یہ غالباً سال 2004 کی بات ہے، گریجویشن کے امتحانات سے فراغت کے بعد فرصت کے لمحات شہر کی آوارہ گردی کرتے یا پنجاب پبلک لائبریری میں مطالعہ کرتے گزرتے، شام ڈھلے گھر واپسی کے لیے پرانی انارکلی پس سٹاپ کی جانب چل پڑتا جس کی مال روڈ کی طرف کی نکڑ پر سگریٹ کی دکان کے ساتھ ہی ’کرو ایٹرز‘ کا بورڈ لگا ہوتا تھا۔ سُرخ اینٹوں سے بنی یہ عمارت ہمیشہ میری توجہ اپنی جانب کھینچ لیتی مگر کبھی اندر جھانکنے کا یارا نہیں ہوا۔یہ عمارت اس وقت تک اپنے گرد اسرار لیے رہی جب تک اس کے نام ’کروایٹرز‘ کا عقدہ نہیں کھُل گیا۔ہوا کچھ یوں کہ چند برس بعد جب عملی صحافت شروع کی تو یہ معلوم ہوا کہ ’کرو ایٹرز‘ تو پاکستان کی معروف انگریزی مصنفہ بیپسی سدھوا کا ناول ہے اور یہ کافی شاپ اُن کے بھائی ایم پی بھنڈارا نے بنائی تھی کیوں کہ یہ اُن کا پسندیدہ ناول تھا اور ایک بھائی کا اپنی بہن سے محبت کا ایک انمول اظہار بھی۔ایم پی بھنڈارا خود بھی سیاست میں سرگرم رہے۔ اُن کی وفات کے بعد اگرچہ ’کروایٹرز‘ کو بند کر دیا گیا مگر اس کی یادیں آج بھی لاہوریوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔’کرو ایٹرز‘ کی یاد آج اس لیے آ گئی کہ بیپسی سدھوا اب ہم میں نہیں رہیں، اُن کو ایک ایسی مصنفہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا جنہوں نے برصغیر میں انگریزی ادب تخلیق کرنے والے ادیبوں کی ایک پوری نسل کو متاثر کیا اور اُن کے ناولوں پر نہ صرف بالی وڈ میں فلمیں بنائی گئیں بلکہ ان کے ناول امریکہ کے کئی تعلیمی اداروں کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بیپسی نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ایک اینگلو انڈین خاتون سے حاصل کی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کو اڑھائی برس کی عمر میں پولیو ہو گیا تھا، تو ڈاکٹروں کے کہنے پر والدین نے سکول داخل نہیں کروایا۔ وہ شکر ادا کیا کرتی تھیں کہ اُن کو بچپن میں ریاضی کا مضمون نہیں پڑھنا پڑھا۔کچھ بڑی ہوئیں تو بھائی کے ساتھ کرکٹ کھیلنے لگیں۔ انہی دنوں کتابیں پڑھنے کا شوق پروان چڑھا اور پہلا ناول ’لِٹل وومن‘ پڑھا۔ انہوں نے اس بارے میں مصنف سے ایک تفصیلی انٹرویو میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ ناول پڑھا تو میرے لیے نئی دنیا کے در وا ہو گئے۔ مجھ پر منکشف ہوا کہ دنیا میں مختلف کردار ہیں جن کے جذبات اور تعلقات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ چناں چہ میں نے کتابوں میں پناہ لی جنہوں نے مجھے زیست کے نئے رنگوں سے متعارف کروایا۔‘بیپسی سدھوا کے ناول ’کریکنگ انڈیا‘ پر کینیڈین نژاد انڈین فلم میکر دیپا مہتا نے فلم ’ارتھ 1947‘ بنائی تھی (فوٹو: فلم پوسٹر)انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’میں مطالعہ کی عادت کے باعث خیالی دنیا میں زندہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ایک مصنفہ بننے میں کامیاب ہو سکی۔‘کچھ عرصہ بعد لاہور کے کنیئرڈ کالج میں داخلہ کروا دیا گیا، اس دوران شادی ہو گئی تو ممبئی چلی گئیں جہاں اُن کا گھر ایک ایسی آبادی میں تھا جہاں پارسیوں کی بڑی تعداد بستی تھی تو اُنہوں نے اُس دور میں بیتے تجربات کی بنیاد پر اپنا ناول ’کروایٹرز‘ لکھا جس کا بعد میں ’جنگل والا صاحب‘ کے عنوان سے اُردو میں ترجمہ بھی ہوا۔