Getty Images
آئیے ایک بہت ہی عام صورت حال کا تصور کریں۔ دو لوگ تیزی سے چلتے ہوئے سڑک پر ایک دوسرے کے قریب سے گزر رہے ہیں۔ وہ دوست، ساتھی کارکن یا جاننے والے ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک نے سلام کرتے ہوئے کہا کہآپ کیسے ہیں؟‘ خود بخود، دوسرا جواب دیتا ہے: ’چھوڑیں جی، اتنا کافی نہیں ہے۔‘ تھوڑی دیر بعد ہر ایک اپنے انداز سے بات آگے بڑھاتا ہے۔
مختصر ملاقات کے شروع ہوتے ہی گلے شکوے شروع ہوجاتے ہیں۔
21ویں صدی میں ترقی یافتہ معاشرے میں بھی اس قسم کے رویے سماجی رابطوں کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ درحقیقت، ٹریفک، موسم، کام یا مالی مشکلات کے بارے میں شکایات سننا کافی معمول کی بات ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ بے ضرر اور یہاں تک کہ بہتری کی علامت ہے کیونکہ اس سے جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔
تاہم، بات بات پر شکایت کرنے والوں اور افسوسناک تبصرے سننے والوں دونوں پر اس کا جذباتی، ذہنی، اور یہاں تک کہ جسمانی صحت پر بھی نمایاں اثر ہوتا ہے۔
Getty Imagesروزمرہ کا واقعہ
یہاں ہم منفی سمجھے جانے والے حالات کی وجہ سے عدم اطمینان، مایوسی یا تکلیف کے بار بار اظہار پر توجہ دیں گے۔ یہ تقریباً ایک عالمی مسئلہ ہے جسے خاندان، کام اور سماجی سیاق و سباق میں مزید دیکھا جا سکتا ہے۔
کبھی کبھار شکایت انسانی جبلت ہے۔ جذباتی اور جسمانی تھکن تب ہوتی ہے جب یہ منفی مزاج ہمارے روزمرہ کے معمولات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
بہترین خبروں کے لیے بی بی سی اردو کا واٹس ایپ چینل کیسے سبسکرائب کریں
لیکن ہم اتنی شکایت کیوں کرتے ہیں؟ کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ ایسا اس وجہ سے ہوتا ہے تاکہ پریشانی ختم ہو سکے یا اس کا مقصد اپنے مؤقف کی تائید حاصل کرنا ہوتا ہے۔
اس وقت تک یہ ہمارے سماجی رابطوں کے لیے ایک حکمت عملی ہے جو کہ انسان خود اختیار کرتا ہے۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب یہ طرز عمل مستقل عادت میں بدل جائے۔
یہ ایک ایسی صورت حال ہے جو سوشل نیٹ ورکس کے استعمال اور پھر غلط استعمال سے بدتر ہوتی جاتی ہے، جہاں نوجوانوں اور بااثر صارفین کے لیے یہ عام سی بات بن جاتی ہے کہ وہ اپنے فالورز کی توجہ حاصل کرنے کے لیے یا خاص بحث چھیڑنے کے لیے یہ سب کرتے ہیں۔
فرانسیسی شکایت کرنا اتنا زیادہ کیوں پسند کرتے ہیں؟روسی مائیں اپنے ہی بچوں کو کیوں قتل کر رہی ہیں؟کچھ لوگ نامناسب رویوں کو افشا کرنے کا خطرہ مول کیوں لیتے ہیں؟انسانی شخصیت کے تاریک پہلودماغ اور ذہنی صحت پر اثرات
اگرچہ یہ تحقیق کا ایک اہم شعبہ ہے اور اس کے لیے مزید مطالعات کی ضرورت ہے، نیورو سائنس نے پہلے ہی شکایت کی ’ایٹولوجی‘ یعنی ہر چیز کے لیے ذمہ دار کسی اور چیز کو قرار دینے کی روش اور اس کے نتائج کا جائزہ لیا ہے۔
مختلف تحقیقات سے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ انسانی دماغ کو خطرات اور مسائل کی نشاندہی کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، جو یہ بتاتا ہے کہ ’منفیت‘ پر توجہ مرکوز کرنا اتنا آسان کیوں ہے اور کیوں کچھ لوگ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ شکایت کرتے ہیں۔
یہ ایک ارتقائی طریقہ کار بھی ہے۔ انسانی دماغ منفی باتوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے کیونکہ اس نے اسے ہزاروں سال پہلے حقیقی خطرے کو دکھایا تھا اور اس کے زندہ رہنے کے امکانات میں اضافہ ہوا تھا۔
