پاکستان کی وفاقی حکومت پورے دن کی سر توڑ کوششوں کے باوجود جمیعت علما اسلام سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کو عدالتی اصلاحات سے متعلق آئینی ترمیم پر متفق کرنے میں ناکام رہی ہے۔12 گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس ملتوی کر دیے گئے جبکہ پارلیمان کی خصوصی کمیٹی میں بھی حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق رائے نہ ہو سکا۔اتوار کا دن اس حوالے سے انتہائی سرگرم رہا کہ حکومت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس طلب کر رکھے تھے جن میں آئینی ترمیمی بل پیش کرنے کا منصوبہ تھا۔ پورا دن حکومت آئینی مسودے پر اپنے اتحادیوں اور اپوزیشن جماعتوں بالخصوص مولانا فضل الرحمان کو اعتماد میں لینے کی کوشش کرتی رہی۔
اس سلسلے میں حکومتی اتحادیوں کی آپس میں کئی ایک بیٹھکیں ہوئیں جبکہ حکومتی وفد مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت کو منانے کے لیے ان کے گھر بھی گیا۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ حکومتی وفد کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات ہوئی بلکہ اس سے پہلے صدر، وزیراعظم، وفاقی وزرا اور حکومتی کمیٹی مولانا فضل الرحمان کو منانے کی سر توڑ کوشش کر چکی ہے۔دن بھر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس کا وقت تبدیل ہوتا رہا اور اس کے ساتھ ساتھ کابینہ اجلاس کا وقت بھی بدلتا رہا لیکن اتفاق رائے نہ ہو سکا۔حکومت نے کئی بار بار دعویٰ کیا کہ وہ مولانا فضل الرحمان کو قائل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں جبکہ ان کے علاوہ بھی کچھ آزاد ارکان آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیں گے۔اردو نیوز سے خصوصی گفتگو میں وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت حاصل کر لی گئی ہے اور مولانا فضل الرحمان کے تحفظات بھی دور کر دیے گئے ہیں۔تحریک انصاف کے وفد نے بھی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی اور انہیں آئینی ترمیم کی حمایت نہ کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی۔ تاہم اس حوالے سے بیرسٹر گوہر نے واضح کیا کہ ملاقات ہوئی ہے اور گفتگو بھی کی ہے لیکن کوئی بریک تھرو نہیں ہو سکا۔حکومتی وفد کی ملاقات کے بعد جمیعت علمائے اسلام کی سیکریٹری جنرل اور رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالغفور حیدری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ انہیں ابھی تک آئینی ترمیم کا مسودہ نہیں دیا گیا اس لیے فوری طور پر اس کی حمایت یا مخالفت کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ ’قومی اسمبلی اجلاس میں جائیں گے اور وہاں پر جا کر بات کریں گے۔‘اس موقع پر یہ خبریں بھی سامنے آئی کہ وزیراعظم شہباز شریف اور نواز شریف دونوں مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر جا کر انہیں آئینی ترمیم کے حق میں قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس خورشید شاہ کی زیر صدارت ہوا۔ (فوٹو: ایکس)تاہم ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے نواز شریف کو اپنے گھر آنے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے پر پارلیمانی کمیٹی میں بات چیت کریں گے اس لیے وہ (نواز شریف) زحمت نہ کریں۔ جس کے بعد نواز شریف اور شہباز شریف کا مولانا کے گھر جانے کا پروگرام منسوخ کر دیا گیا۔رات کے 10 بجے کے قریب ارکان قومی اسمبلی واپس پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنا شروع ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس خورشید شاہ کی زیر صدارت ہوا جس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی شریک ہوئے۔ وزیر قانون اٹارنی جنرل اور دیگر رہنماؤں نے کمیٹی کو آئینی ترمیم سے متعلق بریفنگ دی۔