’میری بیوی کو سیکس سے ڈر لگتا ہے، مجھے موت سے‘

بی بی سی اردو  |  Feb 17, 2025

Getty Images

جب گذشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیرملکی امداد بند کرنے کا اعلان کیا تو تب سے ہی ایچ آئی وی کے مرض میں مبتلا موٹر سائیکل ٹیکسی ڈرائیور مائیک ایلوس ٹوسوبی رے کی زندگی جیسے رک گئی ہے۔ وہ جان بچانے والی اینٹی ریٹرووائرل (اے آر وی) دوا استعمال کرتے ہیں۔

35 برس کے ان ٹیکسی ڈرائیور کو اپنی زندگی کا ہی نہیں بلکہ اب یہ ڈر بھی ہے کہ انھیں اپنی اہلیہ سے بھی جدائی اختیار کرنا پڑے گی کیونکہ اب وہ سیکس نہیں کر سکیں گے۔

ان کی شریک حیات ایچ آئی وی نیگٹو ہیں اور ان کا انحصار ’پی آر ای پی‘ دوائی استمعال کرتی ہے جس سے ایچ آئی وی میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اب میری شادی بھی قائم نہیں رہے گی کیونکہ حفاظتی تدابیر کے بغیر تو میری اہلیہ ساتھ نہیں رہیں گی۔‘

’میرے پاس کونڈوم، اینٹی ایچ آئی وی لبریکنٹس اور پریپ نامی دوا سمیت کچھ بھی نہیں ہے۔ جنسی تعلقات قائم کیے بغیر ہم شادی کے بندھن میں نہیں رہ سکتے۔ اب اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مجھے اکیلا ہی رہنا ہو گا۔‘

امریکہ کے ادارے یو ایس ایڈ کی طرف سے ملنے والی امداد سے انھیں پہلے سب کچھ دستیاب ہو جاتا تھا۔

اس غیرملکی امداد کے اچانک بند ہونے سے وہ ان چیزوں سے محروم ہو گئے ہیں۔ ان کی اہلیہ کے پاس پریپ نامی دوائی بھی مکمل ختم ہو گئی ہے اور اب ان دونوں کو یہ خطرہ ہے کہ جو چند کنڈوم بچ گئے ہیں ان سے جنسی تعلقات قائم رکھنا بہت خطرناک ہوگا۔

امریکی صدر نے غیرملکی امداد 90 دن کے لیے معطل کرنے کے احکامات دیے ہیں اور اس دوران تمام منصوبوں کا جائزہ لیا جائے گا کہ کون سے چلتے رہنے چاہیں اور کون سے بند کر دینے چاہیں۔ ان احکامات کے بعد یو ایس ایڈ کی امداد بند ہو گئی ہے۔

انسانی امداد کے لیے استثنیٰ کا حکم بھی جاری کیا مگر اس وقت تک دارالحکومت کامپالا کے شمال میں واقع مارپی کلینک بند ہو گیا تھا جہاں سے مائیک کو اپنی ضروری دوائیاں مل جاتی تھیں۔

مائیک نے حالات جاننے کے لیے ’کسوا نامی مرکز صحت پر اپنے معالج کو فون کیا۔ میرے معالج گاؤں میں تھے۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ کلینک پر موجود نہیں ہیں۔‘

’اگر میں مر بھی گیا تو یہ خدا کی مرضی ہو گی‘: ڈنکی لگا کر یورپ کے کنیری جزائر پہنچنے کا پُرخطر سفرسوڈان میں خانہ جنگی: ’میں نے کہا میری بیٹیوں کو چھوڑ دو اور مجھے ریپ کر لو‘’پوری زندگی میں اتنا خون نہیں دیکھا‘: ڈاکوؤں اور جنگجوؤں کی موجودگی میں شراب کی سمگلنگ کا خطرناک راستہسٹنٹنگ: بچوں میں عمر کے لحاظ سے کم رہ جانے والے قد کی وجوہات جنھیں نظر انداز کیا گیا

