اگر آپ پیشہ ورانہ گلوکار نہیں بھی ہیں تو کم از کم گُنگناتے تو ضرور ہوں گے۔ اپنا پسندیدہ گیت گاتے ہوئے شاید ہر کسی کو لگتا ہے کہ وہ سُر اور تال سے پُورا پُورا انصافکر رہا ہے۔ اب چاہے یہ سب سننے والوں کی سماعتوں پر کتنا ہی گراں کیوں نہ گزر رہا ہو۔
لیکن اب ہر کوئی ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنی آواز کو بے عیب اور سُریلا بنا سکتا ہے۔ اور اس کا کریڈٹ آٹو ٹیون نامی سافٹ ویئرز کو جاتا ہے۔
اگرچہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال اب موسیقی کی دنیا میں عام ہے لیکن یہی ٹیکنالوجی پاکستان میں اچھا گانے والے کچھ فنکاروں کے درمیان بھی تنازعے کا باعث بن گئی ہے۔
پاکستان میں کچھ دن سے آٹو ٹیون کو لے کر دو پاکستانی گلوکاراؤں کے بیانات سوشل میڈیا پر زیر بحث ہیں جس پر کچھ اور فنکاروں نے بھی اظہارِ خیال کیا ہے۔ زیادہ تر لوگ دونوں کو ہی اچھی اور سُریلی کہہ رہے ہیں۔
ہوا یوں کے پاکستان کی ایک مشہور گلوکارہ آئمہ بیگ کے بارے میں ایک دوسری گلوکارہ سارہ رضا خان نے یہ کہہ دیا کہ ’اگر آٹو ٹیون نہ ہو تو آئمہ بیگ گلوکارہ ہی نہیں۔‘
پہلے تو آئمہ خاموش رہیں لیکن پھر انھوں نے بنا میوزک اپنا ایک گانا گا کر سوشل میڈیا پر شیئر کیا اور پھر کہا ’یہ آنٹی ہیں کون؟‘
Getty Imagesآٹو ٹیون ہے کیا؟
آپ اپنی قدرتی آواز میں گائے ہوئے گانے معمولی پچ کی غلطیوں کو درست کرنے کے لیے آٹو ٹیون کا استعمال کرسکتے ہیں۔ لیکن جدید پاپ یا ہپ ہاپ موسیقی کی بات کریں تو آٹو ٹیون کو اکثر ایک مخصوص ’روبوٹک ووکل‘ اثر پیدا کرنے کے لیے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔
آٹو ٹیون ایک آڈیو پروسیسر سافٹ ویئر ہے جو ستمبر 1997 میں امریکی کمپنی انٹارس آڈیو ٹیکنالوجیز نے بنایا تھا۔
آٹو ٹیون ایک ایسا ڈیجیٹل ٹول ہے جو ریکارڈ شدہ آوازوں اور آلات کی پِچ کو ایڈجسٹ اور درست کرتا ہے۔
آٹو ٹیون کا مقصد ابتدائی طور پر سُروں کی غلطیوں کو چھپانا یا درست کرنا تھا، جس کی مدد سے گانوں کو مکمل طور پر ٹیون کیا جاسکتا تھا۔
نصرت فتح علی خان کی البم کی ریلیز: 34 برس قبل ریکارڈ کی گئی قوالیاں لندن کے ویئرہاؤس سے کیسے ملیں؟وہ کشمیری قبیلہ جو موسیقی کے ذریعے انڈیا اور پاکستان کی سرحد پھلانگ رہا ہے’ہپ ہاپ موسیقی نے مجھے اسلام قبول کرنے کی طرف راغب کیا‘نصیبو لال کا گانا جو ملزم اور پولیس دونوں کے لیے درد سر بن گیا
1998 میں امریکی گلوکارہ شیر اپنے ایک گانے ’بیلیو‘ (Believe) میں آواز کو مسخ کرنے کے لیے آٹو ٹیون کا استعمال کیا جس کے بعد یہ تکنیک کافی مقبولہو گئی۔
اس کے بعد سے اسے دنیا بھر میں بہت سے فنکاروں نے استعمال کیا گیا ہے۔
آٹو ٹیون کو بنیادی طور پر پچکی درستگی کے آلے کے طور پر پہچانا جاتا ہے لیکن اب اس نے موسیقی کی صنعت کا چہرہ ہمیشہ کے لیے بدل دیا ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران اس کے اثرات نے مجموعی طور پر آواز اور موسیقی کی ثقافت میں انقلاب برپا کیا۔
