پاکستان تحریک انصاف نے مذاکراتی عمل کے تیسرے دور میں اپنے مطالبات تحریری طور پر حکومت کو پیش کر دیے ہیں، جبکہ حکومت کی جانب سے سات روز میں ان مطالبات پر تحریری جواب دیا جائے گا۔
جمعرات کے روز سپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں حکومت اور تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کا تیسرا روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ کم و بیش دو گھنٹے جاری رہنے والے مذاکرات سے پہلے دونوں اطراف سے آنے والے بیانات سے یہ تاثر ملنا شروع ہو گیا تھا کہ مذاکرات کا ماحول بہتر ہوگا۔مذاکرات کا آغاز ہوا تو سپیکر ایاز صادق نے دونوں کمیٹیوں کو پیشکش کی کہ وہ اس مذاکراتی عمل سے علیحدہ ہوتے ہوئے کمیٹی کی سربراہی بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ تاہم دونوں کمیٹیوں نے سپیکر ایاز صادق کو سربراہی جاری رکھنے کا کہا جس کے بعد باضابطہ مذاکرات کو دور شروع ہوا۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور تحریک انصاف کی کمیٹی کے سربراہ عمر ایوب نے سپیکر ایاز صادق کو تحریری مطالبات یعنی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا اور کمیٹی کے سامنے پڑھ کر بھی سنایا۔چارٹر آف ڈیمانڈ کیا ہیں؟پاکستان تحریک انصاف نے اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ تحریری شکل میں پیش کیا، جس میں پی ٹی آئی نے دو الگ الگ انکوائری کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔چارٹر آف ڈیمانڈ دو نکات اور تین صفحات پر مشتمل ہے، عمر ایوب نے تحریری مطالبات کا ڈرافٹ سپیکر قومی اسمبلی کے سامنے رکھا، اپوزیشن لیڈر نے تحریری مطالبات کمیٹی اجلاس میں پڑھ کر بھی سنائے۔اس میں پی ٹی آئی نے 9 مئی اور 26 نومبر جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا، پی ٹی آئی نے اپنے مطالبے میں حکومت کو ٹائم فریم دے دیا۔مطالبات کے متن کے مطابق حکومت جوڈیشل کمیشن پر سات روز میں فیصلہ کرے، اس میں جیلوں میں قید سیاسی رہنماؤں اور کارکنان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔مذاکرات کی سربراہی سردار ایاز صادق نے کی۔ (فوٹو: این اے)متن کے مطابق تحریک انصاف نے حکومت سے کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا، اس کے علاوہ اس میں کہا گیا کہ حکومت دو الگ الگ کمیشن بنائے، دونوں کمیشن چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کے تین حاضر سروس ججز پر مشتمل ہوں گے، حکومت سات روز کے اندر کمیشن قائم کرے، دونوں کمیشن کی کارروائی عام لوگوں اور میڈیا کے لیے اوپن رکھی جائے۔اس میں مزید کہا گیا کہ 9 مئی کمیشن تحقیقات کرے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے حالات کی قانونی حیثیت کیا ہے۔کمیشن گرفتاری کے طریقہ کار کی قانونی حیثیت اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں رینجرز اور پولیس کے داخلے کے ذمہ دار افراد کا تعین کرے۔کمیشن عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پیش آنے والے واقعات، خاص طور پر ان حالات کی تحقیقات جن میں افراد کے گروپز حساس مقامات تک پہنچے۔کمیشن حساس مقامات کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگز کا جائزہ لے، کمیشن اگر سی سی ٹی وی فوٹیج دستیاب نہیں تو اس کی عدم دستیابی کی وجوہات کا تعین کرے۔کمیشن جائزہ لے کہ ان کی رہائی کے حالات کیا تھے؟ کیا ان افراد کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی، بشمول تشدد؟ گرفتار ہونے والے افراد کی فہرستیں کیسے تیار کی گئیں؟