مائیک ایک بچے کے باپ ہیں۔ ان میں ایچ آئی وی کی تشخیص سنہ 2022 میں ہوئی تھی۔ مگر تب سے وہ یہ ٹیسٹ نہیں کروا سکے کہ ان کے خون میں کتنا وائرس ہے اور ان کا مدافعتی نظام کتنا مضبوط ہے۔

ان کے مطابق ’میں اندھیرے کی طرف جا رہا ہوں، مزید گھپ اندھیرے کی طرف۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے خون میں وائرس کی مقدار کیا ہے۔ میں صدمے میں ہوں۔‘

انھی مشکلات کا سامنا ہے اور وہ جو موٹر سائیکل ٹیکسی کا کام وہ کرتے ہیں اس سے خاندان کا گزر بسر چلانا مشکل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’کچھ لوگوں کی رائے میں یہ ادویات اب نجی دوا ساز کمپنیوں کے پاس دستیاب ہوں گی۔ مگر ایک ڈرائیور کی کمائی میں مجھے نہیں لگتا کہ میں اپنے علاج کو جاری رکھنے کے لیے ان دوائیوں کے لیے پیسے اکٹھے کر سکوں گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ایک غیرسرکاری ادارہ جو یو ایس ایڈ سے امداد ملنے کے بعد ان کی مدد کرتا تھا اب وہاں سے بھی امداد ملنا بند ہو گئی ہے۔

ان کے مطابق میری بیوی مارپی کلینک سے اپنی پریپ والی دوائی لے رہی تھیں مگر وہ بھی اس این جی او کے ذریعے یہ حاصل کر رہی تھیں۔ ان کے پانچ برس کے بچے کو بھی مفت سکول اور کھانا مل رہا تھا۔

مائیک کا کہنا ہے کہ اب میرا بچہ سکول نہیں جا رہا ہے۔‘

Getty Images

یوگنڈا کے شعبہ صحت کا انحصار عطیہ دہندگان پر ہے، جن کی مدد سے اس مُلک میں پائے جانے والے ایڈز کے مریضوں کے لیے کیے جانے والے 70 فیصد اقدامات میں مدد ملتی ہے۔

یو گینڈا کا شمار افریقہ کے اُن دس مُمالک میں ہوتا ہے کہ جنھیں یو ایس ایڈ کی جانب سے سب سے زیادہ امداد ملتی ہے۔امریکی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق یوگینڈا کو سنہ 2023 میں یو ایس ایڈ کی جانب سے صحت کے شعبے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے نائجیریا اور تنزانیہ کے بعد تیسرے نمبر پ سب سے زیادہ 295 ملین ڈالر (234 ملین پاؤنڈ) امداد کے طور پر موصول ہوئے۔ تاہم اسی سال کے دوران نائجیریا پہلے نمبر تھا جسے 368 ملین ڈالر جبکہ تنزانیہ دوسرے نمبر پر جسے 337 ملین ڈالر کی امداد ملی۔

یو ایس ایڈ ملیریا، تپ دق اور جذام کے پروگراموں کے ساتھ ساتھ زچہ و بچہ کی صحت کی خدمات اور ہنگامی طبی امداد کی مالی معاونت بھی کرتا ہے۔

امریکہ کی جانب سے مالی امداد کے رک جانے سے ہزاروں ہیلتھ کیئر ورکرز متاثر ہوئے ہیں۔

یوگنڈا میں ایچ آئی وی سے متاثرہ لوگوں کو طبی اور نفسیاتی مدد فراہم کرنے والی ایک مذہبی تنظیم ریچ آؤٹ مبویا (روم) سے وابستہ ڈاکٹر شمیرہ نکیتو کسینی ہیلتھ سینٹر فور میں مقیم ہیں، جو کمپالا کی گنجان آباد کچی آبادی میں کام کرتا ہے۔

اوسطاً وہ روزانہ ایچ آئی وی یا ایڈز اور تپ دق کے 200 مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ لیکن کام روکنے کے حکم کے بعد تمام طبی کارکنوں کو فارغ کر دیا گیا۔

