’سمارٹ واچ نے شوہر کے کار حادثے کا پیغام دیا لیکن وہ تو ریس ٹریک پر تھے‘: ڈیجیٹل پہناوے کتنے محفوظ ہیں

بی بی سی اردو  |  Dec 06, 2024

ویئر ایبل ٹیکنالوجی (جسے پہنا جا سکے) میں اس وقت سمارٹ واچ سرِفہرست ہے۔ یہ ایک اربوں ڈالر کی صنعت ہے جہاں صحت کے نام پر بھی پراڈکٹ کی تشہیر کی جاتی ہے۔

ایسی مصنوعات ورزش کی روٹین، جسمانی درجہ حرارت، دل کی دھڑکن، ماہواری اور نیند کی عادات کو درست انداز سے ریکارڈ کرنے دعویٰ کرتی ہیں۔

برطانوی سیکریٹری صحت ویس سٹریٹنگ نے این ایچ ایس کے لاکھوں مریضوں کو ایسی ٹیکنالوجی دینے کی تجویز دی ہے تاکہ وہ گھر سے کینسر کے علاج کے ردعمل جیسی علامات کا ریکارڈ رکھ سکیں۔

لیکن بہت سے ڈاکٹرز اور ٹیکانلوجی کے ماہرین صحت کے ڈیٹا کے ریکارڈ کے بارے میں آپ کو محتاط رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

میں ابھی الٹرا ہیومن فرم سے ایک سمارٹ انگوٹھی آزما رہی ہوں اور ایسا لگتا ہے کہ میں ایسا کرنے سے پہلے ہی بیمار ہو رہی ہوں۔

اس نے مجھے ایک چھٹی کے روز الرٹ کیا کہ میرے جسم کا درجہ حرارت کچھ بڑھ رہا ہے۔ اور یہ کہ میری نیند پوری نہیں ہوئی۔ اس نے مجھے خبردار کیا کہ یہ کسی بیماری کی علامت ہو سکتی ہیں۔

میں نے ماہواری بند ہونے یعنی مینوپاز سے پہلے کی علامات کو نظر انداز کیا لیکن دو دن کے بعد میں پیٹ میں تکلیف کے باعث بیڈ پر تھی۔

مجھے طبی طور پر مدد کی ضرورت نہیں تھی لیکن اگر ایسی ضرورت پڑتی تو کیا پہناوے کی صورت میں استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی کا ڈیٹا میرے ڈاکٹر کو میرے علاج میں کوئی مدد دیتا؟ بہت سے برینڈز اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر اورا سمارٹ رنگ مریضوں کو یہ سروس فراہم کرتی ہیں کہ وہ اس ریکارڈ کیے جانے والے ڈیٹا کو ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں اور رپورٹ کی صورت میں اپنے ڈاکٹر کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں۔

کولوسس: پراسرار سپر کمپیوٹر جسے چلانے کے لیے 10 لاکھ گیلن پانی اور 150 میگاواٹ بجلی درکار ہو گی’ایپل انٹیلیجنس‘ کیا ہے اور یہ آپ کے آئی فونز کو کیسے بدل دے گا؟سام سنگ کی گیلیکسی رِنگ کیا ہے اور کیا یہ سمارٹ واچ کی جگہ لے سکے گی؟مصنوعی ذہانت کا تیسرا مرحلہ کیا ہے اور اسے ’انتہائی خطرناک‘ کیوں سمجھا جا رہا ہے؟’سمارٹ واچ کا استعمال بڑھ رہا ہے‘

امریکہ میں موجود ڈاکٹر جیک بھی اورا کو پہننے کا مشورہ دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس سے انھیں مریض کی مجموعی صحت کا اندازہ لگانا آسان ہوتا ہے۔ لیکن تمام ڈاکٹرز اس سے متفق نہیں کہ یہ ہر صورتحال میں کارآمد ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر ہیلن سیلسبری آکسفورڈ میں بطور جرنل فزیشن کام کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ بہت زیادہ مریض ان ڈیجیٹل مصنوعات کو نہیں پہن رہے لیکن انھوں نے یہ نوٹس کیا ہے کہ ان اشیا کا استعمال بڑھا ہے۔

