تنخواہ دار طبقے نے تاجروں سے 1550 فیصد زیادہ ٹیکس ادا کیا

ہم نیوز  |  Oct 18, 2024

پاکستان میں مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر تنخواہ دار طبقے نے رواں مالی سال کے صرف تین ماہ میں مجموعی طور پر 111 ارب روپے کا انکم ٹیکس ادا کیا ہے۔

جو تاجروں کے ادا کردہ ٹیکسوں سے 1550 فیصد اور پچھلے مال سال کی نسبت 56 فیصد زیادہ ہے، گزشتہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تنخواہ دار افراد نے 71 ارب روپے ادا کیے تھے۔

حکومت نے رواں سال جون میں اخراجات میں کمی اور ٹیکس نیٹ کو موثر انداز میں بڑھانے کے بجائے تنخواہ دار افراد پر ٹیکس بوجھ میں غیر معمولی اضافہ کیا۔ 28 ارب روپے کا انکم ٹیکس تمام وفاقی اور صوبائی سرکاری ملازمین نے ادا کیا ہے جن کی تنخواہوں میں میں 20 سے 25 فیصد اضافہ ہوا۔

باقی 83 ارب روپے کا انکم ٹیکس نجی شعبے کے ملازمین نے ادا کیا جن کی اکثریت کو سالانہ انکریمنٹ بھی نہیں ملتی،اس کے مقابلے میں ایف بی آر نے تاجروں سے صرف 6.7 بلین روپے جمع کیے۔

ملک کا 5 فیصد امیر ترین طبقہ ٹیکس ادا نہیں کر رہا، چیئرمین ایف بی آر

حکومت نے بجٹ میں تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی امید رکھتے ہوئے سپلائی پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 2.5 سے 150 فیصد تک بڑھا دی تھی اس کے باجود تاجروں نے بمشکل ایف بی آر کو براہ راست صرف10 لاکھ روپے ٹیکس ہی ادا کیا جو آئی ایم ایف کی جانب سے دئیے گئے ٹارگٹ کا 0.001 فیصد بنتا ہے۔

رواں مالی سال کی جولائی تا ستمبر سہ ماہی کے لیے تاجر دوست سکیم کے تحت ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس محصولات کا حجم 10 ارب روپے تھا۔ تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار افراد کو کوئی ریلیف دینے کے بجائے حکومت نے تنخواہ دار افراد کے لیے انکم ٹیکس کی شرح کو بڑھا کر تقریبا 39 فیصد، ایسوسی ایشن کے لیے 44 فیصد اور غیر تنخواہ دار افراد کے لیے 50 فیصد کر دیا۔

جس کو موجودہ چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے خود غیر منصفانہ قرار دیا۔حکومت نے ایک شخص کی طرف سے 10 ملین روپے کی سالانہ آمدن پر ادا کیے جانے والے انکم ٹیکس پر 10 فیصد سرچارج بھی لگا دیا تھا۔

ایف بی آر نے وفاقی کابینہ کو بتایا تھا کہ بجٹ میں ٹیکس کی شرح میں اضافے کے بعد رواں مالی سال 2024-25 میں تنخواہ دار طبقے کی جانب سے اضافی ٹیکس حصہ 85 ارب روپے ہو جائے گا لیکن پہلے تین مہینوں کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایف بی آر نے تنخواہ دار طبقے کے صرف اضافی ٹیکسوں کو کم کیا۔ایف بی آر نے صرف تین ماہ میں 40 ارب روپے اضافی جمع کر لیے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More