آپ کا پاخانہ آپ کی صحت کے بارے میں کیا ظاہر کرتا ہے اور یہ ہفتے میں کتنی بار کرنا چاہیے؟

بی بی سی اردو  |  Mar 11, 2025

Getty Images

مثالی صورتحال تو یہ ہے کہ آپ دن میں ایک مرتبہ پاخانہ کریں، چاہے اُس کی ساخت سخت ہو یا نرم۔

کیا آپ ایسے انسان ہیں جو دن میں دو سے تین مرتبہ پاخانہ کرنے کے لیے ٹوائلٹ جاتے ہیں؟ یا اُن افراد میں سے ایک جو ہفتے میں صرف تین سے چار مرتبہ اس کام کے لیے ٹوائلٹ کا رُخ کرتے ہیں؟ اور اہم بات یہ ہے کہ آپ ہفتے میں کتنی بار پاخانہ کرتے ہیں یہ آپ کی صحت کے بارے میں کیا ظاہر کرتا ہے؟

تو اس رپورٹ کو پڑھنے سے قبل بیٹھیں، آرام کریں اور انسانی پاخانے کی سائنس کے بارے میں جانیں۔

آپ ایک دن میں کتنی بار پاخانہ کرتے ہیں؟ یہ ہر انسان کے لیے مختلف ہو سکتا ہے۔جب بھی کچھ بھی کھاتے ہیں تو ہمارے جسم میں موجود بڑی آنت سکڑتی ہے اور کھانے کو نظام انہضام کی جانب دھکیل دیتی ہے۔ ہمارے جسم میں موجود اِس خودکار نظام کے نتیجے میں ایسے ہارمونز کا اخراج ہوتا ہے جو پاخانہ کرنے کی خواہش کو جنم دیتے ہیں۔

ہم میں سے اکثر بعض اوقات ’پاخانہ کرنے کی اس خواہش‘ کو دبا دیتے ہیں اور عموماً دن میں صرف ایک بار پاخانہ کرتے ہیں۔

آسٹریلیا کے کینبرا ہسپتال سے منسلک معدے کے ڈاکٹر مارٹن ویسی کہتے ہیں کہ ’جب بات پاخانہ کرنے کی آتی ہے تو ہم بہت زیادہ مصروف ہو جاتے ہیں۔‘ (یعنی ہر کھانے کے بعد جسم میں پیدا ہونے والی اس خواہش کو دبا دیتے ہیں۔)

روایتی طور پر اکثر یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ دن میں ایک بار پاخانہ کرنے آنتوں کی اچھی صحت کی علامت ہے۔ لیکن ماضی میں ایسا نہیں تھا اور ایک تحقیق میں یہاں تک کہا گیا کہ دن میں 24 مرتبہ پاخانہ کرنے کو بھی نارمل سمجھا جا سکتا ہے۔

تاہم برطانیہ میں برسٹل رائل انفرمری سے منسلک کین ہیٹن جیسے سائنسدانوں کے اس سلسلے میں اہم کام کی بدولت اب ہم اس بارے میں بہتر طور پر جانتے ہیں۔ سنہ 1980 کی دہائی کے آخر میں کین ہیٹن اور اُن کے ساتھیوں نے سروے کیا اور لوگوں سے یہ سوال پوچھا کہ ’آپ کب اور کتنی بار پاخانہ کرتے ہیں؟‘

نتائج حیرت انگیز تھے اور انتہائی مختلف نوعیت کے تھے۔ 40 فیصد مردوں اور 33 فیصد خواتین کا جواب تھا کہ وہ دن میں ایک مرتبہ پاخانہ کرتے ہیں۔ کچھ نے بتایا کہ وہ پورے ہفتے میں ایک بار یا اس سے بھی کم رفع حاجت کرتے ہیں۔ کچھ نے بتایا کہ وہ دن میں تین بار پاخانہ کرتے ہیں۔

مجموعی طور پر، اس سروے میں یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ ’روایتی طور پر نصف سے بھی کم آبادی دن میں ایک مرتبہ پاخانہ کرتی ہے اور انسانی فزیالوجی کے اس پہلو میں نوجوان خواتین خاص طور پر پیچھے ہیں۔‘

