دنیا کی طویل ترین خزانے کی تلاش بظاہر اپنے اختتام کو پہنچ گئی جب یہ اعلان کیا گیا کہ فرانس میں دفن سونے کے الو کے مجسمے کو 31 برس بعد ڈھونڈ لیا گیا ہے۔
اس خزانے کی تلاش کے لیے بنائی گئی آفیشل چیٹ لائن سروس پر جمعرات کی صبح شائع ہونے والی ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ ’ہم اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں گذشتہ رات ہم سنہری الّو کی نقل زیرِ زمین سے نکالنے میں کامیاب ہوئے اور اس تک پہنچنے کی ترکیب اور پہیلیوں کا حل آن لائن تصدیق کے نظام میں بھیجا گیا۔‘
’اس لیے اسے ڈھونڈنے کے لیے کسی بھی دوسری جگہ کا سفر کرنا بے معنی ہے۔‘
یہ پیغام مائیکل بیکیر نے شائع کیا جنھوں نے ’شویٹا ڈی اور‘ یعنی سنہری الّو کی السٹریٹڈ کتاب اور اس کا مجسمہ سنہ 1993 میں بنایا تھا۔
یہ کہاں سے ملا اس کے بارے میں مزید کوئی معلومات نہیں بتائی گئیں اور مائیکل بیکر ٹیلی فون پر دستیاب نہیں تھے۔
اس تلاش میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور اس بارے میں ادب کی کتابوں، پمفلٹس اور انٹرنیٹ ویب سائٹس میں ذکر آ چکا ہے۔
یہ 11 پیچیدہ پہیلیاں میکس والینٹین کی پہلی کتاب میں ترتیب دی گئی ہیں۔ سنہ 2009 میں جب ان کی وفات ہوئی تو مائیکل بیکیر نے یہ آپریشن سنبھال لیا۔
یہ گمان کیا جا رہا تھا کہ ان پہیلیوں کو حل کرنے کے لیے اشارے فرانس میں کسی ایک مخصوص جگہ جا نکلیں گے جہاں زمین کے نیچے حقیقی سنہری الّو کی کانسی کی نقل مل جائے گی اور جو یہ نکالنے میں کامیاب ہو گا اسے سونے کا اصل الو دیا جائے گا۔
خزانے کی تلاش پر ڈاکیومینٹری بنانے والے براڈکاسٹر کینال پلس نے بتایا کہ اس سنہری الو کی مالیت ایک لاکھ 26 ہزار پاؤنڈ ہے۔
سمندر کی تہہ میں موجود ’انسانی تاریخ کے سب سے بڑے خزانے‘ کی ملکیت کی جنگدنیا کے سمندروں میں کتنے غرقاب بحری جہاز ہیں؟خزانے کی تلاش میں انسانی قربانی: جب مصر میں قدیم مقبرہ کھولنے کے لیے ایک بچے کے ہاتھ کاٹ دیے گئےسکندر اعظم کے گمشدہ خزانے کی تلاش
اس خزانے کو ڈھونڈنے والوں کو ’شویٹیئرز‘ کہا جاتا ہے اور ان کی دنیا میں جمعرات کی صبح ایک جشن کا سماں تھا۔
ڈسکارڈ فورم پر ایک پوسٹ میں لکھا گیا کہ ’آخر کار الو آزاد کروا لیا گیا‘۔ ایک اور پوسٹ میں کہا گیا کہ ’میں نے نہیں سوچا تھا کہ میں اس دن زندہ بھی ہوں گا‘ اور یہ بھی کہ ’یہ کووڈ جیسا ہے۔ جب اس کا اختتام ہوا تو اچھا لگا۔‘
ایک اور صارف نے لکھا کہ ’میرے دل سے بھاری بوجھ اتر گیا۔ میں چاہتا ہوں کہ جلد مجھے اس گتھی کو سلجھانے کا حل بتایا جائے تاکہ مجھے یہ معلوم ہو سکے میں صحیح راستے پر ہوں یا نہیں۔‘
کچھ ڈھونڈنے والے اس بارے میں اب بھی مشکوک رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور انھیں ڈر ہے کہ یہ الو شاید ’میٹل ڈٹیکٹر‘ (دھاتوں کی نشاندہی کرنے والا آلہ) سے ڈھونڈا گیا۔
وضع کیے گئے قواعد کے مطابق ڈھونڈنے والے کو یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ انھوں نے پہیلیوں کو صحیح سے بوجھ کر اس کی تلاش کی اور اس الو تک وہ اتفاق سے نہیں پہنچے۔
اس الو کو ڈھونڈنے کے سفر میں والینٹین کی وفات کے بعد کچھ قانونی رکاوٹیں آئی تھیں اور کچھ ایسے افراد بھی تھے جنھوں نے بیکیر کے اس مرکزی کردار پر تعیناتی سے اختلاف کیا تھا۔
بیکیر کو خود بھی اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں تھیں۔ یہ حل ایک مہربند خط میں موجود تھا جو والینٹین کے خاندان کے پاس تھا۔
تاہم جب اس حوالے سے قانونی معاملات حل کر لیے گئے تو بیکیر نے یہ خط کھول کے وہاں تک پہنچنے کے اشارے پڑھے اور اس بات کی تصدیق کی کہ یہ الّو وہیں موجود ہے جہاں بتایا گیا۔
گذشتہ چند سال میں انھوں نے ڈھونڈنے والوں کو مزید اشارے بھی دیے ہیں، جس سے ایک نئی نسل میں اس حوالے سے دلچسپی میں اضافہ ہوا۔
خزانے کی تلاش میں انسانی قربانی: جب مصر میں قدیم مقبرہ کھولنے کے لیے ایک بچے کے ہاتھ کاٹ دیے گئےسمندر کی تہہ میں موجود ’انسانی تاریخ کے سب سے بڑے خزانے‘ کی ملکیت کی جنگرام پور کے سٹرانگ روم کا خزانہ کہاں گیاسکندر اعظم کے گمشدہ خزانے کی تلاشبحرِ اوقیانوس میں چار سو سال پہلے ڈوبنے والے جہاز کے ملبے سے خزانے کی تلاشدنیا کے سمندروں میں کتنے غرقاب بحری جہاز ہیں؟