کئی گھنٹوں کی تاخیر کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوگیا جسے تھوڑی دیر کے بعد پیر ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت سپیکر سردار ایاز صادق نے کی۔دن بھر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس کا انتظار ہوتا رہا۔ تاہم رات کو 11 بج کر 6 منٹ پر بالآخر قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہو گیا۔ تاہم اجلاس مختصر وقت کے بعد کل تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ دوسری جانب سینیٹ کا اجلاس بھی کل ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ اب قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں کے اجلاس پیر کے دن ہوں گے۔پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں جاریپارلیمان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں خورشید شاہ کی زیر صدارت جاری ہے۔خصوصی کمیٹی کا اتور کے دن یہ چوتھا اجلاس ہے جو اس وقت جاری ہے۔مولانا فضل الرحمان بھی کمیٹی کے اجلاس میں پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے ہیں۔پارلیمنٹ ہاؤس میں جب صحافیوں نے مولانا سے پوچھا کہ آئینی ترمیم کا مسودہ اب تک آپ کو نہیں دیا گیا، کیا حکومت کو آپ پراعتماد نہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ آپ حکومت سے پوچھیں۔اٹارنی جنرل بھی پارلیمان کی خصوصی کمیٹی میں شریک ہیں۔چیف جسٹس تنازعات سے دور رہیں اور 25 اکتوبر کو عزت سے عہدہ چھوڑ دیں: سینیئر وکلاسپریم کورٹ آف پاکستان کے سینیئر وکلا منیر اے ملک اور فیصل صدیقی نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وہ مجوزہ آئینی ترامیم کے معاملے سے دور رہیں اور 25 اکتوبر کو عزت او احترام کے ساتھ اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔اتوار کی رات کو دونوں وکلا کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم دونوں قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل رہے اور ان کے خلاف غیرآئینی اور بدنیت پر مبنی صدارتی ریفرنس پر عوامی سطح پر اپنی تحریروں کے ذریعے ان کی حمایت کی۔بیان کے مطابق ’ایک مشکوک اور قابل اعتراض آئینی ترامیم کے پیکج کے ذریعے آئین اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس پر بے مثال مجوزہ حملے کے پیش نظر، ہم عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تنازعات سے دور رہیں، اپنی وراثت کو محفوظ رکھیں اور 25 اکتوبر 2024 کو عزت کے ساتھ اپنے عہدے سے دستبردار ہو جائیں، اور کسی بھی مجوزہ آئینی عدالت/ بنچ کے لیے کسی تقرری کے لیے نامزد نہ ہوں۔‘منیر اے ملک اور فیصل صدیقی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’جسٹس سید منصور علی شاہ 26 اکتوبر 2024 کو چیف جسٹس آف پاکستان ہوں گے۔ آئین کی مقدس دستاویز میں کی جانے والی ترامیم ایسی پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتیں جس کا کوئی قومی جواز نہ ہو۔ اور اور اس لیے ہم قانونی برادری اور عدلیہ پر زور دیتے ہیں کہ وہ ان کی مزاحمت کریں اور اسے مسترد کریں۔‘ مشاورت مکمل ہونے تک آئینی ترامیم پیش نہیں کی جا سکتیں: عطا تارڑوفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے کا ہے کہ آئینی ترمیم ایک اہم ایشو ہے، جب تک وسیع تر اتفاق رائے نہیں ہوتا تو آگے بڑھنا مشکل ہے۔پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ مجوزہ ترامیم کے ایک ایک شق پر بحث ہو رہی ہے اور اپوزیشن اور حکومتی جماعتیں بھی ان پر اپنی مشاورت کر رہی ہیں۔’مولانا فضل الرحمان اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مشاورت کر رہے ہیں اور حکومتی جماعتیں بھی اپنی مشاورت کر رہے ہیں۔‘
عطا تارڑ نے کہا کہ چارٹر آف ڈیموکریسی میں انصاف تک رسائی کا ذکر تھا اور ان مجوزہ ترامیم میں بھی کوئی پرس سپیسفک ترمیم نہیں۔
’مشاورت مکمل ہونے تک آئینی ترامیم پیش نہیں کی جاسکتی۔ ترامیم پر وسیع اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور قانونی ماہرین سے بھی مشاورت کر رہے ہیں۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پارلیمان سپریم ہے۔ ہمیں عوام نے ووٹ دے کر یہاں بھیجا ہے۔‘آئین کے مطابق سب سے بالادست ادارہ پارلیمان ہے: خواجہ آصفقبل ازیں وزیر دفاع خواجہ آصف نے دعویٰ کیا تھا کہ آج قومی اسمبلی کے اہم اجلاس کے لیے ان کے پاس پارلیمان میں دو تہائی اکثریت ہے۔اتوار کو پارلیمنٹ ہاؤس میں اردو نیوز کے نامہ نگار بشیر چوہدری کے ساتھ گفتگو میں خواجہ آصف نے کہا ہے آئین کے مطابق سب سے بالادست ادارہ پارلیمان ہے۔پارلیمان میں عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم آج پیش کیے جانے کا امکان ہے تاہم قومی اسمبلی کے اجلاس کے جاری کردہ ایجنڈے میں اس مجوزہ ترمیمی بل کا ذکر موجود نہیںوزیر خارجہ خواجہ آصف نے مزید کہا کہ ’گزشتہ چند سالوں سے پارلیمنٹ کے حدود میں قبضہ مخالفانہ عدلیہ کی جانب سے کیا گیا ہے۔ آئین واضح کرتا ہے کہ پارلیمنٹ سب سے بالادست ادارہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب جو لاسٹ سپیس ہے جو پارلیمنٹ نے گنوائی ہے یا ہم سے لے لی گئی ہے اس کو بھی ڈیفائن کرنے کی ضرورت ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’تو یہ ساری ترامیم پارلیمنٹ کی بالادستی دوبارہ بحال کرنے کے لیے ہی کی جا رہی ہیں۔‘وزیر قانون کے پاس آج بھی بِل نہیں تھا جو ہمارے ساتھ شیئر کرتے: بیرسٹر گوہرپاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ عدلیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی جاری ہے جو غیرآئینی ہے۔پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آج بھی وزیر قانون کے پاس بل نہیں تھا جو ان کے ساتھ شیئر کرتے۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ اور ججز کے اختیارات کم نہیں ہونے چاہیے اور اگر کوئی کوشش کی گئی تو اس کی مذمت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے یہ نہیں کہا کہ آج ہی ووٹنگ کرانی ہے لیکن اگر ووٹنگ ہوتی ہے تو ہمارے اراکین ہمارے ساتھ ہیں۔
نمبر گیم میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا: عطااللہ تارڑ
وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا ہے کہ آئینی ترامیم کے لیے نمبر گیم میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ جو بھی قانون سازی ہو گی وہ قوم کے اجتماعی مفاد میں ہوگی۔(فوٹو: سکرین گریب)انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام کو فوری انصاف اور انصاف تک رسائی دینے کے لیے قانونی اصلاحات کی ضرورت تھی۔ان کا کہنا تھا کہ جو بھی قانون سازی ہو گی وہ قوم کے اجتماعی مفاد میں ہوگی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مولانا فضل الرحمان ہمارے پرانے اتحادی اور ساتھی ہیں، تھوڑا انتظار کریں اچھی خبریں ملیں گی۔‘عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم کیا ہے؟عدلیہ سے متعلق ممکنہ آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کے ججز کی مدت ملازمت 65 سال سے بڑھا کر 68 سال کرنے کی تجویز ہے جبکہ ہائی کورٹس میں ججز کی مدت ملازمت 62 سال سے بڑھا کر 65 سال کی جا سکتی ہے۔
آئینی ترمیم کے لیے حکمران اتحاد کو دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس وقت اُنہیں ایوان میں دو تہائی اکثریت حاصل ہے تاہم اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آئینی ترمیم لانے کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی حمایت کے ساتھ ساتھ حکومت کو آزاد اراکین کا تعاون بھی چاہیے ہو گا۔
قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کی پوزیشنقومی اسمبلی میں آئینی ترمیم منظور کروانے کے لیے حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت یعنی 224 ارکان کی حمایت حاصل کرنا ہو گی۔ اگر حکومتی اتحادیوں کے کُل نمبروں کا جائزہ لیں تو اس وقت حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے پاس 213 ووٹ موجود ہیں۔ان ارکان میں مسلم لیگ ن کے 111، پاکستان پیپلز پارٹی کے 68 اور متحدہ قومی موومنٹ کے 22 ووٹ شامل ہیں۔سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو 64 اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)حکمران اتحاد میں شامل پاکستان مسلم لیگ ق کے پاس پانچ ووٹ ہیں۔ استحکام پاکستان پارٹی کے ممبران قومی اسمبلی کی تعداد چار ہے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور ضیا الحق پارٹی کا ایک ایک رکن بھی حکومتی اتحادیوں میں شامل ہے۔اس وقت قومی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ارکان کی تعداد آٹھ ہے۔ اگر حکومت کو قومی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے تو اُن کے پاس ترامیم کے حق میں یہ نمبرز 221 ہو جائے گے۔تاہم جے یو آئی کی حمایت کے باوجود حکومت قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کر سکتی۔ حکمران اتحاد کو آئینی ترمیم کے لیے قومی اسمبلی میں موجود آزاد ارکان کا تعاون بھی درکار ہو گا۔ حکومتی حلقے دعویٰ کر رہے ہیں کہ چار سے پانچ آزاد اراکین قومی اسمبلی آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دے سکتے ہیں۔سینیٹ میں حکمران اتحاد کی پوزیشنایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو 64 اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔ اگر سینیٹ میں نمبرز گیم کا ذکر کریں تو اس وقت سینیٹ میں حکومتی اتحادی جماعتوں کو 55 سنیٹرز کی حمایت حاصل ہے۔اِن 55 ووٹوں میں مسلم لیگ ن کے 19 اور پاکستان پیپلز پارٹی کے 24 سینیٹرز شامل ہیں جبکہ اُنہیں بلوچستان عوامی پارٹی کے چار،متحدہ قومی موومنٹ کے تین اور پانچ آزاد اراکین کی بھی حمایت حاصل ہے۔ سینیٹ میں حکمراں اتحاد کو آئینی ترمیم کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے پانچ ارکان سمیت مزید چار ووٹوں کی بھی ضرورت ہو گی۔