BBC
ایک چھوٹے سے بنا کھڑکی والے کمرے میں فرش پر اکڑوں بیٹھی نسیم دیگر قیدیوں کی تشدد کے نتیجے میں ابھرنے والی آوازوں کو سن سکتی تھی۔
گارڈ نے زور سے دروازہ بجایا اور کہا کیا تم مار پیٹکی آواز سن سکتی ہو؟ تیار ہو جاؤ اگلی باری تمھاری ہے۔
دن میں 10 سے 12 گھنٹے تک ہر روز ان سے پوچھ گچھ کی جاتی اور بار بار پھانسی کی دھمکی دی جاتی تھی۔
وہ ایک خالی بیرک میں تھیں جو دو میٹر سے بڑا نہیں ہو گا جہاں نہ تو بستر تھا اور نہ ہی ٹوائلٹ۔
چار ماہ سے وہ تنہا قید میں تھیں۔ 36 سالہ ہئیر ڈریسر کے لیے یہ ایران کی بدنام زمانہ ایون نامی جیل سے پہلا تعارف تھا۔
انھوں نے یہاں جن لوگوں کو دیکھا وہ بس ان سے تفتیش کرنے والے لوگ ہی تھی۔
وہ سوچتی تھیں کہ وہ یہاں مر جائیں گی اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔
ہم نے ایون جیل میں اس وقت قید کاٹنے والی نسیم اور دیگر خواتین کی روزمرہ کی زندگی کی تصدیق متعدد باوثوق ذرائع کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات کے ذریعے کی ہے۔
یہاں قید بہت سی خواتین ان ہزاروں افراد میں شامل ہیں جنھیں ستمبر 2022 میں مہسا امینی کے قتل کے بعد عورتوں کی زن، زندگی اور آزادی کے لیے کیے جانے والے مظاہروں سے تعلق کے باعث گرفتار کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ مہسا کو مبینہ طور پر ایران کے اس قانون کو توڑنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا تھا جس کے تحت خواتین کے لیے حجاب پہننا لازمی ہے۔ گرفتاری کے بعد وہ پولیس کی تحویل میں ہلاک ہو گئی تھیں۔
اگرچہ ایون جیل سے رہائی کے بعد لوگوں نے اس کی حالت زار کے بارے میں لکھا ہے لیکن وہاں اب بھی قید لوگوں کے بارے میں لکھا جانا غیر معمولی ہے۔
جو کچھ ہم نے سنا اس نے وہاں ہونے والے ظلم اور بربریت کا پردہ چاک کیا ہے بلکہ کچھ عجیب و غریب کہانیاں بھی سننے کو ملیں۔ یہاں قیدی اب بھی خواتین کے حقوق کے لیے مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور مدافعانہ طور پر وہاں لگائی گئی پابندیوں کو چیلنج کرتے ہیں۔
ہمیں حیران کن لمحات کے متعلق بھی پتا چلا۔ ایک قیدی کو کبھی کبھار ان کے شوہر کے ساتھ وقت گزارنے کی اجازت ملتی تھی حتیٰ کہ وہ حاملہ بھی ہو گئیں۔
نسیم جنھیں ریپ میوزک سننا اور میک اپ کرنا بہت پسند ہے، کو اپریل 2023 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب انھوں نے اپنی دوستوں کے ہمراہ احتجاج میں شرکت کی تھی۔ انھی میں سے ایک دوست حکومت کی جانب سے کیے جانے والے کریک ڈاؤن میں ہلاک ہو گئی تھیں۔
انھوں نے ان کے بارے میں سوچتے ہوئے جو گلیوں میں جان کی بازی ہار گئے، تفتیش کا سامنا کیا۔
جن لوگوں نے نسیم کو قید تنہائی سے باہر نکلنے کے بعد دیکھا وہ بتاتے ہیں کہ ان کے جسم پر کٹ لگے ہوئے تھے اور نیل پڑے ہوئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کیسے اس سے جھوٹا اقبال جرم کرنے کے لیے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
رضوانے کو بھی احتجاج کے بعد ان کے شوہر کے ہمراہ سنہ 2023 میں گرفتار کیا گیا۔
