23 میں تیار کیے گئے سیکٹورل پلان یعنی فائیو ایز فریم ورک کا موازنہ کرنے اور انہیں ملا کر ایک جامع منصوبہ تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزارت منصوبہ بندی نے وفاقی وزیر احسن اقبال کی سربراہی میں فائیو ایز فریم ورک مرتب کیا تھا جس کو نیشنل اکنامک کونسل نے منظور کیا تھا۔ فائیو ایز فریم ورک میں ایکسپورٹ، انرجی، ایکویٹی، ای۔پاکستان اور ماحولیات کے شعبے شامل ہیں۔

یعنی اس منصوبے کے تحت پاکستان کی برآمدات میں اضافے، توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے اور ان کی پیداواری لاگت میں کمی کے ساتھ ساتھ پاکستانی مصنوعات کی بہترین برانڈنگ تجویز کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ای پاکستان پالیسی کے تحت ڈیجٹلائزیشن اور ٹیکنالوجی کے فروغ اور عالمی معاہدوں کی روشنی میں ماحولیات میں بہتری کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

ڈاکٹر جہانزیب کون سے پلان کا اعلان کروا رہے تھے؟

یہ پروگرام ایک ٹاسک فورس کے ذریعے تیار کیا گیا ہے جسے وزیر اعظم نے تشکیل دیا تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر آف اکنامک پالیسی، سٹیفن ڈرکن بھی اس میں شامل تھے۔

اس پروگرام کے تحت تیار کیے گئے منصوبے کا مقصد اقتصادی لبرلائزیشن پر توجہ دینا ہے۔ حکومت کی طرف سے کسی بھی شعبے کو سبسڈی فراہم ختم کرنے اور مقامی پروڈیوسرز کو عالمی معیار کے برابر لانا شامل ہے۔  اس کے ساتھ ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو سنبھالنے کے لیے درآمدات پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک سے برآمدات میں اضافہ کرنے پر توجہ دی جائے گی۔

پالیسی میں درآمدی محصولات، جیسے اضافی کسٹم ڈیوٹی، ریگولیٹری ڈیوٹی اور برآمدی ڈیوٹی کو پاکستان کی سست برآمدی ترقی کے بنیادی اسباب میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ریونیو بڑھانے کے کئی ایک طریقے بھی تجویز کیے ہیں۔

حکام کے مطابق اس پوری پالیسی میں ملکی معیشت کی بہتری کے اقدامات تو تجویز کیے گئے تھے لیکن اس میں عوامی مفاد کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔

ذرائع کے مطابق شہباز شریف اس مسودے سے اتنے متاثر ہوئے تھے کہ انہوں نے اس کا نام بھی سٹیفن ڈرکن پالیسی رکھنے کی تجویز دے دی تھی۔  تاہم احسن اقبال اور کچھ دیگر وزارتوں کے حکام کی جانب سے نواز شریف کو شکایت لگائے جانے کے بعد اس پالیسی کا اعلان روک دیا گیا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More