یہ سال 2018 کا ذکر ہے جب کراچی کے علاقے منگھوپیر کے ولی اللہ معروف نے اپنی والدہ کے کہنے پر پڑوس میں رہائش پذیر زاہدہ نام کی خاتون سے متعلق معلومات حاصل کرنا شروع کیں۔ انہوں نے مقامی افراد اور اپنی والدہ سے سنا تھا کہ ’زاہدہ کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے اور وہ انسانی سمگلنگ کا شکار ہو کر پاکستان پہنچی تھیں۔‘انہوں نے زاہدہ سے بنگلہ دیش میں اُن کا پتہ اور رشتہ داروں کے نام معلوم کیے۔ یہی وہ موقع تھا جب انہوں نے انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والی خواتین کو سرحد پار اپنوں سے ملوانے کا کام شروع کیا۔
ولی اللہ معروف اب تک پانچ برسوں کے دوران 180 خواتین کو انڈیا اور بنگلہ دیش میں اپنوں سے ملوانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔وہ جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن سے فارغ التحصیل اور مقامی مسجد میں خطیب ہیں جب کہ ایک نجی سکول سے بھی منسلک ہیں اور آن لائن تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے سرحد پار افراد کو اپنوں سے ملوانے کا کام سال 2018 میں شروع کیا تھا۔‘ولی اللہ معروف کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی زاہدہ نام کی خاتون ہماری پڑوسن تھیں جو انسانی سمگلنگ کا شکار ہو کر پاکستان آئی تھیں۔ وہ 37 برسوں سے اپنوں سے دُور تھیں۔‘’میری والدہ نے جب اُن سے متعلق مجھے بتایا تو میں نے انہیں اپنے گھر بلا لیا اور ان سے ان کے بنگلہ دیش کے پتے اور خاندان کے افراد سے متعلق مکمل معلومات حاصل کیں۔‘ولی اللہ اس سے قبل سوشل میڈیا کو روایتی انداز میں استعمال کرتے تھے۔ انہیں یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ یہ زاہدہ کے خاندان کی تلاش میں اس قدر مددگار بھی ثابت ہوسکتا ہے۔انہوں نے زاہدہ سے حاصل شدہ معلومات اپنی فیس بُک آئی ڈی پر اپ لوڈ کیں اور اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔ایک ہفتے بعد اچانک انہیں زاہدہ کے گھر والے مل گئے۔ ولی اللہ معروف بتاتے ہیں کہ ’سات روز بعد زاہدہ کی والدہ، بہن بھائی اور بیٹے سمیت پورا خاندان مل گیا۔‘’زاہدہ کا بیٹا اُس وقت شیر خوار تھا جب وہ اپنی ماں سے بِچھڑا۔ ہم نے ان سے ویڈیو کال پر رابطہ کیا جس کے بعد انہیں بنگلہ دیش بھیج دیا۔ زاہدہ اور ان کے خاندان کی 37 سال بعد ملاقات کے مناظر دیکھ کر میں بے حد متاثر ہوا۔‘
بنگلہ دیش میں ولی اللہ کی ٹیم ہمہ وقت بِچھڑے ہوئے افراد کی چھان بین میں مصروف رہتی ہے (فائل فوٹو: ولی اللہ)
ماں اور بیٹی کی 37 سال بعد ملاقات کے رِقت آمیز مناظر لوگوں نے سوشل میڈیا پر بھی دیکھے جس کے بعد ولی اللہ نے اسی طرح مزید افراد کو ملوانے کا بیڑا اٹھایا۔وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے اپنی والدہ کے کہنے پر 37 سال قبل بِچھڑ چُکی ماں بیٹی کو ملوایا اور اب میں گذشتہ پانچ برسوں سے اسی کام میں مصروف ہوں۔‘بنگلہ دیش کی زاہدہ اپنے خاندان سے ملیں تو پاکستان میں ہر جگہ ولی اللہ کے چرچے ہونے لگے۔ لوگوں نے ان سے رابطے کرنا شروع کر دیے اور ان میں زیادہ تر وہ افراد تھے جو بنگلہ دیش یا انڈیا میں اپنے بِچھڑے ہوئے خاندانوں کے بارے میں دریافت کرنا چاہتے تھے۔ولی اللہ اس حوالے سے خود بتاتے ہیں کہ ’زاہدہ اور ان کے خاندان کی ملاقات کے بعد ملک بھر سے اسی طرح کی دیگر متاثرہ خواتین نے بھی مجھ سے رابطے کرنا شروع کر دیے۔ وہ خواتین جو انسانی سمگلرز بنگلہ دیش اور انڈیا سے پاکستان لائے تھے، وہ اپنوں سے ملنے کے لیے بے تاب تھیں۔‘ولی اللہ اب تک تقریباً 180 خواتین کو دہائیوں بعد اپنے پیاروں سے ملوا چکے ہیں۔ ان خواتین میں سے زیادہ تر کا تعلق بنگلہ دیش اور انڈیا سے ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک درجن سے زیادہ پاکستانی بچوں کو بھی اُن کے اپنوں سے ملوایا ہے جو چار، پانچ برس قبل کھو گئے تھے۔ولی اللہ سے بعض اوقات تو دو الگ ممالک میں بِچھڑے خاندانوں نے بھی رابطہ کیا جس پر انہوں نے نہ صرف کام کیا بلکہ ان خاندانوں کی ملاقات بھی کروائی۔