ان دونوں کو ایون جیل بھجوایا گیا جہاں مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ سیکشن ہیں۔ ان کے تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ وہ ان کے شوہر کو قتل کر دیں گےاور انھیں اتنا ماریں گے کہ وہ کوئلے کی مانند سیاہ اور بینگن جیسی ہو جائیں گی۔
تنہائی میں قید کیے جانے، تفتیش اور توہین کے بعد نسیم کو خواتین کے جیل سیکشن میں بھجوا دیا گیا جہاں رضوانے سمیت 70 کے لگ بھگ خواتین موجود تھیں۔ ان میں سے زیادہ تر خواتین کو سیاسی الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
یہی وہ جگہ ہے جہاں برطانوی نژاد ایرانی شہری نازنین زگری ریتکلف بھی موجود تھیں۔ انھیں سنہ 2022 میں برطانیہ واپس جانے کی اجازت ملی تھی۔ انھوں نے اپنی قید کے تقریباً چار سال یہاں گزارے۔
ان میں سے بہت سی خواتین کو سزا دیے جانے کی وجہ ان کی سماجی و سیاسی سرگرمیاں تھیں۔ ان کے جرائم میں پرپیگنڈا کیا جانا، ریاست کے خلاف آواز اٹھانا اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے جیسے الزامات تھے۔
وہ خواتین چار سیلز میں رہتی تھیں جہاں ایک ایک میں 20 سے زیادہ خواتین موجود تھیں اور وہاں ایسے بنک بیڈ تھے جن میں سے ایک پر تین تین بستر تھے۔
تنگ جگہوں پر اکھٹے رہنا اکثر چپقلش کا باعث بنتا ہے اور کبھی کبھار لڑائیاں ہوتی ہیں، ہاتھا پائی اور زبانی کلامی دونوں صورتوں میں جھگڑے ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں خواتین بہت مضبوط تعلق بھی بنا لیتی ہیں۔
سردیوں میں یہاں ہر کوئی کانپ رہا ہوتا ہے اور خواتین اپنے گرد پانی کی گرم بوتلیں لے کر خود کو گرم رکھتی ہیں۔گرمیوں میں وہ شدید گرمی سے بے حال ہوتی ہیں۔
چھوٹے چھوٹے باورچی خانون میں چند چولہے رکھے ہوئے ہیں۔ اگر ان خواتین کے پاس جیل کی دکان سے کچھ کھانے کو خریدنے کے لیے چند روپے ہوں تو وہ اپنے لیے خود کچھ پکا سکتی ہیں۔ یہ اس غذا کا متبادل ہو سکتا ہے جو انھیں جیل کی جانب سے دی جاتی ہے۔
اس راہداری کے آخری سرے پر سگریٹ پینے کے لیے ایک قدرے تاریک اور گندی جگہ ہے۔ سیمنٹ کے پختہ گراؤنڈ میں ایک طرف کھیلنے کے لیے نیٹ لگا ہے جبکہ چھوٹی سی جگہ پودوں کے لیے ہے۔
مہسا امینی کی ہلاکت: ایران میں خواتین کا بال کٹوا کر احتجاجایرانی خواتین: اسلامی انقلاب سے پہلے اور بعدجب ایرانی خواتین نے 40 برس بعد سٹیڈیم میں میچ دیکھنے آئیںوہ خاتون جس کی وجہ سے ایرانی حکام کو جھکنا پڑا
یہاں کوئی یونیفارم نہیں ہے اور خواتین گھر سے لائے کپڑے پہن سکتی ہیں اور اپنے رہنے کی جگہوں میں آزادانہ گھوم پھر سکتی ہیں۔ یہاں دو باتھ روم موجود ہیں، ہر شام بیت الخلا جانے اور پھر اپنے دانت برش کرنے کے لیے خواتین کو قطار میں لگنا پڑتا ہے۔
یہیں پر جب چار ماہ گزر گئے تو رضوانے کو پتہ چلا کہ وہ حاملہ ہیں۔
وہ کئی برسوں سے بانجھتھیں اور بچہ پیدا کرنے کی امید کھو چکی تھیں۔ لیکن ایون کے قواعد کے مطابق وہ اور ان کے شوہر جو اب بھی مردوں کے جیل سیکشن میں قید ہیں، کو کبھی کبھار تنہائی میں ملنے کی اجازت تھی۔ ایسی ہی ایک ملاقات کے بعد رضوانے حاملہ ہو گئیں۔