بیپسی سدھوا اُس وقت آٹھ، نو برس کی تھیں جب تقسیم ہوئی جس کی یادیں ہمیشہ اُن کے ساتھ رہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’فضا میں مختلف نعرے گونجتے رہتے۔ ساری قومیں اپنے اپنے نعرے لگا رہی ہوتیں۔ سکھ ’سَت سری اکال‘، ہندو ’ہرے رام‘ اور مسلمان ’اللہ اکبر‘کی صدائیں بلند کر رہے ہوتے۔ میرا تأثر یہ تھا کہ نعرے لگانے والے اچھا کام نہیں کر رہے تھے۔‘انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’تقسیم نے میرے ذہن پر گہرا عکس چھوڑا۔ پڑوس میں ایک سردار جی رہتے تھے جن کے بچے میرے دوست تھے اور میں اُن کے ساتھ بہت زیادہ کھیلا کرتی تھی۔ وہ تقسیم کے بعد ہندوستان چلے گئے جس کے باعث میری تنہائی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ‘اِن دنوں کا ہی ذکر ہے کہ ایک روز بلوائی نعرے لگاتے ہوئے اُن کے گھر آگئے تو گھر کے خانساماں امام دین باہر آئے اور بلوائیوں سے کہا کہ ’بیوقوفو، یہ پارسی خاندان ہے اور ضروری نہیں کہ بھنڈارا ہندو ہی ہوں۔‘ یوں، بلوائی اُن کے گھر سے چلے گئے۔بیپسی کبھی یہ واقعہ فراموش نہ کر سکیں جو اُن کے ناول ’کریکنگ انڈیا‘ کی تخلیق کی وجہ بھی بنا جس پر کینیڈین نژاد انڈین فلم میکر دیپا مہتا نے فلم ’ارتھ 1947‘ بنائی تھی جس میں عامر خان اور نندیتا داس نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔’کریکنگ انڈیا‘ بیپسی کے اُن ناولوں میں سے ایک ہے جو بہت سی امریکی جامعات کے نصاب میں شامل ہے (فائل فوٹو: گلوبل لٹریچر ان لائبریریز)دلچسپ بات یہ ہے کہ بیپسی کا خاندان انڈین ریاست گجرات سے تھا مگر اُن کا بچپن لاہور میں گزرا اور انہوں نے ذریعۂ اظہار انگریزی کو بنایا تو اس بارے میں بیپسی نے کہا تھا کہ ’یہ درست ہے کہ میں نے انگریزی میں لکھا لیکن ایک بار پنجابی کے ایک بہت بڑے نقاد نے کہا تھا کہ پنجابی زبان کی اصل مصنفہ تو بیپسی ہیں جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ میری تحریروں میں اُردو اور پنجابی محاوروں کا رنگ خاصا گہرا ہے۔ میرے اردگرد گجراتی بولنے والے زیادہ لوگ نہیں تھے جس کے باعث میرا زیادہ واسطہ اُردو اور پنجابی بولنے والوں سے پڑتا لیکن میں چوں کہ بچپن سے انگریزی لکھتی اور پڑھتی رہی ہوں تو اس لیے انگریزی زبان کو ہی ذریعۂ اظہار بنایا۔‘آگے بڑھنے سے قبل یہ بتاتے چلیں کہ بیپسی نے اپنے ناول ’آئس کینڈی مین‘ کا عنوان تبدیل کر کے ’کریکنگ انڈیا‘ رکھ دیا تھا جو اسی نام سے شائع ہوا جس کی وجہ یہ تھی کہ امریکا میں منشیات استعمال کرنے والوں کے لیے ’آئس کینڈی مین‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے تو اس سے پڑھنے والے یہ گمان کر سکتے تھے کہ یہ منشیات کے موضوع پر لکھی گئی کوئی کتاب ہے۔’کریکنگ انڈیا‘ بیپسی کے اُن ناولوں میں سے ایک ہے جو بہت سی امریکی جامعات کے نصاب میں شامل ہے۔ اس ناول میں تقسیم کے پس منظر میں عورتوں پر ہونے والے ظلم کی ایک جھلک دکھائی دیتی ہے۔ بیپسی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’تقسیم کے وقت عورتوں پر ہونے والے ظلم پر خاموش رہنے کی وجہ یہ بھی تھی کہ یہ عزت کا مسئلہ تھا۔ اس لیے اس موضوع پر زیادہ نہیں لکھا گیا جب کہ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا سکتا تھا۔ اُردو میں منٹوؔ نے بہت اچھا لکھا ہے۔ فلم ’گرم ہوا‘ سال میں ایک مرتبہ ضرور دیکھتی ہوں۔ اس کی کہانی عصمت چغتائی نے لکھی ہے جن کی کہانیاں میں نے انگریزی میں پڑھی ہیں اور مجھے اُن کا اندازِ تحریر بہت پسند ہے۔‘یہ ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ بیپسی کی ابتدائی زندگی کے تجربے غیرمعمولی نوعیت کے نہیں تھے، وہ تو اپنی ذات میں مقید رہی تھیں تو ایسے میں وہ کیا تجربات تھے جنہوں نے بیپسی کو لکھنے کی جانب متوجہ کیا؟ اس سوال کے جواب میں بیپسی کا کہنا تھا کہ ’میری ممبئی میں جب پہلی شادی ہوئی تھی تو میرے شوہر کہا کرتے تھے کہ تمہیں نہ چلنا آتا ہے، نہ ہی بولنا آتا ہے۔ تم کیا ہو؟ تو میں اس قدر عجیب زندگی گزار رہی تھی۔ جب میں نے لکھنا شروع کیا اور میری کتاب شائع ہو گئی تو میرے اعتماد میں اضافہ ہوا کہ میں تو بول سکتی ہوں۔ بعدازاں دنیا کا بہت زیادہ تجربہ ہوا جو اس وقت نہیں تھا۔‘بیسپی کے ناول ’دی برائیڈ‘ میں بھی عورت کی کہانی بیان کی گئی ہےبعدازاں جب بیپسی امریکا گئیں تو انہیں ایک یونیورسٹی کی جانب سے تدریس کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے عذر پیش کیا کہ میں نے تو پی ایچ ڈی نہیں کی اور صرف بی اے پاس ہوں جب کہ اُس وقت تک اُن کی دو کتابیں شائع ہو چکی تھیں تو یونیورسٹی کی جانب سے ان کی اِن کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ آپ نے کافی پی ایچ ڈیز کر لی ہیں اور آپ تدریس کی ذمہ داری انجام دینے کے لیے اہل ہیں۔بیسپی کے ناول ’دی برائیڈ‘ میں بھی عورت کی کہانی بیان کی گئی ہے تو ناول ’دی امریکن براٹ‘ بھی کچھ ایسی نفسیاتی الجھنوں کا احاطہ کرتا ہے جس کے مرکزی کردار فیروزہ کو اُس کے والدین اس لیے امریکی یونیورسٹی میں داخل کرواتے ہیں تاکہ وہ انتہاپسندی سے دور رہے مگر جب وہ پسند کی شادی کرنے کی خواہش کا اظہار کرتی ہے تو وہ اُس کے اس فیصلے کی راہ میں مزاحم ہوتے ہیں۔ اس ناول کے بارے میں بیپسی نے کہا تھا کہ اِس میں اُن کی ذاتی زندگی کی جھلک ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’میں اُس وقت لاہور میں تھی جب مجھے میری بیٹی کا خط موصول ہوا جس میں اُس نے ایک امریکی سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ میں اس خبر پر خوب روئی، پیٹی۔ شوہر کو فون کیا، وہ بھاگ کر آئے۔ اُن کو بھی یہ سن کر بہت صدمہ پہنچا تو اس ناول میں بھی ماحول کی تبدیلی کے بعد میری بچیوں اور میرے ساتھ میرے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا بیاں ہے جنہیں میں نے تخلیقی انداز میں پیش کیا ہے۔‘’کروایٹرز‘ بیپسی کے چند اہم ناولوں میں سے ایک ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے جب یہ ناول خود شائع کروایا تو ناقدین اور صحافیوں نے کہا کہ یہ غیرمعیاری ناول ہے اور اسے سرے سے ہی رَد کر دیا۔ اُن دنوں ہی لندن کے معروف ادبی اشاعتی ادارے نے یہ ناول شائع کیا تو اس وقت اسے نہ صرف سراہا گیا بلکہ ہر اخبار اور جریدے نے اس پر مثبت ریویو لکھے۔بیپسی سدھوا کا ایک اہم حوالہ اُن کا لاہوری ہونا بھی ہے جس کا قرض ادا کرنے کے لیے انہوں نے کتاب ’The City of Sin and Splendor‘ مرتب کی جس کے باعث یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ انہوں نے لاہور کے بجائے امریکا میں رہنے کو کیوں ترجیح دی تو اس بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’میرے شوہر کو امریکا میں رہنے کا بہت شوق تھا۔ دوسرا نوجوانی میں ہی امریکا جانا شروع کر دیا تھا کیوں کہ میرے شوہر وہاں رہتے تھے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ میرا تمام تر شعوری ارتقا لاہور میں ہی ہوا۔‘بیپسی سدھوا نے کہا ’حقیقت یہ ہے کہ میرا تمام تر شعوری ارتقا لاہور میں ہی ہوا‘ انہوں نے اس کتاب کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں نے اس کتاب کو مکمل کرنے میں تین برس لگائے۔ اس دوران میں شاید دو ناول لکھ سکتی تھی۔ میں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ مجھے ہر صورت میں لاہور پر کتاب لکھنی ہے کیوں کہ انگزیری زبان میں لاہور پر زیادہ کام نہیں ہوا۔ یہ ایک طرح سے اس شہربے مثل سے محبت کا اظہار ہے۔‘بیپسی سدھوا نے خود کو صرف ناول لکھنے تک محدود نہیں کیا بلکہ انہوں نے افسانے بھی لکھے اور مختلف جرائد کے لیے وقتاً فوقتاً مضامین بھی لکھتی رہیں۔ اُن کا افسانوی مجموعہ ’دیر لینگوئج آف لوَو‘کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ بیپسی کا کہنا تھا کہ ’یہ سلسلہ اتفاقیہ طور پر شروع ہو گیا۔ میں لندن میں تھی تو ایک ادبی جریدے کے مدیر نے مجھ سے افسانہ لکھنے کے لیے کہا۔ میں نے اُن کی اِس درخواست پر عمل کر دیا۔ ’دی امریکن براٹ‘ بھی پہلے شارٹ سٹوری ہی تھی جو شائع ہو چکی تھی جس کے بعد کچھ اور افسانے بھی لکھے تو وہ اس مجموعے میں شامل ہیں۔‘دلچسپ بات یہ ہے کہ دیپا مہتا کی فلم ’واٹر‘ پر بعدازاں بیپسی نے اسی نام سے ناول لکھا۔ یہ ایک منفرد تجربہ تھا جب کسی فلم کی کہانی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ناول لکھا گیا کیوں کہ عموماً ناولوں پر فلمیں بنائی جاتی ہیں۔بیپسی کا کہنا تھا کہ ’دیپا کی یہ شرط تھی کہ میں یہ ناول تین ماہ میں مکمل کروں تاکہ یہ فلم کے ساتھ ہی ریلیز ہو۔ اس نے مجھے کچھ کتابیں بھی ارسال کیں۔ میں نے یہ فلم قریباً سو بار دیکھی ہوگی اور یہ ناول لکھنے کے لیے دن رات ایک کر دیا کیوں کہ یہ کہانی میرے شعور کا حصہ نہیں تھی لیکن اس کے باوجود میں نے یہ ناول چار ماہ میں مکمل کر لیا اور اُس وقت زیادہ حیرت ہوئی جب ناقدین نے یہ کہا کہ پہلی بار کسی فلم پر اس قدر شاندار ناول لکھا گیا ہے۔‘یپا مہتا کی فلم ’واٹر‘ پر بعدازاں بیپسی نے اسی نام سے ناول لکھا بیپسی سدھوا کے ناولوں میں پدرشاہی سماج میں بسنے والی بے بس عورتوں کی کہانیاں بیان کی گئی ہے، وہ کہانیاں جو ہم روز اپنے اردگرد رونما ہوتے دیکھتے ہیں مگر خاموش رہتے ہیں کیوں کہ ہم خوف زدہ ہوتے ہیں، ڈرتے ہیں کہ ہم بھی آخر اسی سماج کا حصہ ہیں۔ ’پاکستانی پنجابی پارسی‘ کے طور پر اپنا تعارف کروانے والی بیپسی نے بے خوف ہو کر وہ لکھا جو انہوں نے محسوس کیا۔برصغیر میں انگریزی ادب کو نئی رفعتوں سے متعارف کروانے والی یہ مصنفہ گزشتہ روز امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں چل بسیں۔ اُن کی عمر 86 برس تھی۔ بیپسی کا بچپن لاہور کی وارث روڈ پر گزرا تھا، وہ بہت عرصہ لاہور کینٹ میں بھی رہیں۔اُن کی وفات کی خبر پر بے ساختہ سُرخ اینٹوں سے بنی وہ عمارت یاد آگئی جس پر ’کروایٹرز‘ کا بورڈ لگا ہوتا تھا جسے پڑھ کر ہمیشہ ایک عجیب سے رومان کا احساس ہوا کرتا۔آج یہاں چار پانچ کافی خانے بن چکے ہیں مگر لاہور کی خواب پرور فضا اب اُس تہذیب سے الگ تھلگ نظر آنے لگی ہے جو کبھی اس شہر کی پہچان ہوا کرتی تھی۔