وہ کہتی میں ’میرے خیال سے بہت بار یہ کارآمد ہوتی ہیں لیکن شاید اس سے زیادہ مرتبہ یہ خطرے کی حد تک کارآمد نہیں ہوتی، اور مجھے پریشانی ہے کہ ہم ایک ایسی سوسائٹی کی بنیاد رکھ رہے ہیں جہاں لوگ ہائپوکونڈریا یعنی صحت کے بارے میں شدید حد تک فکرمندی میں مبتلا ہیں اور جس میں ہم اپنے جسموں کی حد سے زیادہ نگرانی کر رہے ہیں۔‘

ڈاکٹر سیلسبری کا کہنا ہے کہ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں کہ شاید ابھی ہمیں درست ڈیٹا موصول نہیں ہو رہا جیسے کہ دل کی دھڑکن کا ریکارڈ زیادہ آیا۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’مجھے اس چیز کا خطرہ ہے کہ ہم لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ ہر چیز کو ہر وقت مانیٹر کریں اور بجائے اس کے کہ انھیں لگے کہ وہ بیمار ہیں، وہ ڈاکٹر کے پاس جائیں۔‘

’پیغام وہی ہے جو ڈاکٹر برسوں سے دے رہے ہیں‘

وہ اس کی مثال دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ واچ یا کوئی ایپ کینسر کے ٹیومر کی تشخیص کرنے میں ناکام رہتی ہے۔

دیکھا جائے تو یہ ڈیجیٹل پہناوے آپ کو اچھی عادات اپنانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں لیکن ان سے جو بہترین پیغام ملتا ہے وہ وہی ہے جو ڈاکٹرز برسوں سے دے رہے ہیں۔

ڈاکٹر سیلیسبری کہتی ہیں کہ اصل میں جو کچھ آپ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ زیادہ واک کریں، بہت زیادہ شراب مت پیئں اور اپنے وزن کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔ اور یہ کبھی نہیں بدلے گا۔

ایپل واچ دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والی گھڑی ہے۔ اگرچہ بعد کے عرصے میں اس کی سیل میں کمی آئی۔

ایپل کی جانب سے اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا لیکن مارکیٹنگ کے دوران ان لوگوں کی کہانیوں کو شامل کیا جاتا ہے جن کی زندگیوں کو بچایا گیا کیونکہ اس ڈیوائس کو استعمال کرنے کی وجہ سے ان کے دل کو مانیٹر کیا گیا تھا۔

لیکن ڈاکٹر کہتی ہیں کہ انھوں نے یہ نہیں سنا کہ کتنے کیسز میں غلط نتائج سامنے آئے۔

بہت سے کیسز ایسے ہوتے ہیں جہاں مریض کو اگر ماہرین صحت کے سامنے ان ڈیوائسز سے حاصل کردہ ڈیٹا رکھتا ہے تو ڈاکٹرز ان کی پہنی ہوئی ڈیجیٹل ڈیوائسز کے ڈیٹا پر ہی اعتماد نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے پاس موجود آلات کو استعمال کرتے ہیں۔

ڈاکٹر ینگ وئی اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کی متعدد وجوہات ہیں۔

وہ نوٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طبی ماہرین بہت پریکٹیکل ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ جب آپ ہسپتال جاتے ہیں اور آپ کا ای سی جی (دل کی دھڑکن کا) ٹیسٹ ہوتا ہے تو آپ کو بجلی کی کھپت کی پریشانی نہیں ہوتی کیونکہ وہ مشین دیوار میں پلگ پر لگی ہوتی ہے۔ اپنی گھڑی پر آپ ہر وقت اپنی ای سی جی نہیں کریں گے کیونکہ اس سے آپ کی گھڑی کی بیٹری ختم ہو جائے گی۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پہنی جانے والی ان ڈیوائسز کی حرکت بھی ایک وجہ ہے جو ان پر اعتماد کو کم کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بندہ جس نے کلائی پر گھڑی باندھی ہوئی ہے اس کی اپنی نقل و حرکت سے ڈیٹا کو اکٹھا کرنے کے دوران شاید انداز ہو سکتا ہے۔

Getty Imagesایپل واچ پہنی جانے بوالی ٹیکنالوجی ڈیوائسز میں سرفہرست ہے

ڈاکٹر ینگ وئی نے میری انگلی میں موجود انگوٹھی کی جانب اشارہ کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ بہترین معیار یہی ہے کہ دل کی دھڑکن کو کلائی سے شمار کیا جائے یا پھر براہ راست دل سے لیکن اگر آپ اسے انگلی سے جانچنا چاہیں گے تو پھر یہ ایسا ہی ہے کہ آپ درستگی کی تو قربانی دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ تو سافٹ ویئر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ڈیٹا کے اندر اس قسم کی کمی کو ختم کرے۔

