عدالتی اصلاحات سے متعلق آئینی ترمیمی بل کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے الگ الگ اجلاس آج پیر کو طلب کیے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس دوبارہ طلب کرنے کے باوجود ابھی تک صورتحال واضح نہیں ہے کہ آیا آج دونوں ایوانوں سے آئینی ترمیم منظور کروائی جا سکے گی یا پھر معاملہ مزید کئی دنوں تک موخر ہوتا رہے گا۔
اتوار کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے کہا کہ آئینی ترامیم میں تاخیر کی وجہ صرف اور صرف مشاورتی عمل ہے جس کا دائرہ کار وسیع کیا گیا ہے۔
گزشہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس بار بار تاخیر کا شکار ہونے کے بعد سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا جو چند لمحے جاری رہنے کے بعد آج ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کر دیا گیا جبکہ سینیٹ کا اجلاس بھی چیئرمین سینیٹ نے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ملتوی کر دیا۔اس کے ساتھ ہی وفاقی کابینہ کا اتوار تین بجے بلایا جانے والا اجلاس جو مسلسل تاخیر کا شکار ہوتا رہا، بالآخر سوموار تک موخر کر دیا گیا۔تقریبا اڑھائی گھنٹے جاری رہنے کے بعد پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس بھی ختم ہوا۔ کمیٹی کے چیئرمین سید خورشید شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں آئینی ترمیم پر بات ہوئی ہے لیکن کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔
اتوار کو پورا دن حکومت آئینی مسودے پر اپنے اتحادیوں اور اپوزیشن جماعتوں بالخصوص مولانا فضل الرحمان کو اعتماد میں لینے کی کوشش کرتی رہی۔
حکومت نے کئی بار بار دعویٰ کیا کہ وہ مولانا فضل الرحمان کو قائل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں جبکہ ان کے علاوہ بھی کچھ آزاد ارکان آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیں گے۔اردو نیوز سے گفتگو میں وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت حاصل کر لی گئی ہے اور مولانا فضل الرحمان کے تحفظات بھی دور کر دیے گئے ہیں۔تحریک انصاف کے وفد نے بھی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی اور انہیں آئینی ترمیم کی حمایت نہ کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی۔ تاہم اس حوالے سے بیرسٹر گوہر نے واضح کیا کہ ملاقات ہوئی ہے اور گفتگو بھی کی ہے لیکن کوئی بریک تھرو نہیں ہو سکا۔حکومتی وفد کی ملاقات کے بعد جمیعت علمائے اسلام کی سیکریٹری جنرل اور رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالغفور حیدری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ انہیں ابھی تک آئینی ترمیم کا مسودہ نہیں دیا گیا اس لیے فوری طور پر اس کی حمایت یا مخالفت کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