اس دوران قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا جو چند لمحے جاری رہنے کے بعد آج ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کر دیا گیا جبکہ سینیٹ کا اجلاس بھی چیئرمین سینیٹ نے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ملتوی کر دیا۔اس کے ساتھ ہی وفاقی کابینہ کا اتوار تین بجے بلایا جانے والا اجلاس جو مسلسل تاخیر کا شکار ہوتا رہا، بالآخر سوموار تک موخر کر دیا گیا۔تقریبا اڑھائی گھنٹے جاری رہنے کے بعد پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس ختم ہوا۔ کمیٹی کے چیئرمین سید خورشید شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں آئینی ترمیم پر بات ہوئی ہے لیکن کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔کمیٹی ارکان کے ساتھ آئینی ترمیم کا مسودہ ابھی تک شیئر نہیں کیا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے کابینہ اس مسودے کی منظوری دے گی، بعد میں یہ مسودہ باقی ارکان کے سامنے رکھا جائے گا۔ کمیٹی کا اجلاس آج دوبارہ ہوگا۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی آئینی ترمیم ہوتی ہے تو اس کے لیے کوشش یہ ہوتی ہے کہ جتنا ممکن ہے اتنا اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔’ہماری خواہش ہے کہ چارٹر آف ڈیموکریسی پر عمل درآمد مکمل ہو اسی لیے اس آئینی ترمیم کی حمایت کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ کثرت رائے سے یہ ترمیم ہوتی ہے تو ہم کر لیں لیکن مولانا فضل الرحمان کی خواہش اور کوشش ہے کہ یہ ترمیم متفقہ طور پر پارلیمنٹ سے منظور کرائی جائے۔‘جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سوموار کو بل پارلیمان سے منظور ہو جائے گا جس پر انہوں نے کہا کہ اگر اتفاق کے رائے ہوتا ہے تو مزید ایک دن انتظار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت حاصل کر لی گئی ہے۔ (فائل فوٹو)دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پارلیمانی خصوصی کمیٹی کا یہ مینڈیٹ ہی نہیں ہے کہ وہ کسی آئینی ترمیم پر غور کرے۔ اس کے باوجود اگر کمیٹی کے سامنے آئینی ترمیم لائی گئی ہے لیکن اس کا مسودہ کمیٹی کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا اور ہم دو دن سے یہی مطالبہ کر رہے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’حکومت جلد بازی میں آئینی ترمیم کرنا چاہتی ہے جو کہ درست اقدام نہیں ہے۔ ہمارے لوگوں کو لاپتہ کیا گیا ہے ہم بار بار حکومت کے ساتھ یہ معاملہ اٹھا رہے ہیں اور آج بھی اس پر بات کی ہے۔‘قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے واضح کیا کہ یہ بل کسی سطح پر بھی متفقہ طور پر پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہو گا۔مولانا فضل الرحمان کے علاوہ سینیٹ میں بی این پی مینگل کے دو سینیٹرز کی جانب سے آئینی ترمیم کی حمایت نہ کرنے کے اعلان نے بھی حکومت کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔جس کے بعد وزیراعظم اور کئی دیگر حکومتی شخصیات اختر مینگل سے رابطہ کر کے آئینی ترمیم کی حمایت کی درخواست کی جس کے جواب میں اختر مینگل نے دو ہزار لاپتہ افراد کی رہائی کی شرط رکھ دی اور کہا کہ ’2000 لاپتا افراد کو رہا کیا جائے اور دو ووٹ لے لیں۔‘اس حوالے سے اختر مینگل سے رابطہ کرنے والے سابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اختر مینگل نے اپنی ٹیم اسلام آباد بھیج دی ہے جن سے بات چیت جاری ہے اور امید ہے کہ ان کی طرف سے بہتر جواب آئے گا۔حکومت نے سوموار کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس دوبارہ طلب کر لیے ہیں لیکن اس کے باوجود ابھی تک صورتحال واضح نہیں ہے کہ آیا آج دونوں ایوانوں سے آئینی ترمیم منظور کروائی جا سکے گی یا پھر معاملہ مزید کئی دنوں تک موخر ہوتا رہے گا۔