مارچ 2022 کی ایک سہانی سہ پہر، جب پی سی بی ہیڈ کوارٹرز لاہور میں اپنی آرام دہ کرسی پہ آنکھیں موندے، چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ کو پاکستان جونیئر لیگ کی ’آمد‘ ہوئی تو اس کے اہتمام میں انھوں نے پلک جھپکنے کیدیر بھی گوارا نہ کی۔
رمیز راجہ کا وہ ’منفرد‘ آئیڈیا پاکستان کرکٹ کی تقدیر بدلنے کو تھا اور اس کی مارکیٹنگ میں جو انتھک محنت خرچ ہوئی، وہ مالی لحاظ سے اتنی سود مند ثابت ہوئی کہ پاکستان جونیئر لیگ اپنے پہلے ہی ایڈیشن میں 95 ملین روپے کما گئی۔
دقت فقط یہ تھی کہ رمیز راجہ کے خوابوں کا وہ میلہ سجانے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے 929 ملین روپے خرچ بھی ہو گئے۔
جانے پاکستان کرکٹ بورڈ کی چیئرمین کی کرسی میں ایسی کیا بات ہے کہ اس پہ بیٹھنے والا ہر شخص پہلی ہی جست میں تسخیرِ کائنات کے خواب دیکھنے لگتا ہے اور خود نمائی تو جیسے اس کے فرائضِ منصبی کا حصہ ہو رہتی ہے، گویا پی سی بی کا آئین اسے پابند کر چھوڑتا ہو۔
رمیز راجہ کے خواب تو پی سی بی کی بھری جیبیں ڈھیلی کر گئے مگر اس کرسی کے حالیہ مسند نشین تو آتے ہی کہہ چکے ہیں کہ ’پیسہ بہت ہے، پہلے لگتا نہیں تھا، اب لگے گا بھی اور دکھے گا بھی۔‘
دوسری جانب حال یہ بھی رہ چکا کہ بدانتظامی اور غیر یقینی اس نہج کو پہنچی کہ دو سالہ براڈکاسٹ ڈیل بیچنے کے لیے پی سی بی کو ایڑیاں رگڑنا پڑ گئیں۔ اور خاصی محنت کے بعد طے شدہ ڈیل کے مطابق اگست 2024 سے دسمبر 2026 تک براڈکاسٹ رائٹس کی مد میں، پی سی بی لگ بھگ ساڑھے چھ ملین ڈالر کمائے گا۔
مشکل فقط یہ ہے کہ اس کمائی کا تقریباً آدھا حصہ یعنی 2.7 ملین ڈالر ان پانچ مینٹورز کی تین سالہ تنخواہ میں خرچ ہو جائے گا جو آج سے شروع ہونے والے چیمپیئنز ون ڈے کپ میں پانچ ٹیموں کی گرومنگ کریں گے۔ یہ بھی واضح رہے کہ متعلقہ پانچوں ٹیموں کے ہیڈ کوچز اور دیگر کوچز ان مینٹورز کے علاوہ ہوں گے۔
کپتانی کا تنازع، ٹیم میں تقسیم یا اعتماد کا فقدان: ’توقعات کے قیدی‘ بابر اعظم کے زوال کی وجہ کیا ہے؟وسیم اکرم: کالج کی ٹیم کا بارہواں کھلاڑی پاکستانی ٹیم کا فاسٹ بولر کیسے بنا؟دنیا کا ’تیز ترین‘ پاکستانی بولر جو صرف پانچ ٹیسٹ میچ ہی کھیل پایاپاکستان کرکٹ ٹیم کو حفیظ کاردار یا عمران خان جیسا سخت گیر کپتان ہی کیوں چاہیے؟
پی سی بی نے اس چیمپیئنز کپ کے جو جو فضائل بیان کیے ہیں اور اس سے پاکستان کرکٹ کو جو بشارتیں ملنے کی نوید سنائی گئی ہے، اس کی بحث تو وقت پہ چھوڑ دینا بہتر ہے مگر یہ سمجھنا تو ابھی بھی ضروری ہے کہ ایک پہلے سے لدے پھندے ڈومیسٹک کیلنڈر میں تین نئے ٹورنامنٹس گھسیڑ دینے سے کرکٹ کا بھلا کیسے ہو گا۔
