گوگل نے ایک ایسی چپ تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو اُن کے مطابق دنیا کے سب سے تیز ترین سپر کمپیوٹر سے بھی کروڑوں گنا تیز ہے۔ گوگل کا کہنا ہے کہ جس کام کو سرانجام دینے میں آج کی دنیا کے تیز ترین سپر کمپیوٹر کو10,000,000,000,000,000,000,000,000 سال (سیپٹیلئیم یعنی ایک کے بعد 24 صفر!) لگیں گے وہ کام اُن کی چپ محض پانچ منٹ میں کر سکتی ہے۔
گوگل کی نئی چپ کوانٹم کمپیوٹنگ کی دنیا میں آنے والی تازہ ترین جدت ہے۔ کوانٹم کمپیوٹنگ میں پارٹیکل فزیکس کے اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے نئے طرز کے کمپیوٹرز بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
گوگل کے مطابق ان کی نئی چپ’وِلو‘ میں کوانٹم کمپیوٹنگ کے شعبے میں ہونے والی ’بریک تھروز‘ کو شامل کیا گیا ہے جو بڑے پیمانے پر کام کرنے والے نئے کارآمد کوانٹم کمپیوٹرز تیار کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔
Getty Imagesفائل فوٹو
تاہم ماہرین کے خیال میں وِلو ابھی ایک تجرباتی ڈیوائس ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسے کوانٹم کمپیوٹر کی ایجاد جو ہر طرح کے مسئلے کو حل کر سکتا ہو بہت دور ہے۔
کوانٹم کمپیوٹر کام کیسے کرتے ہیں؟
کوانٹم کمپیوٹرز کے کام کرنا کا طریقہ آپ کے لیپ ٹاپ یا سمارٹ فون میں موجود کمپیوٹرز سے بالکل مختلف ہے۔ یہ کمپیوٹرز کوانٹم میکینکس کا استعمال کرتے ہوئے روایتی کمپیوٹرز سے کئی گنا تیز کام کرتے ہیں۔ کوانٹم میکینکس سے مراد انتہائی چھوٹے ذرات کی جانب سے دکھایا جانے والا رویہ ہے جسے سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
امید کی جا رہی ہے کہ کوانٹم کمپیوٹرز ان صلاحیتوں کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں کوانٹم کمپیوٹرز انتہائی پیچیدہ کام بھی بہت قلیل وقت میں کر پائیں گے، جیسے ادویات کی تیاری وغیرہ۔
تاہم ایسے خدشات بھی پائے جاتے ہیں کہ ان کوانٹم کمپیوٹرز کو غلط کاموں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جیسے انکرپشن کے ذریعے محفوظ بنائے گئے حساس ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنا۔
رواں سال فروری کے مہینے میں ’ایپل‘ نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے ایپل کے آئی میسجز کی انکرپشن کو کوانٹم پروف بنا دیا ہے تاکہ کوانٹم کمپیوٹرز کا استعمال کرتے ہوئے ان میسجز تک رسائی حاصل نہ کی جا سکے۔
کولوسس: پراسرار سپر کمپیوٹر جسے چلانے کے لیے 10 لاکھ گیلن پانی اور 150 میگاواٹ بجلی درکار ہو گیجیگوار کی ’کانسپٹ‘ کار میں بڑے بڑے ٹائر، لمبے بونٹ کے علاوہ نیا کیا ہے؟وہ ’جادوئی‘ سمارٹ فون جو آپ کے اشاروں پر چل سکتا ہے’دنیا کا ٹھنڈا ترین کمپیوٹر جو روایتی کمپیوٹر کو پیچھے چھوڑ دے گا‘
ہارٹمٹ نیوین گوگل کی کوانٹم اے آئی لیب کے سربراہ ہیں جس نے وِلو تخلیق کی ہے۔
نیوین نے بی بی سی کو بتایا کہ وِلو کو کچھ پریکٹیکل ایپلیکشنز میں استعمال کیا جائے گا۔ تاہم انھوں اس بارے میں مزید کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کمرشل ایپلیکشنز میں استعمال کی جا سکنے والی کوانٹم چِپ کی تخلیق میں اب بھی سالوں لگیں گے۔
نیوین کے مطابق ابتدائی طور پر یہ ایپلی کیشنز ایسے کاموں کی نقل کرنے میں استعمال کیے جائیں گے جہاں کوانٹم اثرات اہم ہوتے ہیں جیسا کہ جوہری فیوژن ری ایکٹرز کے ڈیزائن، ادویات کی تیاری، گاڑیوں کی بہتر بیٹری بنانے اور اس نوعیت کے دیگر کاموں میں۔
اُن کے مطابق وِلو آج تک بنایا جانے والا سب سے بہترین کوانٹم کمپیوٹر ہے۔
کیا کوانٹم کمپیوٹرز روایتی کمپیوٹرز کی جگہ لے لیں گے؟
سرے یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے کمپیوٹنگ ایکسپرٹ پروفیسر ایلن ووڈورڈکہتے ہیں کہ کئی کاموں میں روایتی کمپیوٹرز کے مقابلے میں کوانٹم کمپیوٹرز بہت بہتر کام کر پائیں گے تاہم اس کے باوجود یہ ہمارے روز مرہ میں استعمال ہونے والے کمپیوٹرز کا متبادل نہیں ہیں۔
