انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں تیزی سے آتی جدت اور ٹیکنالوجی نے قدیم ترین سمجھی جانے والی چیزوں کو بھی اپنے حصار میں لے لیا ہے۔لاہور چڑیا گھر کا شمار دنیا کے قدیم ترین چڑیا گھروں میں ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد 1860 میں رکھی گئی۔شروع میں تو یہ رائے بہادر لالہ میلا رام کی ذاتی ملکیت تھا لیکن بعد میں انہوں نے اسے حکومت وقت کے لیے وقف کر دیا۔رائے بہادر لالہ میلا رام نے جب یہ چڑیا گھر حکومت کو دیا تھا تو اس وقت کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب زندہ جانوروں سے زیادہ ٹیکنالوجی کی مدد یعنی ہولو ٹیکنالوجی سے مزین ایک ہال میں لوگ ڈائنوسار سے لے کر کسی بھی جانور کے ساتھ ورچوئلی کنیکشن ایکسپیریئنس کر سکیں گے۔تقریباً ڈیڑھ صدی کے بعد اب وہ وقت آ گیا ہے کہ پہلی مرتبہ لاہور چڑیا گھر کو سرکار کی بجائے ایک پرائیویٹ فرم چلائے گی۔ کسی بھی نجی فرم کو ٹھیکہ دینے سے قبل لاہور چڑیا گھر کو جدید ترین انٹرٹینمنٹ تصورات سے اپ گریڈ کر دیا گیا ہے جس میں نہ صرف مکسڈ ریلٹی، ورچوئل ریلٹی بلکہ زو ہالوورس بھی شامل کر دیے گئے ہیں۔جن میں زندہ جانوروں کی بجائے جانوروں کی شبیہوں سے ایکسپیریئنس کیا جا سکے گا۔ سابقہ نگراں حکومت کے دور میں شروع کیا جانے والا لاہور زو کو اپگریڈ کرنے کا منصوبہ اب مکمل ہو چکا ہے اور جنوری کے پہلے ہفتے میں اپگریڈڈ چڑیا گھر کو سب سے زیادہ بولی دینے والی نجی کمپنی کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اردو نیوز کو حاصل دستاویزات کے مطابق چڑیا گھر کو ٹھیکے پر دینے کے لیے کم سے کم بولی 35 کروڑ روپے رکھی گئی ہے تاہم سرکار کو یقین ہے کہ یہ 50 کروڑ سے بھی بڑھ جائے گی۔ اس تبدیلی کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ اب جدید چڑیا گھر کو دیکھنے کے لیے سیاحوں یا وزیٹرز کو پہلے سے زیادہ پیسوں کی بھی ضرورت ہو گی۔رائے بہادر لالہ میلا رام کا چڑیا گھر جو ان کی ذاتی ملکیت تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)اس وقت چڑیا گھر میں داخلے کی فیس محض 40 روپے ہے لیکن جب یہ نجی کمپنی کے پاس چلا جائے گا تو داخلہ فیس 100 روپے ہو جائے گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ جتنے بھی ٹیکنالوجی سے مزین پارک بنائے گئے ہیں، ان پارکس کی الگ الگ فیس ہو گی۔ سب سے زیادہ فیس زو ہالوورز کی ہو گی جو 300 روپے مقرر کی گئی ہے۔ اسی طرح سے ورچوئل ریالٹی 200 روپے اور مکس ریالٹی 100 روپے۔اگر کوئی ایک شخص چڑیا گھر میں داخل ہوتا ہے اور وہاں فراہم کی جانے والی تمام تر انٹرٹینمنٹ کو وہ ایکسپیریئنس کرنا چاہتا ہے تو تمام ٹکٹس ملا کر یہ خرچہ کوئی لگ بھگ 1100 روپے بنتا ہے۔ رائے بہادر لالہ میلا رام کا چڑیا گھر جو ان کی ذاتی ملکیت تھا، وہ سرکار کے بعد ایک مرتبہ پھر عارضی طور پر نجی شعبے کے حوالے ہو رہا ہے جس سے حکومت کو کئی گنا زیادہ آمدن کی توقع بھی ہے۔لاہور چڑیا گھر کے ڈائریکٹر شیخ زاہد کہتے ہیں کہ ’ہمارے خیال میں اب چڑیا گھر پہلے سے کئی گنا زیادہ مفید اور حکومت کے لیے آمدن کا باعث بنے گا۔ ہم نے کم سے کم بولی 35 کروڑ رکھی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ 50 سے اوپر جائے گی۔‘ خیال رہے کہ اس سے قبل حکومت نے سفاری چڑیا گھر بھی نجی شعبے کے حوالے کیا تھا جو گزشتہ برس 13 کروڑ روپے میں ایک نجی کمپنی کے حوالے کیا گیا۔نجی شعبے کے حوالے کیے جانے کے بعد لاہور کی سستی ترین انٹرٹینمنٹ کی شکل بڑی حد تک بدل جائے گی۔ابتدائی طور پر یہ ٹھیکہ تین برس کے لیے دیا جائے گا اور اس کے بعد دوبارہ صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد نئے سرے سے یہ عمل دہرایا جائے گا۔