اس کے بعد اُن کا تپ دق کا یونٹ اب بند پڑا ہے نا صرف یہ بلکہ اسی تنظیم کا یتیم اور کمزور بچوں کا سیکشن بھی بند کر دیا گیا ہے۔

اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم 90 دنوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ جس کے بعد ہونے والا فیصلہ یہ بتائے گا کہ ہم یہاں اپنا کام جاری رکھ بھی سکیں گے یا نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سب بہت اچانک تھا۔ ہم تو مناسب انداز میں ذمہ داریاں بھی کسی کہ سپرد نہیں کر سکے اور یہاں سب کُچھ بند کر دیا گیا۔‘

یوگنڈا کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ وہ رکاوٹوں کو کم سے کم کرنے کے طریقے تلاش کر رہی ہے۔

وزارت کی اعلیٰ سرکاری ملازم ڈاکٹر ڈیانا ایٹ وائن نے رضاکاروں کے طور پر کام جاری رکھنے کے خواہشمند افراد پر زور دیا ہے کہ وہ رابطہ کریں۔

BBCتین بچوں کی ماں، جن کے پاس تین ہفتوں کے لیے اے آر وی کی دوا بچی ہے۔’ہمارے پاس دعا کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے‘

یوگینڈا کے بعد افریقہ میں اگر زرہ جنوب کا رُخ کریں تو ایک اور مُلک بھی یو ایس ایڈ کی جانب سے ملنے والی مالی امداد کے سہارے اپنی طبی ضروریات کو پورا کرتا رہا ہے تاہم اب ملاوی میں بھی یہ سرگرمیاں رک گئی ہیں۔

ملاوی نے سنہ 2023 میں یو ایس ایڈ کے صحت کے بجٹ سے 154 ملین ڈالر حاصل کیے تھے۔ جس کے بعد یہ یو ایس ایڈ کی جانب سے افریقہ میں امداد لینے والا 10 واں سب سے بڑا مُلک ہے۔

ملاوی کے شمالی شہر موزوزو میں ایک کلینک کے دروازے فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے بند ہو گئے ہیں۔ یہ چلاقے کا وہ طبی مرکز ہے کہ جہاں ایچ آئی وی کے مریضوں کو طبی امداد فراہم کی جاتی تھی۔ میکرو موزو کلینک میں اب کوئی مریض نہیں اور نا ہی اب یہاں کسی ڈاکٹر کا کوئی نام و نشان ہے۔ اس کلینک میں کام کرنے والا عملہ 18 دن قبل یہاں سے چلا گیا تھا۔

امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے 28 جنوری کو اے آر وی جیسی ادویات کی فراہمی کی اجازت دینے کے باوجود بہت سے کلینک بند ہو چکے ہیں کیونکہ یو ایس ایڈ کی سرگرمیوں کو مربوط کرنے والے اہم عملے کے بغیر ادویات کی تقسیم ایک بڑا چیلنج ہے۔

یہاں ہیلتھ ورکرز کو یقین نہیں ہے کہ وہ کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں کر سکتے۔

ٹرمپ انتظامیہ یو ایس ایڈ کے عملے میں 90 فیصد سے زیادہ کمی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

یو ایس ایڈ کے سابق گلوبل ہیلتھ اسسٹنٹ ایڈمنسٹریٹر اتل گاونڈے نے ایکس پر لکھا کہ ’ایجنسی کی افرادی قوت 14000 سے کم کرکے 294 کردی جائے گی۔‘

ملاوی میں 30 سے زیادہ این جی اوز بھی فنڈنگ منجمد ہونے سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔

32 سالہ کسان ایڈاہ سمفوکوے بانڈا 2017 سے میکرو کلینک سے اے آر وی لے رہی ہیں۔ وہ اپنی اور اپنی بھابھی کی قسمت کے بارے میں فکرمند ہیں جن کا انحصار عطیہ دہندگان کی مالی اعانت سے ملنے والی دواؤں پر ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس دعا کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں سب کو مل کر دعائیں مانگنی ہوں گی، خاص طور ان ملاویوں کی طرح کہ جن کا یہ ایمان ہے کہ خدا جب ایک در بند کرتا ہے تو سو در کھول دیتا ہے۔‘