اںھوں نے خبردار کیا کہ محض ایک ٹیسٹ کی بنیاد پر وِلو کی صلاحیتوں کو بڑھا چڑھا کر نہیں پیش کرنا چاہیے۔
اُن کا کہنا ہے کہ گوگل نے وِلو کی کارکردگی جانچنے کے لیے جس پروگرام کا انتخاب کیا وہ کوانٹم کمپیوٹرز کے لیے ہی بنایا گیا ہے اور اس کا یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ یہ چِپ روایتی کمپیوٹرز سے بہت تیز ہے۔
لیکن ووڈورڈبھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وِلو کوانٹم کمپیوٹنگ میں ہونے والی پیش رفت کی جانب اشارہ ہے خاص طور پر ایرر کریکشن کی جانب۔
سادہ لفظوں میں کہا جائے توکسی بھی کوانٹم کمپیوٹر میں جتنے زیادہ کوئبٹ (qubit) ہوتے ہیں وہ اتنا ہی بہتر پرفارم کر سکتا ہے۔ کوئبٹ یا کوانٹم بٹ کوانٹم کمپیوٹنگ میں معلومات کی بنیادی اکائی کو کہا جاتا ہے۔
تاہم اس ٹیکنالوجی کے ساتھ ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس میں غلطی ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور جیسے جیسے آپ کوئبٹ بڑھاتے ہیں، ان امکانات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
لیکن گوگل کا کہنا ہے کہ وہ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور نئی چِپ ایسے پروگرام کی گئی ہے کہ جیسے جیسے اس کا کوئبٹ بڑھتا جائے گا، غلطی کے امکانات کم سے کم ہوتے جائیں گے۔
نیوین اسے بریک تھرو قرار دیتے ہیں، ایک ایسا چیلنج جسے حل کرنے کی پچھلے 30 سالوں سے کوششیں کی جا رہی تھیں۔
پروفیسر ووڈورڈکہتے ہیں کہ یہ نتائج ان تمام افراد کے لیے حوصلہ افزا ہیں جو پریکٹیکل کوانٹم کمپیوٹر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لیکن گوگل بھی اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ عملی طور پر کارآمد کوانٹم کمپیوٹرز تیار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ غلطی کی شرح وِلو کے موجودہ شرح سے کہیں کم ہو۔
وِلو کو گوگل کے کیلیفورنیا میں اس ہی مقصد سے بنائے گئے پلانٹ میں تیار کیا گیا ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک بھی کوانٹم کمپیوٹرز میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ حال ہی میں برطانیہ نے نیشنل کوانٹم کمپیوٹنگ سینٹر کا افتتاح کیا ہے۔
اس سینٹر کے سربراہ مائیکل کتھبرٹ وِلو کو کسی بریک تھرو سے زیادہ ایک سنگِ میل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ یہ بہت حیران کُن ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ کوانٹم کمپیوٹر بہت سے کاموں میں مدد فراہم کرے گا جن میں ’لاجسٹکس کے مسائل جیسے ہوائی جہاز پر کارگو فریٹ کی تقسیم یا ٹیلی کام سگنلز کی روٹنگ یا پورے قومی گرڈ میں ذخیرہ شدہ توانائی‘ کی ترسیل جیسے کام شامل ہیں۔
برطانیہ میں 50 کوانٹم کاروبار موجود ہیں جہاں 1300 افراد کام کرتے ہیں اور ان کو اب تک 800 ملین پاونڈز کی سرمایہ کاری حاصل ہو چکی ہے۔
جمعہ کے روز آکسفورڈ یونیورسٹی اور جاپان کی اوساکا یونیورسٹی نے ایک تحقیقی مقالہ جاری کیا ہے۔ مقالے میں کہا گیا ہے کہ ٹریپڈ آئن کوبٹ میں غلطی کی شرح بہت کم ہے۔
ان کا کوانٹم کمپیوٹر بنانے کا طریقہ کار مختلف ہے جو کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے کے قابل ہے جب کہ گوگل کی چِپ کو کام کرنے کے لیے انتہائی کم درجہ حرارت کی ضرورت ہے۔
گوگل کی کوانٹم چپ وِلو سے متعلق نتائج سائنسی جریدے نیچر ایکسٹرنل میں شائع ہوئے ہیں۔
’کوانٹم کمپیوٹر کا قہر‘ کیا ہے اور کیا ہمیں اس سے ڈرنا چاہیے؟سٹارلنک اور سوا چار ارب ڈالر کی منشیات: مسک کے سیٹلائیٹ انٹرنیٹ کی مدد سے سمگلنگ جس نے انڈین پولیس کو پریشان کر دیاانڈیا کو دفاعی طاقت بنانے والا ادارہ جو خصوصی جوتوں سے لیکر ہائپر سونک میزائل تک تیار کرتا ہےنامکمل پُل سے گاڑی نیچے گرنے کے نتیجے میں تین افراد کی ہلاکت پر گوگل میپس کو ذمہ دار کیوں ٹھہرایا جا رہا ہےآئیڈیاز 2024: پاکستان کے شہپر تھری اور کاما کازی ڈرونز کی اہم خصوصیات کیا ہیں؟’دو کروڑ کا کتا‘ ٹرمپ کی حفاظت پر مامور