اٹک میں سونے کی کہانی، برسوں پرانی بات پر اچانک شور کیوں ہوا؟

اردو نیوز  |  Jan 15, 2025

پاکستان کے سوشل میڈیا پر ان دنوں صوبہ پنجاب کے شہر اٹک کے قریب دریائے سندھ میں پائے جانے والے سونے کے ذرات سے متعلق اچانک ایسا شور اٹھا ہے کہ پڑوسی ملک انڈیا تک اس کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ ہوا کچھ یوں ہے کہ پنجاب کے سابق نگراں وزیر ابراہیم مراد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ کی جس میں انہوں نے لکھا کہ اٹک کے قریب 800 ارب روپے کے سونے کے ذخائر نکل آئے ہیں۔ یہ 28 لاکھ تولے سونا 32 کلومیٹر کے علاقے پر پھیلا ہوا ہے۔‘سوشل میڈیا کے بعد پاکستان کے مقامی میڈیا نے بھی اس خبر کو نمایاں خبر کے طور پر نشر کیا ہے جبکہ انڈین اخبارات بھی یہ سرخیاں لگا رہے ہیں کہ ’پیسے کو ترسنے والے پاکستان میں 28 لاکھ تولے سونا نکل آیا لیکن کیا طالبان یہ پارٹی کرنے دیں گے؟‘ اٹک پر واقع دریائے سندھ میں سونے کی کہانی آج یا اچانک شروع نہیں ہوئی بلکہ یہ دہائیوں پرانی ہے۔ ماہرین اس بات کا سراغ آج تک نہیں لگا سکے کہ شمالی علاقہ جات کے بلند و بالا پہاڑی سلسلوں سے گزرنے والا دریائے سندھ کون سی جگہ سے گزرتا ہے کہ یہ معدنیات کے ساتھ ساتھ سونے کے ذرات بھی اپنے پانیوں کے ساتھ میدانی علاقے میں لے آتا ہے۔تاہم یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جب دریائے سندھ اٹک کے مقام پر دریائے کابل سے ملتا ہے تو اس کے پانی کے بہاؤ میں کمی واقع ہوتی ہے اور یہ اٹک کے علاقے میں معدنیات کو ریت کے حوالے کر دیتا ہے جس میں سونے کے ذرات بھی موجود ہوتے ہیں۔پنجاب کے محکمہ معدنیات کے ایک اعلٰی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط کی اردو نیوز کو بتایا کہ ’دریائے سندھ میں سونے کے ذرات لاکھوں برسوں سے آرہے ہیں اور اس سونے کو اکٹھا کرنے والے ’پکھی واسوں‘ کو ’سونے وال‘ کہا جاتا ہے اور یہ گلگت سے پنجاب تک پھیلے ہوئے ہیں۔سرکاری دستاویزات کے مطابق 2017 میں جب ایک چینی کمپنی کو دریا سے ریت اٹھانے کا ٹھیکہ دیا گیا تو وہ ریت کے ساتھ ساتھ سونا بھی نکالنے لگی جس کے بعد حکومت نے اس کا ٹھیکہ منسوخ کر دیا۔پنجاب کا محکمہ معدنیات اس وقت سے علاقے پر تحقیقات کروا رہا ہے۔ تربیلا اور میانوالی کے درمیان 32 کلومیٹر کے رقبے پر کئی سال تک ہونے والی تحقیق گذشتہ برس ستمبر میں مکمل ہوئی۔اس تحقیق کے مکمل ہونے کے ساتھ ہی پنجاب کی وزارت داخلہ نے گذشتہ برس ستمبر میں دریائے سندھ سے سونا نکالنے پر مکمل پابندی عائد کر دی اور خلاف ورزی پر 50 سے زائد مقدمات بھی درج کیے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دریائے سندھ کے جس علاقے میں سونے کے ذرات کی نشان دہی ہوئی ہے اس میں دریا کا کافی علاقہ صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی آتا ہے، تاہم یہ پابندی اور سونے کی کھوج پنجاب حکومت نے اپنے علاقے میں کروائی ہے۔محکمہ معدنیات کے ایڈیشنل سیکریٹری اشفاق الرحمان نے بتایا کہ ’یہ پابندی ہم نے اس لیے لگائی تھی کہ یہاں کئی برسوں سے سونے کی موجودگی کے معاملے پر تحقیق ہو رہی تھی۔‘’ہمیں ایسے شواہد ملے تھے کہ یہاں بڑی مقدار میں سونا موجود ہے، تاہم اس کا ٹھیکہ ایسی کمپنی کو دیا جانا چاہیے جسے اس کام کا تجربہ ہو۔‘حال ہی میں پنجاب حکومت نے معدنیات کے قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے بین الاقوامی کمپنیوں کو بھی ٹھیکہ دینے کی اجازت دے دی ہے، اس سے پہلے قانون کے مطابق صرف مقامی کمپنیوں کو کان کنی کی اجازت حاصل تھی۔اہم بات یہ ہوئی ہے کہ پنجاب حکومت چُپکے سے یہ معاملات کر رہی تھی جبکہ سابق صوبائی نگراں وزیر نے اس رپورٹ کے مندرجات سوشل میڈیا پر شیئر کر دیے جو حکومت نے ظاہر نہیں کیے تھے۔ جس جیالوجیکل سروے کا ذکر سابق نگراں صوبائی وزیر نے سوشل میڈیا پر کیا وہ بھی سابق نگراں حکومت کے دور میں جاری تھا۔ان کی پوسٹ سے یوں ظاہر ہوا جیسے کہیں سے اچانک سونا نکل آیا ہے۔ سابق نگراں وزیر کی پوسٹ کے بعد موجودہ وزیر معدنیات شیر علی گورچانی نے بھی ان مندرجات کی تصدیق کر دی ہے۔مبصرین یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ رپورٹ کے مندرجات کو ایسے وقت میں کیوں سامنے لایا گیا جب وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز شریف سونے کی تحقیق کے لیے بنائی گئی وزارتی کمیٹی کے حتمی اجلاس کی صدارت کرنے والی تھیں جس میں ٹھیکہ دیے جانے کے حوالے سے فیصلہ بھی کیا جانا تھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More