کمیشن تحقیقات کرے کہ کیا 9 مئی 2023 کے حوالے سے کسی ایک فرد کے خلاف متعدد ایف آئی آرز درج کی گئیں اور قانون کے عمل کا غلط استعمال کرتے ہوئے مسلسل گرفتاریاں کی گئیں؟کمیشن میڈیا کی سنسرشپ اور اس واقعے سے متعلق رپورٹنگ پر پابندیوں اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات کا جائزہ لے، کمیشن حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی بندش کے نفاذ کی قانونی حیثیت اور اس کے اثرات کا جائزہ لے، کمیشن انٹرنیٹ بندش سے پہلے، دوران اور بعد کے حالات میں ذمہ داری کا تعین کیا جائے۔مذاکرات کے تیسرے دور میں پی ٹی آئی نے تحریری مطالبات پیش کیے۔ (فوٹو: سکرین گریب)متن کے مطابق مزید مطالبہ کیا گیا کہ 26 نومبر کمیشن 24 سے 27 نومبر کو اسلام آباد میں پیش آنے والے واقعات کی تحقیقات کرے، کمیشن تحقیقات کرے کہ کیا اسلام آباد میں مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلائی گئیں یا دیگر جسمانی تشدد کیا گیا؟ اگر ایسا ہوا تو مظاہرین پر گولیاں چلانے اور تشدد کا حکم کس نے دیا؟ کمیشن تعین کرے کیا طاقت کا استعمال حد سے زیادہ تھا؟ اگر ہاں، تو اس کے ذمہ دار کون تھے؟ کمیشن تحقیقات کرے کہ 24 سے 27 نومبر کے بعد شہدا اور زخمیوں کی تعداد اور لاپتہ ہونے والے افراد کی تفصیلات کیا ہیں؟اس میں مزید کہا گیا کہ کمیشن 24 سے 27 نومبر کے دوران اسلام آباد کے مختلف ہسپتالوں اور طبی مراکز میں سی سی ٹی وی ریکارڈنگ کی حالت کا جائزہ لے، کمیشن اس کا بھی جائزہ لے کہ کیا ہسپتالوں اور دیگر طبی مراکز کے ریکارڈ میں رد و بدل کیا گیا؟ اگر ہاں، تو یہ کس کے حکم پر اور کن ہدایات کے تحت کیا گیا؟ کیا ہسپتالوں کو اموات اور زخمیوں کی معلومات جاری کرنے سے روکا گیا؟ کمیشن بلیو ایریا، اسلام آباد میں چائنا چوک سے ڈی چوک تک مختلف مقامات پر ریکارڈ کی گئی سی سی ٹی وی فوٹیج کی حالت کا جائزہ لے۔اس کے مطابق متن کے مطابق کہا گیا کہ 24 سے 27 نومبر کے واقعات کے حوالے سے ایف آئی آر درج کرانے اور دیگر قانونی کارروائی کے لیے درخواست دینے والوں کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟ میڈیا کی سنسرشپ اور اس واقعے سے متعلق رپورٹنگ پر پابندیوں کے واقعات کا جائزہ لیا جائے، حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی بندش کے نفاذ کی قانونی حیثیت اور اس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے، اس سے پہلے، دوران اور بعد کے حالات میں ذمہ داری کا تعین کیا جائے۔پی ٹی آئی وفاقی حکومت، پنجاب، سندھ، اور بلوچستان کی حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ قانون کے مطابق تمام سیاسی قیدیوں کی ضمانت یا ان کی سزا کے معطل کرنے کے احکامات کی حمایت کریں۔مزید پڑھیں31 جنوری تک جوڈیشل کمیشن نہ بنا تو مذاکرات آگے نہیں چلیں گے: پی ٹی آئیNode ID: 884303اس میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی ان تمام سیاسی قیدیوں کی ضمانت یا ان کی سزا معطل کرنے کے احکامات کے لیے وفاقی حکومت، پنجاب، سندھ، اور بلوچستان کی حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہے، جنہیں 9 مئی 2023 کے کسی بھی واقعے، 24 سے 27 نومبر 2024 کے کسی واقعے، یا کسی اور سیاسی سرگرمی کے سلسلے میں درج کی گئی ایک یا ایک سے زائد ایف آئی آرز کے تحت گرفتار کیا گیا ہو، یا جنہیں سزا دی گئی ہو، جن کی اپیلیں یا نظرثانی درخواستیں اس وقت کسی عدالت میں زیر سماعت ہوں۔متن کے مطابق اس چارٹر میں تجویز کردہ دونوں کمیشنز کا قیام سنجیدگی کے عزم کی لازمی علامت ہے، اگر ہمارے مطالبے کے مطابق ان کمیشنز کو اصولی طور پر تسلیم نہ کیا گیا اور فوری طور پر قائم نہ کیا گیا تو ہم مذاکرات جاری رکھنے سے قاصر رہیں گے۔