یہ اثر جسے منفی تعصب کہا جاتا ہے جدید ماحول میں نقصان دہ ہو سکتا ہے کیونکہ ’بری چیز‘ پر مسلسل توجہ مرکوز کرنے سے لوگوں کے دنیا کو دیکھنے کے انداز میں تبدیلی آ سکتی ہے اور اس طرح شکایت پر مبنی نئی بات چیت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
Getty Images
کچھ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ہر وقت شکایت یا پچھتاوے کا عمل دماغ میں ساختی تبدیلیوں کا سبب بن سکتا ہے جس کے نتیجے میں، مسائل کو حل کرنے اور دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ شکایت کنندگان مسائل کو حل کرنے، فیصلہ سازی یا منصوبہ بندی جیسے کاموں کو کم ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ اور بھی مایوسی پیدا کرتا ہے اور نتیجتاً، زیادہ شکایات کا سبب بنتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ روزانہ کی شکایات کا تعلق بے چینی اور افسردگی کی علامات سے ہوتا ہے۔
اس سے منتشر خیالی، افواہوں، کم خود اعتمادی، تھکاوٹ اور ذہنی تھکاوٹ جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں، جو لوگ ہر چیز کے بارے میں شکایت کرنا بند نہیں کرتے، وہ مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے زیادہ مایوسی اور کم لچکدار ہوتے ہیں۔
رویہ بدلنے کی حکمت عملی
منفی رویے سے نکلنے اور ذہنی پریشانی سے نکلنے کے لیے چند رہنما اصول یہ ہیں:
شکرگزار رہیں:
ہمارے پاس جو کچھ ہے اس پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس لمحے پر توجہ مرکوز کرنا شکر گزاری کو فروغ دیتا ہے۔ جو نعمتیں ہمیں میسر ہیں ان کا ادراک ہمارےنکتہ نظر کو بدل دیتا ہے۔
حل تلاش کریں:
کسی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ممکنہ اقدامات کی فہرست بنانے سے ہمیں کنٹرول کا احساس ملتا ہے کہ ہم اس معاملے پر قابو پا سکتے ہیں اور ایسا کرنا مایوسی کو کم کرتا ہے۔
اپنی باتوں پر توجہ دیں:
سائیکونیورو لنگوئسٹکس ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم جو زبان استعمال کرتے ہیں اس سے آگاہ ہونا اور اسے زیادہ مثبت یا غیرجانبدار بنانے میں ہماری سوچ بدلنے میں مدد مل سکتی ہے۔
دوسروں کے ساتھ حدود طے کریں:
یہ ایک حفاظتی طریقہ کار ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایسی گفتگو سے گریز کریں جس میں منفی رویہ ہو یا مسائل کے لیے زیادہ تعمیری نقطہ نظر تجویز کریں۔
بلا شبہ، مسلسل شکایت کرنے کی غیر صحت بخش عادت سے آگاہ ہونا اور اسے بدلنے کی کوشش کرنا معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے۔ یہ ایک ایسا مقصد ہے جو ہر فرد کی ذاتی نشوونما کا حصہ ہے اور اسے نفسیاتی علاج کی مدد سے تقویت دی جا سکتی ہے۔
اس سے پہلے کہ آپ دوبارہ شکایت کریں، اس کے ساتھ آنے والے دماغی، جذباتی اور سماجی اثرات پر غور کریں۔ اور یاد رکھیں کہ شکایت کرنا منفی ردعمل نہیں ہے مگر کہیں یہ عادت نہ بن جائے۔ ہم کامل نہیں ہیں، ہم انسان ہیں۔
40 سال کی عمر کے بعد انسانی دماغ میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں اور اسے صحت مند کیسے رکھا جا سکتا ہے؟ہم اپنے دماغ کو صحت مند اور تیز کیسے بنا سکتے ہیں؟ہمارا دماغ ہمیں غریب کیسے بناتا ہے اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہےانسانی دماغ میں موجود وہ خصوصیات جو انسان کو جانوروں سے زیادہ ذہین بناتی ہیںکچھ لوگ نامناسب رویوں کو افشا کرنے کا خطرہ مول کیوں لیتے ہیں؟