جب رضوانے کو پتہ چلا کہ وہ حمل سے ہیں تو وہ کئی روز تک روتی رہیں۔
انھیں لگتا تھا کہ جیل کے اندر سب سے بدترین ذہنی دباؤ اور تناؤ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ان پرہجوم بیرکوں میں جہاں لوگ دن کا زیادہ تر وقت بستروں پر بیٹھ کر گزارتے ہیں، سب سے بڑا چیلنج اپنے لیے ایک پرسکون جگہ تلاش کرنا تھا۔
وہاں جیل کے کھانے کے باوجود انھیں سیب کے جوس، بریڈ اور گوشت کی طلب ہوتی تھی جن کا ملنا شکل ہوتا۔ جب کبھی انھیں جیل کی دکان سے گوشت مل جاتا تو اس کی قیمت باہر کی دکانوں سے دوگنی ہوتی تھی۔
بلآخر چوتھے مہینے میں جیل انتظامیہ نے انھیں الٹراساؤنڈ سکین کروانے کی اجازت دی اور ڈاکٹر نے انھیں بتایا کہ وہ حاملہ ہیں اور ان کے پیٹ میں ایک لڑکی ہے۔
جیسے ہی انھوں نے دل کی دھڑکن سنی ان کی امید بڑھ گئی۔ مگر انھیں یہ تشویش تھی کہ جیل کے حالات بچے کی صحت کے لیے خطرہ نہ بنیں۔
رضوانے فقط اپنی خوراک کے لیے پریشان نہیں تھیں بلکہ وہ مرگی کا شکار بھی تھیں اس لیے ان کے لیے ضروری تھا کہ وہ کسی بھی دباؤ سے دور رہیں۔
وہاں جیل خانے کےڈاکٹر نے انھیں بتایا کہ ان کا حمل ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔
BBC
ویدا ایک صحافی ہیں، انھیں پینٹنگ کرنے کا شوق ہے۔ وہ بستر کی چادروں کو کینوس کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور خواتین کے پوٹریٹس بھی بناتی ہیں۔
ایسا ہی ایک پورٹریٹ پکشاں عزیزی کا ہے جو ایون سے سمگل ہو کر باہر پہنچا۔ پکشاں نے نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کا شکار ہونے والوں کی مدد کے لیے عراق اور شام کے کرد علاقوں کا سفر کیا۔
پکشاں کو ایرانی حکومت کے خلاف اسلحہ استعمال کرنے کے جرم کی پاداش میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ اس سزا پر جلد عمل درآمد ہو سکتا ہے۔
ویدہ کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ جیل کی دیواروں پر ایسا کچھ پینٹ نہ کریں جس میں کوئی معنی پوشیدہ ہوں۔ وہاں صحن میں ایک دیوار پر پکشاں نے گرتی ہوئی اینٹوں کو پینٹ کیا جن کے پیچھے سبز جنگل دکھائی دے رہا تھا۔ حکام نے اس پینٹنگ کو چھپانے کے لیے وہاں سپرے کر دیا۔
وہاں ایک راہ داری میں پکشاں نے ایک دوڑتے ہوئے ایرانی چیتے کی تصویر بنائی ہے۔ کچھ خواتین کو یہ کہتے سنا گیا کہ انھیں اس تصویر سے بہت ہمت ملی ہے۔ لیکن ایک رات حکام نے اس پینٹگ کے اوپر پینٹ کر دیا اور جیل میں پینٹگ کے لیے استعمال ہونے والی چیزوں کی ترسیل روک دی۔
لیکن ایک پینٹگ چھوڑ دی گئی ہے، یہ اس راہداری میں ہے جہاں خواتین سگریٹ پیتی تھیں۔۔ اس دیوار پر نیلے سمندر میں ایک بہت بڑی لہر پینٹ کی گئی تھی۔
اس جیل میں طبی امداد حاصل کرنا ایک مشکل عمل ہے۔
ایک قیدی خاتون نرگس محمودی جو کہ انسانی حقوق کی کارکن اور امن کا نوبیل انعام حاصل کر چکی ہیں، ان کی زندگی بھی دل اور پھیپھڑوں کی خرابی کے باعث خطرے میں ہے۔
لیکن جیل میں انھوں نے ڈاکٹر تک رسائی کے لیے بہت لمبی جنگ لڑی۔ ان کے رشتہ داروں نے بتایا کہ حکام نے بار بار ان کے علاج کو روکا کیونکہ انھوں نے اپنے طبی معائنے کے موقع پر سر پر حجاب لینے سے انکار کیا تھا۔