اور آج یہ دنیا بھر میں ہر پروڈیوسر کی ٹول کٹ میں ایک ناقابل فراموش آلہ ہے۔
کیا آٹو ٹیون کا استعمال فنکاروں کے لیے باعثِ شرم ہے؟
اس حوالے سے پاکستان میں دورِ حاضر کے صف اوّل کے موسیقار و گلوکار احمد جہانزیب نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آٹو ٹیون آج سے نہیں کئی سالوں سے استعمال ہو رہا ہے اور اس کا مختلف طرح استعمال کیا جاتا ہے۔
احمد جہانزیب کا کہنا ہے کہ ’ہر کوئی پیدائشی سُریلا نہیں ہوتا اور سُریلوں میں بھی کچھ نہ کچھ خامیاں ہوتی ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جنھیں فائن ٹیونگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘
انھوں نے واضح کیا کہ آٹوٹیون در اصل فائن ٹیونگ کے لیے ہے اور سپورٹ نہیں ہے۔ البتہ ’جو بالکل گلوکار نہیں ہیں، ان کے لیے شاید یہ سپورٹ ہو۔‘
احمد جہانزیب کا کہنا تھا کہ ’میں خود کبھی کبھار آٹو ٹیون استعمال کرتا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بالی وڈ اور ہالی وڈ میں بھی بڑے گلوکار اسے استعمال کرتے ہیں کیونکہ ہر شخص ہر وقت سُریلا نہیں ہوسکتا۔ اسے منفی انداز میں نہیں لینا چاہیے۔‘
تو کیا یہ سافٹ ویئر گلوکاروں کے لیے باعث شرم ہے؟
موسیقار و گلوکار احمد جہانزیب کا کہنا ہے کہ وہ اس بات پر حیران ہیں کہ آٹو ٹیون ایک مدد گار ٹیکنالوجی ہے اسے باعثِ شرم کیوں بنایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس دنیا میں کوئی کامل نہیں اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہر بڑے سنگر کو اندازہ ہوتا ہے کہ کب اس کی آواز ٹوٹی، کب آواز میں جُنبش آئی کب سُر ٹھیک نہیں لگا۔ ہم تو لائیو پرفارمنس سنتے رہتے ہیں۔ بہت فرق ہوتا ہے لائیو اور ریکارڈنگ میں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ موسیقی کے انداز بدل اور پھیل رہے ہیں۔ ’موسیقی کی جدت کو قبول کیا جانا چاہیے۔ ‘
احمد جہانزیب کا کہنا ہے کہ موسیقی کی دنیا میں ٹیکنالوجی 1930 سے استعمال ہو رہی ہے جب سے مائیک اور ریکارڈنگ وجود میں آئی۔ ٹیکنالوجی کا استعمال برا نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم کہیں کہ ہمیں 1920 کی موسیقی پسند ہے ہم صرف وہیں سنیں گے باقی سب بکواس ہے۔ تو یہ ٹھیک نہیں ہے‘۔
ان کا کہنا تھا ایسی جنگ کا کوئی فائدہ نہیں۔ کسی کو برا کہنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
احمد جہانزیب کا کہنا تھا کہ ’کسی کو چیلنج کرنا یا نیچا دکھانا ٹھیک نہیں۔ موسیقی کی دنیا میں پہلے ہی بہت کم لوگ ہیں اگر کوئی آ رہا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کریں۔‘
Getty Imagesآٹو ٹیون کیسے کام کرتا ہے؟
آٹو ٹیون آڈیو سگنل کا تجزیہ کرکے ووکل نوٹوں یعنی آواز میں سُروں کے اتار چڑھاؤ کا پتہ لگاتا ہے۔ جب پچ کا پتہ چلتا ہے تو سافٹ ویئر اس کا موازنہ پہلے سے طے شدہ پیمانے یا مطلوبہ لہجے سے کرتا ہے اگر ریکارڈ شدہ پچ اس حوالے سے مختلف ہو تو یہ اسے قریب ترین نوٹ میں بدل دیتا ہے۔