ولی اللہ معروف کہتے ہیں کہ ’بِچھڑے ہوئے افراد کو آپس میں ملوانے کا مقصد انسانیت کی خدمت ہے‘ (فائل فوٹو: ولی اللہ)
ان کا کہنا ہے کہ ’ایسا بھی ہوا ہے کہ انڈیا سے خاندانوں نے رابطہ کر کے یمن میں 40 برسوں سے لاپتا اپنی بہنوں کو تلاش کرنے کا کہا اور ہم نے تلاش کیا، جس پر یمن کے ٹی وی چینل نے بھی انٹرویو کیا۔‘وہ اب چونکہ اپنے کام کے ساتھ ساتھ مستقل طور پر بِچھڑے ہوئے افراد کو آپس میں ملوانے کے کام سے بھی منسلک ہوگئے ہیں تو اس لیے اس طرح کے کئی خاندان ان سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں جب کہ وہ خود پاکستان کے دور دراز علاقوں میں جا کر بھی چھان بین کرتے ہیں۔ولی اللہ اپنے طریقۂ کار سے متعلق بتاتے ہیں کہ ’ہمارے پاس ہفتے میں اس طرح کے دو سے تین کیسز آتے ہیں اور ہم فی الفور ان افراد کے رشتہ داروں کی تلاش شروع کر دیتے ہیں۔‘’ہم ان کی معلومات حاصل کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر مشتہر کرتے ہیں یا اپنے ایجنٹس یا دوستوں کو وہ تفصیلات فراہم کر دیتے ہیں جس کے بعد جیسے ہی ہمیں کوئی ٹھوس معلومات موصول ہوتی ہیں تو ہم ان کا آپس میں رابطہ کروا دیتے ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’جب میں نے زاہدہ کو بنگلہ دیش میں اُن کی فیملی سے ملوانا چاہا تو وہ بنگلہ دیشی شہری منظور احمد سے رابطے میں آئے جس کے بعد انہوں نے مختلف کیسز میں ان کی معاونت حاصل کی۔‘ولی اللہ کے مطابق ’اب بنگلہ دیش میں 14 افراد پر مشتمل ان کی ٹیم ہے جو ہمہ وقت بِچھڑے ہوئے افراد کی چھان بین میں مصروف رہتی ہے۔‘
180 خواتین ولی اللہ کے توسط سے انڈیا اور بنگلہ دیش میں اپنے بِچھڑوں سے مل چکی ہیں (فائل فوٹو: فری پِک)
انہوں نے مزید بتایا کہ ’میں بنگلہ دیش کے کیسز ان افراد کو بھیجتا ہوں وہ مختلف ذرائع استعمال میں لاتے ہوئے ان خواتین کے رشتہ داروں تک رسائی حاصل کرتے ہیں جس کے بعد وہ خواتین کی بتائی ہوئی تمام تفصیلات کی تصدیق کر کے ان کو ویڈیو کال پر ملواتے ہیں۔‘’ویڈیو کال پر جب ان کی ملاقات ہوتی ہے تو اکثر خواتین جذبات کی رو میں بہہ جاتی ہیں اور ان سے کوئی بات نہیں ہو پاتی۔ وہ گریہ و زاری کے بعد اپنے رشتہ داروں سے بات چیت کرتی ہیں۔‘ولی اللہ کا کہنا ہے کہ ’جب دونوں جانب سے تصدیق ہو جاتی ہے کہ وہ ایک ہی خاندان سے ہیں تو ہم فون نمبرز کا تبادلہ کرتے ہیں اور یوں ہمارا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’میں اکثر اوقات اپنی جیب سے پیٹرول خرچ کر کے اس طرح کے لوگوں سے ملاقات کرنے کے لیے جاتا ہوں تاکہ درست معلومات اکٹھی ہو سکیں۔‘ ’میں اس کام سے کوئی مالی فوائد حاصل نہیں کر رہا اور نہ ہی کرنا چاہتا ہوں۔اس کام کے سلسلے میں اگر شہر سے باہر بھی جانا ہو تو زیادہ تر میں خود پیسے خرچ کر کے جاتا ہوں۔‘ولی اللہ معروف سمجھتے ہیں کہ ’بِچھڑے ہوئے افراد کو ملوانے کا یہ کام انہیں ان کی والدہ نے سونپا ہے جس کے لیے وہ گذشتہ پانچ برسوں سے اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’بِچھڑے ہوئے افراد کو ملوانے کا مقصد انسانیت کی خدمت ہے۔ اپنوں سے جُدائی کی تکلیف میں مبتلا افراد کے چہروں پر دہائیوں بعد خوشیاں دیکھنے کا منظر خوش کن ہوتا ہے جو دنیا کے کسی اور کام میں نہیں ہے اور یوں ہم پاکستان کا ایک مثبت چہرہ بھی دنیا کو دکھا رہے ہیں۔‘