بالفاظِ دیگر، اس چیمپیئنز کپ سے وہ سب فوائد کیسے حاصل ہو جائیں گے جو اس سے پچھلے ٹورنامنٹس اور سابقہ پی سی بی چیئرمین حاصل نہیں کر پائے؟ بجا کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں سرمایہ کاری بھلی شے ہے اور پاکستانی انٹرنیشنل کرکٹرز کی اس ٹورنامنٹ میں شمولیت سے نوجوانوں کو کچھ ایکسپوژر بھی ملے گا مگر یہ پاکستان کی انٹرنیشنل کرکٹ میں بہتری کیسے لائے گا؟
کیونکہ، فی الوقت پاکستان کے انٹرنیشنل کرکٹرز کی اپنی کیفیت یہ ہو چکی ہے کہ کسی بگ تھری کے چیمپیئنز کپ میں ہمارے ان سپر سٹارز کو ایمرجنگ کیٹیگری میں رکھ کر مچل سٹارک، جسپریت بمراہ، پیٹ کمنز، کگیسو ربادا، وراٹ کوہلی، جو روٹ، بین سٹوکس اور کین ولیمسن جیسوں سے سیکھنے کا موقع دئیے جانے کی ضرورت ہے۔
یہ حقیقت بہت سے ڈیٹا پر نظر رکھنے والے ماہرین کے لیے تلخ ہو سکتی ہے مگر جن اعداد و شمار کی بدولت پاکستان کے کچھ حالیہ سپر سٹارز ابھرے اور ون ڈے میں اول رینکنگ کی بھی شہرت پائی، ان مخالف ٹیموں اور سکواڈز کی مسابقت کا معیار بھی لگ بھگ اس نئے چیمپیئنز کپ جیسا ہی تھا۔
اگر پی سی بی اس ٹورنامنٹ کو واقعی ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل کے درمیان گہرے خلا کی بھرائی کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا تو اسے اپنے ناقدین کو بھاری تنخواہوں کے عوض مینٹور بنانے کی بجائے یہ بھاری پرس کچھ دیگر تگڑے انٹرنیشنل کھلاڑیوں کو یہاں لانے پہ خرچ کرنا چاہیے تھا تا کہ پی ایس ایل کی طرح کچھ تو انٹرنیشنل ایکسپوژر بڑھ پاتا۔
مگر کیا کیجیے ہر نئے چیئرمین کو کچھ نہ کچھ تو نیا کرنا ہی ہوتا ہے۔ سو، محسن نقوی بھی پی سی بی کی روشن تاریخ میں اپنے نام کا چراغ جلا رہے ہیں اور پاکستان کے ہوم سیزن کی مشکل ترین ٹیسٹ سیریز سے تین ہفتے پہلے، ان کے وژن کا یہ تاریخی ون ڈے ٹورنامنٹ طلوع ہو رہا ہے۔
جیسے موبائل کمپنیاں نئے ماڈل لانچ کرتے وقت اپنی ایک سالہ محنت کا نچوڑ بڑے کیمرے، زیادہ میموری اور نئے پاور بٹن کی شکل میں پیش کرتی ہیں، کچھ اسی طرح پی سی بی نے بھی چیمپیئنز ون ڈے کپکی تشہیری مہم میں مہنگے مینٹورز، لائیو سٹریمنگ اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس جیسے الفاظ کا تواتر سے استعمال کیا ہے۔
گو، مارکیٹنگ کے اعتبار سے یہ سبھی ’کی ورڈز‘ ہیش ٹیگ میں بدلنے اور بِکنے کے قابل ہیں مگر سوال یہ ہے کہ مارکیٹ میں تو پی ایس ایل بھی خوب بِک جاتی ہے مگر ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کی ٹرافی تک رسائی نہیں دے پاتی۔
پاکستان کی کرکٹ کے ’متنازع‘ کھلاڑیوں میں کون کون شامل؟’قصور پچ کا نہیں، پی سی بی کا ہے‘وسیم اکرم: کالج کی ٹیم کا بارہواں کھلاڑی پاکستانی ٹیم کا فاسٹ بولر کیسے بنا؟کرکٹ کے پہلے سپر سٹار اور جدید بیٹنگ کے تخلیق کار جنھیں آؤٹ ہونا سخت ناپسند تھاشرارتی جاوید میانداد جنھیں ابتدا میں صرف فیلڈنگ کے لیے میدان میں اُتارا جاتا تھاجب عمران خان نے انڈیا کے خلاف جیت کو جاوید میانداد کے ریکارڈ پر ترجیح دی