اس کے ذریعے آپ رفتار کو بھی ایڈجسٹ کرسکتے ہیں۔ اس سے چھیڑ چھاڑ کے بعد آواز کے روبوٹک ہونے یا نہ ہونے کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
آٹوٹیون کی مدد سے فنکار لا تعداد طریقوں سے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو ظاہر کرسکتے ہیں جن میں سے کئی اب تک آزمائے بھی نہیں گئے۔
آٹوٹیون کا بنیادی کام پِچ کی اصلاح ہے۔ اگر گلوکار تھوڑا سا آف پچ ہے تو آٹو ٹیون ان کی پچ کو قریب ترین حقیقی سیمی ٹون (یا مطلوبہ کسی بھی پچ) میں ایڈجسٹ کرسکتا ہے۔
اس کی مدد سے سُروں کی معمولی غلطیوں کو درست کیا جا سکتا ہے۔ یا روبوٹک اثر پیدا کیا جاسکتا ہے جو ہپ ہاپ اور ٹریپ موسیقی میں مقبول ہوگیا ہے۔
آٹو ٹیون کو مختلف صوتی اثرات یعنی ووکل ایفیکٹس پیدا کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
آٹو ٹیون سافٹ ویئر کے جدید ورژن لائیو پرفارمنس کے دوران ریئل ٹائم پچ کی اصلاح بھیفراہم کرتے ہیں جس سے گلوکاروں کو سٹیج پر بھی سُر میں رہنے میں مدد ملتی ہے۔
اگرچہیہ سافٹ وئیر عام طور پر آواز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاہمآٹوٹیون کو مونوفونک موسیقی کے آلات کی پِچ کو درست کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
Getty Imagesکیا آٹو ٹیون کی مدد سے کوئی بھی سنگر بن سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں موسیقار و گلوکار احمد جہانزیب کہتے ہیں کہ ’اس سافٹ ویئر میں بہت گنجائش ہے، اگر آپ بالکل سُر سے باہر ہیں تو وہ آپ کی آواز کو سُر میں لے آتا ہے۔‘
مزید وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ آواز کے سٹرکچر ہیں کچھ لوگ گلے سے، کچھ چیسٹ سےیا ناک سے آواز نکالتے ہیں تو یہ اسے بھی ٹھیک کر سکتا ہے۔‘
لیکن احمد جہانزیب کہتے ہیں کہ ’ایسے گلوکاروں کی کمزوریاں اُس وقت سامنے آجاتی ہیں ہیں جب براہِ راست پرفارم کرنا پڑتا ہے۔ لائیو میں تو کئی مشہور فنکار حتیٰ کے ہالی وڈ کے مشہور سنگرز کے راز فاش ہوئے کہ پیچھے ریکارڈنگ بج رہی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سُریلے سنگرز کو خطرہ محسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کا راز تو براہِ راست پرفارمنس میں کُھل ہی جائے گا۔‘
احمد جہانزیب کا کہنا تھا کہ جہاں تک ٹیکنالوجی کے استعمال کے بات ہے تو اگر اینڈ پراڈکٹ اچھی ہے اور ’اگر موسیقی کانوں کو بھلی لگ رہی ہے تو اسے انجوائے کرنا چاہیے۔‘
’ہپ ہاپ موسیقی نے مجھے اسلام قبول کرنے کی طرف راغب کیا‘’آمدن کے ساتھ عوامی مقبولیت‘: انڈیا میں مسلمان مخالف نفرت آمیز موسیقی کیوں بن رہی ہے؟نصرت فتح علی خان کی البم کی ریلیز: 34 برس قبل ریکارڈ کی گئی قوالیاں لندن کے ویئرہاؤس سے کیسے ملیں؟دلجیت کی کانسرٹ میں ہانیہ عامر سے ملاقات: ’سپر سٹار آئی ہو اور وہ نیچے کھڑی رہے ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟‘نصیبو لال کا گانا جو ملزم اور پولیس دونوں کے لیے درد سر بن گیا