تین بچوں کی ماں، جن کے پاس تین ہفتوں کے لیے اے آر وی کی دوا موجود ہے۔ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’نظام کی ناکامیاں اس سب کی ذمہ دار ہیں ’ملاوی باشندوں کی حیثیت سے ہماری بس یہی کوشش ہوتی ہے کہ ہمیں امداد ہی ملتی رہے۔ ہم بہت زیادہ سست اور کاہل ہو جاتے ہیں اور اپنی مدد کے لئے دوسرے ممالک پر ہی انحصار کرتے ہیں خود سے کُچھ بھی کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ ہمارے لیے ایک سبق ہے کہ ہمیں خود مختار ہونا پڑے گا۔‘

لیکن دنیا کے غریب ترین اور سب سے زیادہ امداد پر انحصار کرنے والے ممالک میں سے ایک کے لیے یہ مشکل ہے۔ عالمی بینک کے مطابق ملاوی قدرتی آفات کا شکار رہا ہے اور اب بھی ہے جن میں طویل خشک سالی، سمندری طوفان اور بے ترتیب بارشیں شامل ہیں۔

ملاوی کے لیے امداد کی بندش صحت کے شعبے کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔

BBCلیکن بہت سے کم آمدنی والے ممالک کے لیے قرضوں کا بوجھ، آب و ہوا کی وجہ سے قدرتی آفات اور معاشی اُتار چڑھاؤ خود کفیل بننے کی کوشش کو تقریباً ناممکن بنا دیتے ہیں۔

کئی دہائیوں سے امریکہ افریقہ میں صحت عامہ کا سب سے اہم شراکت دار رہا ہے اور تقریباً ہر مُشکل کی گھڑی میں ان مُمالک کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔

خاص طور پر ایچ آئی وی یعنی ایڈز کے عالمی پھیلاؤ کا مقابلہ کرنے کے لیےسنہ 2003 میںایک خاص منصوبے کا آغاز کیا گیا تھا۔ یو ایس پریزیڈنٹس ایمرجنسی پلین فار ایڈز ریلیف (پیپفر) کہلانے والے اس منصوبے نے ڈھائی کروڑ سے زائد زندگیاں بچائی ہیں۔

افریقہ سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (افریقہ سی ڈی سی) کے سربراہ کے مطابق یو ایس ایڈ نے گذشتہ سال افریقہ کو آٹھ ارب ڈالر کی امداد دی۔

جین کاسیا نے گذشتہ ماہ بی بی سی نیوز ڈے کو بتایا تھا کہ ’اس امداد میں سے 73 فیصد حصہ صحت پر خرچ کیا گیا۔‘

ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ اس فنڈنگ کو تبدیل کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔

افریقی مُمالک کی حکومتوں نے امداد پر انحصار کم کرنے میں پیش رفت کی ہے۔ کینیا اب ایچ آئی وی سے نمٹنے کے لیے تقریباً 60 فیصد فنڈز فراہم کرتا ہے۔ جنوبی افریقہ تقریباً 80 فیصد کا احاطہ کرتا ہے۔

لیکن بہت سے کم آمدنی والے ممالک کے لیے قرضوں کا بوجھ، آب و ہوا کی وجہ سے قدرتی آفات اور معاشی اُتار چڑھاؤ خود کفیل بننے کی کوشش کو تقریباً ناممکن بنا دیتے ہیں۔

براعظم میں صحت سے متعلق معروف این جی اوز میں سے ایک ایمریف ہیلتھ افریقہ نے خبردار کیا ہے کہ فوری اقدامات کے بغیر عالمی سطح پر صحت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

