پاکستان کے دفتر خارجہ نے امریکہ کے ایک سینیئر اہلکار کے ان الزامات کو ’بے بنیاد‘ اور ’عقل سے عاری‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا کہ اس کا میزائل پروگرام امریکہ کے لیے خطرہ ہے۔سنیچر کو جاری ہونے والا دفتر خارجہ کا یہ بیان امریکی نائب قومی سلامتی کے مشیر جون فائنر کے تبصرے کے جواب میں آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان کی طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کی ترقی ممکنہ طور پر امریکہ کو نشانہ بنا سکتی ہے۔امریکہ نے کہا تھا کہ وہ پاکستان کے میزائل پروگرام سے متعلق نئی پابندیاں عائد کر رہا ہے۔ یہ پابندیاں ہدف بنائے گئے اداروں کی کسی بھی امریکی املاک کو منجمد کرتی ہیں اور امریکیوں کو ان کے ساتھ کاروبار کرنے سے روکتی ہیں۔دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے یہ بات پوری طرح واضح کر دی ہے کہ اس کا سٹریٹجک پروگرام اور صلاحیتوں کا مقصد ’ہمارے پڑوس سے واضح اور نظر آنے والے خطرے‘ کو ناکام بنانا ہے۔ اور کسی دوسرے ملک کو اسے خطرے کے طور پر نہیں سمجھا جانا چاہیے۔دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’امریکی اہلکار کی جانب سے پاکستان کی میزائل صلاحیتوں اور ترسیل کے ذرائع سے مبینہ خطرے کا تاثر افسوسناک ہے۔ یہ الزامات بے بنیاد اور تاریخ کے علم سے عاری ہیں۔‘مزید کہا گیا کہ ’1954 کے بعد سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان مثبت اور وسیع تر تعلقات ہیں۔ ایک بڑے غیر نیٹو اتحادی پر امریکی الزامات کی حالیہ لہر مجموعی تعلقات کے لیے غیر مددگار ثابت ہوگی، خاص طور پر اس سلسلے میں کسی ثبوت کی عدم موجودگی میں۔ پاکستان نے کبھی بھی امریکہ کے خلاف کسی بھی انداز میں کوئی بد نیتی نہیں رکھی اور یہ بنیادی حقیقت تبدیل نہیں ہوئی ہے۔‘دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ پاکستان کی سٹریٹجک صلاحیتوں کا مقصد صرف اور صرف اس کی خودمختاری کا دفاع کرنا ہے۔’ہم اس بات کا اعادہ کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی سٹریٹجک صلاحیتوں کا مقصد اس کی خودمختاری کا دفاع کرنا اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کو برقرار رکھنا ہے۔‘بیان کے مطابق ’پاکستان ایسی صلاحیتوں کو حاصل کرنے کے اپنے حق سے دستبردار نہیں ہو سکتا جو قابل اعتماد کم از کم ڈیٹرنس برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر اور متحرک خطرات کے مطابق ہوں۔‘