حکام نے اپنے رویے پر تب نظر ثانی کی جب جیل میں نرگس کی بہت سی قیدی ساتھیوں نے دو ہفتوں کے لیے بھوک ہڑتال کی۔ نرگس کو دسمبر کے اوائل میں 21 روز کے لیے طبی وجوہات کی بنا پر رہا کیا گیا تھا۔
سلاخوں کے پیچھے انھوں نے دیگر خواتین کے ساتھ مظاہرے کیے، حدوں سے تجاوز کیا اور اپنے حقوق کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ قانون کا تقاضہ ہے کہ وہ سر پر سکارف لیں لیکن بہت سی قیدی خواتین نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔
حکام کے ساتھ ایک طویل جنگ کے بعد خواتین کو اجازت ملی کہ وہ اپنے بستروں کے گرد پردہ لگا سکتی ہیں تاکہ انھیں تھوڑی سی خلوت یا تنہائی میسر ہو اور وہ سی سی ٹی وی کیمروں کی نظر سے دور رہ سکیں۔
خواتین کے لیے سب سے مشکل ترین چیزوں میں سے ایک اپنی سزا سننے کا انتظار ہوتا ہے۔ نسیم سے تفتیش کرنے والوں نے انھیں سزائے موت کی دھمکی دی تھی۔ انھیں اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے لیے 500 سے زیادہ دن یعنی ایک سال سے زیادہ عرصہ انتظار کرنا پڑا تھا۔
انھیں قید میں دوسری خواتین کی قربت سے سکون ملا۔ انھیں وہ اپنی بہنیں پکارتی ہیں جنھوں نے انھیں زندگی دی اور وہ ان کے لیے ایسے ہی ہیں جیسے زخموں کے لیے بام کام کرتی ہے۔
ہر صبح ان کی کوئی نہ کوئی ساتھی ان کے بستر کے پردے ہٹا کر انھیں ناشتہ کرنے کے لیے اٹھاتی ہے۔
ایک خاتون نے ہمیں بتایا کہ ہر روز ہم کچھ ایسا کرنے کا سوچتی ہیں تاکہ دن کے اختتام تک ہم خود کو یہ بتا سکیں کہ ’ہم نے آج کا دن جیا‘ ہے۔
دیگر قیدی خواتین شاعری کی کتابیں پڑھ کر، گانے سن کر، گھر کے بنے گارڈ پر گیم کھیل کر اور ٹی وی دیکھ کر وقت گزارتی ہیں۔ وہاں دو ٹی وی ہیں جہاں وہ ایرانی چینلز پر ڈرامے، ڈاکومینٹریز اور فٹ بال میچ دیکھ سکتی ہیں۔
یہ وہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو نسیم کا سہارا بنیں، ایک ایسے وقت میں جب وہ اپنے خلاف فیصلے کی منتظر تھیں اور انھیں پھانسی کی مسلسل دھمکی دی جا رہی تھی۔
اور بلآخر جب فیصلہ سنایا گیا تو انھیں تہران سے دور ایک چھوٹے سے گاؤں میں چھ سال قید، 74 کوڑے اور 20 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
ان پر پرپیگنڈا پھیلانے اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا الزام تھا۔
اس سزا کی سختی کے باوجود نسیم کو پتا تھا کہ وہ دوبارہ سانس لے سکیں گی اور اس زندگی کو پھر سے جی سکیں گی جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ یہ ختم ہو چکی ہے۔
اس جیل میں تین اور خواتین کو بھی سزائے موت سنائی گئی ہے۔ ان پر مسلح گروہوں سے تعلق اور ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے جیسے الزامات ہیں۔ بہرحال ان میں اسے ایک خاتون قیدی کی سزائے موت کا فیصلہ منسوخ کر دیا گیا۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے مطابقگذشتہ برس ایران میں 800 سے زیادہ افراد کو پھانسی دی گئی تھی۔ یہ آٹھ برس کے دوران سب سے زیادہ تعداد ہے۔ ان میں سے زیادہ تر تشدد اور منشیات سے متعلقہ جرائم میں ملوث تھے۔ ان میں سے بہت کم تعداد خواتین کی تھی۔
