افغانستان میں نرسنگ اور مڈوائفری کورسز پیش کرنے والے کئی اداروں کے سینئر ملازمین نے کہا کہ طالبان کے سپریم لیڈر کے ایک غیر تحریری حکم نامے کے بعد خواتین کو کلاسز لینے سے روک دیا جائے گا۔
’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق صحت عامہ کی وزارت کے ایک عہدیدار، جنہیں میڈیا سے بات کرنے کا اختیار نہیں تھا، نے انکشاف کیا کہ صحت کے حکام نے پیر کو دارالحکومت کابل میں تعلیمی اداروں کے ڈائریکٹرز سے ملاقات کی تاکہ انہیں اس فیصلے سے آگاہ کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ’اب تک کوئی سرکاری خط سامنے نہیں آیا ہے لیکن اداروں کے ڈائریکٹرز کو ایک ملاقات میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اور لڑکیاں اب ان کے اداروں میں مزید تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ان ڈائریکٹرز کو کوئی تفصیلات اور جواز فراہم نہیں کیا گیا اور صرف سپریم لیڈر کے حکم کے بارے میں بتایا گیا اور اس پر عمل درآمد کرنے کو کہا گیا تھا۔‘
ملاقات میں شرکت کرنے والے ایک انسٹی ٹیوٹ کے منیجر نے بتایا کہ درجنوں مینیجر ملاقات میں موجود تھے۔
ایک اور سینٹر کے ایک سینئر ملازم نے بتایا کہ ان کے باس نے اس حکم کے بارے میں الجھن کے بعد منگل کو حکام صحت کے ساتھ ایک الگ ملاقات کی۔ ملازم نے بتایا کہ اداروں کو فائنل امتحانات کے لیے 10 دن کا وقت دیا گیا ہے۔
کچھ مینیجرز نے وضاحت کے لیے وزارت سے درخواست کی ہے، جبکہ دیگر نے تحریری حکم کی عدم موجودگی میں معمول کے مطابق کام جاری رکھا ہوا ہے۔
وزارت صحت کے ذرائع نے بتایا کہ افغانستان میں لگ بھگ 10 سرکاری اور 150 سے زیادہ نجی صحت کے ادارے ہیں جو 18 مضامین میں دو سالہ ڈپلومے پیش کرتے ہیں، جن میں مڈوائفری سے لے کر اینستھیزیا، فارمیسی اور دندان سازی شامل ہیں، جن میں کُل 35 ہزار خواتین طالبات زیر تعلیم ہیں۔
2021 میں طالبان کے حکام کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے کچھ ہی عرصے بعد، اقوام متحدہ کی طرف سے ’جنسی عصبیت‘ کھلائی جانے والی پابندیوں کے تحت لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول سے آگے کی تعلیم سے روک دیا تھا۔
خواتین طالبات نے اس کے بعد صحت کے اداروں کا رخ کیا، جو ان چند تعلیمی میدانوں میں سے ایک ہے جو ان کے لیے اب بھی کھلے ہیں۔ اب خواتین ان مراکز میں طلبہ کی اکثریت ہیں۔
ایک مینیجر نے کہا کہ ’اب ہم اپنے صرف 10 فیصد طلبہ کے ساتھ کیسے آگے بڑھیں گے؟‘
کابل کے ایک نجی انسٹی ٹیوٹ کی 28 سالہ خاتون مڈوائفری ٹیچر عائشہ (فرضی نام) نے کہا کہ انہیں انتظامیہ کی طرف سے ایک پیغام موصول ہوا، جس میں انہیں بہت کم وضاحت کے ساتھ کہا گیا تھا کہ وہ اگلے نوٹس تک کام پر نہ آئیں۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ ہمارے لیے ایک بڑا جھٹکا ہے۔ نفسیاتی طور پر، ہم ہل گئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ان لڑکیوں اور خواتین کے لیے امید کا واحد ذریعہ تھا جن پر یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔‘
برطانیہ کے ناظم الامور نے کہا کہ وہ ان رپورٹس سے ’سخت فکر مند‘ ہیں۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر پوسٹ میں کہا کہ ’یہ خواتین کے تعلیم کے حق کی ایک اور توہین ہے اور افغان خواتین اور بچوں کے لیے صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کو مزید محدود کر دے گی۔‘
وزارت صحت کے ذرائع نے کہا کہ اس پابندی سے پہلے سے مشکلات کے شکار صحت کے شعبے کو مزید نقصان پہنچے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس پہلے ہی پیشہ ور میڈیکل اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی کمی ہے اور اس پابندی کے نتیجے میں مزید کمی ہوگی۔‘