لیکن یہاں پر ان پہنی جانے والی ڈیوائسز کے لیے کوئی بین الاقوامی معیار نہیں ہے۔ نہ تو ان کے سینسرز کے لیے اور سافٹ ویئر کے لیے جو کہ ان ڈیوائسز کو پاور فراہم کرتے ہیں یا خود ڈیٹا کے کہ وہ کس فارمیٹ میں اکٹھا کیا جاتا ہے۔

جتنے تواتر سے آپ ان ڈیوائسز کو پہنیں گے اتنا ہی درست ڈیٹا ملنے کا امکان ہے لیکن یہاں انتباہ کے لیے ایک کہانی ہے۔

بین وڈ کام کے لیے گھر سے باہر تھے جب ان کی بیوی کو ایپل واچ پر خطرناک وارنگز ملنی شروع ہوئیں۔ انھیں بتایا گیا کہ ان کے شوہر کی گاڑی کا حادثہ ہو گیا ہے۔

انھوں ایپل واچ کے نوٹیفکیشن میں یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنے شوہر کے نمبر پر پیغام بھیج کر رابطہ کریں، انھیں فون کال نہ کریں تاکہ ایمرجنسی سروس کے لیے لائن کلئیر رہے۔

یہ الرٹس درست تھے اور بین کی اہلیہ کو اس لیے بھجوائے گئے کیونکہ وہ ان کی ایمرجنسی کونٹیکٹ تھیں۔ لیکن اس معاملے میں یہ الرٹس غیر ضروری تھے۔

کیونکہ بین ریس ٹریک پر ڈرائیونگ کر رہے تھے اور ان کے گرد تیز رفتار گاڑیاں تھیں۔

انھوں نے تسلیم کیا کہ وہ بہت باصلاحیت ڈرائیور تو نہیں لیکن تمام وقت وہ خود کو محفوظ ہی سمجھ رہے تھے۔

اپنے بلاگ میں انھوں نے لکھا کہ کسی واقعے اور کسی انتباہی پیغام کے درمیان فرق کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے تجسس ہے کہ یہ ڈیوائس بنانے والے، ایمرجنسی سروس، پیغام وصول کرنے والے لوگ اور دیگر کوئی فرد اس ٹیکنالوجی کے بارے میں مستقبل میں کیا سوچ رکھیں گے۔‘

کنگز فلڈ میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی فیلو، پریٹش مسٹری متفق ہیں کہ ہمارے ہیلتھ کییر سسٹم میں مریضوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنے سے متعلق چیلنجز ہیں۔

وہ کہتے ہیں برطانیہ میں بنا کسی واضح حل کے اس حوالے سے پہلے ہی کئی برسوں سے بات چیت ہو رہی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ برطانیہ کی حکومت کی طرف سے یہ ایک اچھی مثال بنائی جائے گی جس میں ان کی دیکھ بھال کو بہتر بنانے کے لیے ان ڈیوائسز کو ہسپتالوں کے علاوہ اور کمیونٹی سینٹرز کے اندر استعمال کرنے کی مہم چلائی جائے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ بنیادی ڈھانچے کو دیکھتے ہوئے ٹیکنالوجی کو قابل بنائے بغیر اور ورک فورس یعنی افرادی قوت کو ہنر سیکھائے بغیر، انھیں تعلیم اور اعتماد سمیت انھیں باصلاحیت بنائے بغیر میرے خیال سے یہ بھی ایک چیلنج ہو گا۔

وہ ’جادوئی‘ سمارٹ فون جو آپ کے اشاروں پر چل سکتا ہےسام سنگ کی گیلیکسی رِنگ کیا ہے اور کیا یہ سمارٹ واچ کی جگہ لے سکے گی؟مصنوعی ذہانت کا تیسرا مرحلہ کیا ہے اور اسے ’انتہائی خطرناک‘ کیوں سمجھا جا رہا ہے؟’سمارٹ فون کِلر‘ کہلانے والا مصنوعی ذہانت کا آلہ ’ریبٹ آر ون‘ عام فون کی جگہ لے پائے گا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More