ہر منگل کو خواتین پھانسی کی سزا کے خلاف احتجاج کرتی ہیں، وہ جیل کے صحن میں نعرے لگاتی ہیں، وہ تمام رات وہاں سے اٹھنے سے انکار کرتی ہیں اور بھوک ہڑتال تک کرتی ہیں۔
یہ مہم پورے ایران کی جیلوں میں پھیل چکی ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس کی حمایت کی جا رہی ہے۔
مہسا امینی کی برسی کے موقع پر ایون جیل میں موجود قیدی خواتین نے اپنے سکارف جلا دیے تھے۔
لیکن انھیں اس کے نتائج بھی بگھتنا پڑتے ہیں۔۔۔ کبھی کبھار گارڈز بیرکوں میں چھاپے مار کر خواتین کو مارتے ہیں جس سے وہ زخمی ہو جاتی ہیں۔
انھیں مزید تفتیش کے لیے بھی بلوایا جا سکتا ہے، دوبارہ قید تنہائی میں ڈالا جا سکتا ہے یا پھر ان کی جیل میں ملاقاتوں اور فون کرنے پر پابندی لگ سکتی ہے۔
جیل سے ہمارے ایک اور ذریعے نے ہمیں بتایا کہ ’یہاں زیادہ تر گارڈز خواتین ہیں اور کبھی کبھی وہ مہربان ہوتی ہیں اور کبھی کبھار ظالم اور سخت دل ہو جاتی ہیں، اس کا انحصار ان کو اعلیٰ حکام سے ملنے والے احکامات پر ہوتا ہے۔‘
ایرانی حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی تردید کرتی ہے اور کہتی ہےکہ ایون جیل کے اندر حالات تمام معیارات پر پورا اترتے ہیں اور قیدیوں کے ساتھ برا سلوک نہیں کیا جاتا۔
جیسے ہی رضوانے کی ڈلیوری ڈیٹ قریب آئی جیل حکام نے انھیں بچے کی پیدائش کے لیے عارضی طور پر جیل سے چھٹی دی۔ رواں برس اکتوبر میں ان کے ہاں بچی کی پیدائش ہوئی۔
لیکن اپنی بچی کی آمد کی خوشی اور سکون میں خوف، اداسی اور غصہ بھی شامل ہو گیا۔ ان کے شوہر کو ان کے ہمراہ جیل سے باہر نہیں جانے دیا گیا۔ تاہم انھیں ایون میں اپنی بیٹی کے ہمراہ اس کے والد کے پاس جانے اور ملنے کی اجازت دی گئی۔
وہ توقع کر رہی ہیں کہ جلد ہی اپنی بچی کے ساتھ انھیں ایون جیل واپس بلایا جائے گا تاکہ وہ اپنی پانچ سال کی باقی سزا پوری کر سکیں۔
اگر رضوانے کو جلد رہائی نہ دی گئی تو انھیں کم از کم چار سال مزید جیل میں گزارنا ہوں گے۔
بچوں کو عموماً دو سال کی عمر تک والدہ کے ہمراہ جیل میں رہنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس کے بعد ایسے بچوں کو عموماً قریبی رشتہ داروں کے پاس بھجوا دیا جاتا ہے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو انھیں بچوں کی حفاظت کے لیے چائلڈ ہوم میں رکھا جاتا ہے۔
لیکن یہاں ہونے والا سلوک ان قیدی خواتین کو توڑ نہیں سکا۔۔۔۔ ایک قیدی نے بتایا کہ ہم جن تکالیف کا سامنا کرتی ہیں وہ ہمیں مزید بہادر اور مضبوط بناتی ہیں اور ہمارے اس یقین کو تقویت دیتی ہیں کہ مستقبل روشن ہو گا چاہے اس کے لیے ہمیں جیل میں ہی لڑنا پڑے۔
’باہر اللہ اکبر کی صدا سن کر جیل سے ننگے پاؤں بھاگے‘: شام کی بدنام صیدنایا جیل سے رہائی پانے والے قیدیوں کی کہانیایران میں 31 سال کے لیے قید نرگس محمدی جن کا نوبیل انعام ان کے بچوں نے وصول کیا’انھوں نے مجھے اسرائیلی جاسوس کہا اور دھمکایا کہ اگر ہم چُپ نہ ہوئے تو وہ ہمارا ریپ کر دیں گے‘مہسا امینی کی ہلاکت: ایران میں خواتین کا بال کٹوا کر احتجاج