کمپنی کے سی ای او ڈاکٹر گیتھینجی گیتاہی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس کے لیے افریقی حکومتوں اور افریقی سی ڈی سی کو اپنی فنڈنگ بڑھانے کی ضرورت ہوگی، جو موجودہ قرضوں کے بحران کے حالات میں تقریباً ناممکن ہی نظر آتی ہے۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ ’موسمیاتی تبدیلی اور انسانوں اور ماحولیاتی تنازعات کے بڑھ جانے کی وجہ سے سب کے لیے ہی مسائل نہ صرف پیدا ہوں گے بلکہ ان میں اضافہ بھی ہوگا۔ جس کے بعد یہ معاملہ صرف افریقہ کے لیے ہی نہیں بلکہ دُنیا کے ہر مُلک کے لیے خطرناک ثابت ہو گا۔‘

سنہ 2023 میں دنیا بھر میں ایڈز کی وجہ سے چھ لاکھ 30 ہزار افراد ہلاک ہو گئے اور 15 لاکھ نئے انفیکشن ہوئے۔

اگرچہ سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں انفیکشن کی شرح کم ہو رہی ہے لیکن یو ایس ایڈ کی بندش کے اثرات ان فوائد کو پلٹ سکتے ہیں۔

یو این ایڈز کی سربراہ ونی بیانیما نے رواں ہفتے بی بی سی کے افریقہ ڈیلی پوڈ کاسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ امریکی حکومت کی جانب سے دی جانے والی اس بڑی امداد کو ختم کر دیتے ہیں تو ہمیں اس بات کا خدشہ ہے کہ آئندہ پانچ سالوں میں ایڈز مزید 63 لاکھ لوگوں کی جان لے لے گی۔‘

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’87 لاکھ نئے انفیکشن ہوں گے، 34 لاکھ ایڈز سے متاثرہ بچے یتیم ہوں گے۔ میرا مقصد آپ کو ڈرانا نہیں بلکہ میرا فرض ہے کہ حقائق کو اسی طرح پیش کروں جیسا ہم انھیں دیکھ رہے ہیں۔‘

طبی خیراتی ادارے میڈیسنز سانز فرنٹیئرز (ایم ایس ایف) نے بھی ایچ آئی وی کے علاج میں خلل پر سامنے آنے والے خطرات سے خبردار کیا ہے۔

ایم ایس ایف جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ٹام ایلمین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ایچ آئی وی کی دوائیں روزانہ لی جانی چاہئیں ورنہ لوگوں کو مختلف اور مہلک پیچیدگیوں کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔‘

یوگنڈا میں توسوبیرا مستقبل کے بارے میں پُراُمید نہیں ہیں۔

ان کے پاس اے آر وی کی بس تقریباً 30 دن کی دوا بچی ہے اور وہ اس کے بعد انھیں کمپالا چھوڑ کر اپنے گاؤں جانا پڑے گا۔

اُن کا کہنا ہے کہ ’کم از کم یہ تھوڑا سا آسان ہو جائے گا۔ اگر میں مر جاتا ہوں تو وہ مجھے وہیں دفن کر دیں گے اور اے آر وی کی دوا اور طبی مرکز کے بند ہو جانے کے بعد یہاں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘

ہیروں سے مالامال ملک جہاں ہزاروں خواتین ’سیکس ورکر‘ بننے پر مجبور ہیںوہ ملک جہاں ایم پوکس کے سینکڑوں مریض ہیں مگر لوگوں میں ’وبا کا کوئی خوف نہیں‘’اگر میں مر بھی گیا تو یہ خدا کی مرضی ہو گی‘: ڈنکی لگا کر یورپ کے کنیری جزائر پہنچنے کا پُرخطر سفرسوڈان میں خانہ جنگی: ’میں نے کہا میری بیٹیوں کو چھوڑ دو اور مجھے ریپ کر لو‘’پوری زندگی میں اتنا خون نہیں دیکھا‘: ڈاکوؤں اور جنگجوؤں کی موجودگی میں شراب کی سمگلنگ کا خطرناک راستہسٹنٹنگ: بچوں میں عمر کے لحاظ سے کم رہ جانے والے قد کی وجوہات جنھیں نظر انداز کیا گیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More