سائنسدان کین ہیٹن کی واحد تحقیق نہیں تھی جو انھوں نے انسانی پاخانے کی سائنس پر کی۔ بعد میں انھوں نے ’برسٹل سٹول فارم سکیل‘ وضع کرنے میں مدد کی جو آگے چل کر ڈاکٹروں کو ہاضمے کے مسائل کی تشخیص میں مدد کرنے کے لیے ایک وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والا پیمانہ بن گیا۔

اس پیمانے میں پاخانے کی شکل کی آسان وضاحتیں شامل ہیں جیسا کہ ’علیحدہ علیحدہ اور سخت گانٹھوں والا پاخانہ جیسا کہ گری دار میوے‘ سے لے کر ’ٹوٹے کناروں والا اور نرم پاخانہ۔‘

برطانیہ میں صحت کے قومی ادارے ’این ایچ ایس‘ اور صحت سے متعلقہ دیگر اداروں کے مطابق دن میں تین بار پاخانہ کرنا یا ہفتے میں تین بار ایسا کرنا معمول کی بات ہے۔

لیکن ضروری نہیں کہ معمول کی بات ہونا اور صحت مند بات ہونا ایک ہی چیز ہوں۔ سائنسدانوں نے شاید یہ معمہ حل کر دیا ہو گا کہ ہم کتنی بار پاخانہ کرتے ہیںلیکن اس سوال کا جواب دینے کے لیے انھوں نے کچھ نہیں کیا کہ ہمیں ایک دن میں کتنی بار پاخانہ کرنا چاہیے؟ تاہم اب محققین کو یہ معلوم ہو رہا ہے کہ کسی شخص کا پاخانہ اس کی صحت کا عکاس ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر سنہ 2023 میں امریکہ میں ساڑھے چودہ ہزار بالغ افراد پر ایک تحقیق کی گئی۔ تحقیق میں شامل لگ بھگ 50.7 فیصد افراد ایک دن میں ایک بار پاخانہ کرتے پائے گئے اور اِن میں سے بیشتر افراد کا پاخانہ نرم، ہموار اور بل دار تھا۔

اس کے بعد محققین نے پانچ سال سے زائد عرصے تک اس سروے میں شامل افراد پر نظر رکھی اور یہ جاننے کی کوشش کی پاخانے اور موت کے درمیان کیا کوئی تعلق ہے یا نہیں۔ انھیں معلوم ہوا کہ جو لوگ ہفتے میں چار مرتبہ نرم پاخانہ کرتے ہیں اُن کا آئندہ پانچ سال کے اندر مرنے کا امکان اُن لوگوں کے مقابلے میں 1.78 گنا زیادہ ہوتا ہے جو ہفتے میں سات بار نارمل پاخانہ کرتے ہیں۔

انھوں نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ ایسے افراد کا بالترتیب 2.42 اور 2.27 گنا زیادہ کینسر اور دل سے متعلقہ بیماریوں سے مرنے کا امکان زیادہ تھا۔

امریکہ میں انسٹیٹیوٹ فار سسٹمز بائیولوجی سے منسلک ایک مائیکرو بائیولوجسٹ شان گبنز اس سوال کا جواب بھی ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایک مرتبہ میں کیے جانے والے پاخانے کی مقدار کتنی ہونی چاہیے۔

سنہ 2024 میں گبنز نے ایک تحقیق کی قیادت کی جس میں 1,400 صحت مند بالغ افراد کو ان کے بیت الخلا جانے کی عادات کی بنیاد پر چار گروپوں میں تقسیم کیا گیا: قبض (ہفتے میں ایک سے دو بار آنتوں کی حرکت یا پاخانہ کرنے والے)، کم نارمل (فی ہفتہ تین سے چھ بار آنتوں کی حرکت)، زیادہ نارمل (فی دن ایک سے تین مرتبہ آنتوں کی حرکت) اور اسہال کی کیفیت۔

پھر انھوں نے یہ جانچنے کی کوشش کی کہ کیا پاخانے کی فریکوئنسی اور کسی شخص کے گٹ مائیکرو بائیوم کے درمیان کوئی تعلق ہے۔

تحقیق میں معلوم ہوا کہ کثرت سے پاخانہ (یعنی وہ افراد جو دن میں دو سے تین مرتبہ پاخانہ کرتے ہیں) کرنے والوں کی آنتوں میں رہنے والے ’اچھے‘ بیکٹیریا کا تناسب ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے جو بیت الخلا میں کم جاتے تھے۔ تحقیق سے یہ بھی پتا چلا کہ جو لوگ ہفتے میں تین بار سے کم پاخانہ کرتے ہیں اُن کے خون میں زہریلے مادوں کی موجودگی کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔

گبنز کہتے ہیں کہ ’پاخانہ کرنے کے گولڈی لاکس زون (جس میں زیادہ پاخانہ کرنے والے افراد شامل ہیں) میں، ہم نے انیروبک جرثوموں میں اضافہ دیکھا جو ’شارٹ چین‘ فیٹی ایسڈ نامی کیمیکل تیار کرتے ہیں۔‘

اِن شارٹ چین فیٹی ایسڈز میں سے ایک، بوٹیریٹ، جسم میں سوزش کم کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ بات اس لیے اہم ہے کیونکہ اب جسم میں دائمی سوزش کو دل کی بیماری، ٹائپ ٹو ذیابیطس اور یہاں تک کے الزائمر جیسی بیماریوں کے پیچھے ایک محرک عنصر سمجھا جاتا ہے۔

اچھی سیکس لائف کیسی ہوتی ہے اور اس میں موجود خرابیاں کیسے دور کی جائیں؟وہ نئے شواہد جو ’کزن کے درمیان شادیوں‘ پر پابندی کے مطالبے کی وجہ بن رہے ہیںبرتن دھونے والے سپونج پر ’انسانی فضلے کے برابر جراثیم‘: اسے صاف کیسے رکھا جائے اور کتنے عرصے بعد بدلا جائے؟انڈہ اُبالنے کا سائنسی طریقہ: ایک انڈہ اُبالنے میں 32 منٹ تو لگیں گے مگر سائنسدانوں کے مطابق ’محنت وصول ہو جائے گی‘

گبنز کا کہنا ہے کہ ’بوٹیریٹ کی اعلیٰ سطح کا ہونا بھی آپ کو اپنے خون میں گلوکوز کی سطح کو بہتر طریقے سے کنٹرول کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ بوٹریٹ آنتوں کے خلیوں سے بھی منسلک ہو جاتا ہے اور انھیں ہارمونز پیدا کرنے کے لیے تحریک دیتا ہے جو آپ کو پیٹ بھرنے کا احساس دلاتے ہیں۔‘

گبنز کا خیال ہے کہ ’جن لوگوں کو قبض تھا اُن کے خون میں نقصان دہ زہریلے مادوں کی زیادہ مقدار ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ جب کسی شخص کی آنتوں کی حرکت کم یا شاذ ہی ہوتی ہے تو اُن کی آنتوں میں پاخانہ طویل عرصے تک چپک جاتا ہے۔‘

’اس کی وجہ سے آنت میں موجود بیکٹیریا تمام دستیاب فائبر کو کھا جاتے ہیں اور اسے صحت کو فروغ دینے والے ایس ایف ایز میں تبدیل کر دیتے ہیں۔تاہم مسئلہ یہ ہے کہ ایک بار جب تمام فائبر ختم ہو جاتا ہے تو بیکٹیریا اس کی بجائے پروٹین کو خمیر کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ عمل خون میں نقصان دہ زہریلے مادوں کو خارج کرنے کا باعث بنتا ہے۔ خون میں موجود یہ زہریلے مادے جسمانی اعضا بشمول گردوں اور دل کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔‘

Getty Images

گبنز کا کہنا ہے کہ اگرچہ صحت سے متعلقہ ادارے یہ کہتے ہیں کہ روزانہ تین بار پاخانہ کرنے سے لے کر ہفتے میں تین بار پاخانہ کرنا صحت مند ہے، لیکن اس کے برعکس اُن کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ کم پاخانہ کرنے والے گروپ میں خون میں زہریلے مواد میں اضافہ ہوتا ہے۔

’یہ یقینی طور پر کہنا مشکل ہے کیونکہ ہمارے پاس یہ جاننے کے لیے کارآمد اعداد و شمار نہیں ہیں کہ آیا ایسے لوگ مستقبل میں بیمار ہوئے یا نہیں۔‘

آپ کے آنتوں کی صحت کی پیمائش کا ایک پیمانہ وہ وقت ہے جو کھانے کو آپ کے نظام انہضام کے ذریعے سفر کرنے میں لگتا ہے، اور جسے ’گٹ ٹرانزٹ ٹائم‘ کہا جاتا ہے۔

آپ آسانی سے گھر پر سویٹ کارن کھا کر اس وقت کا اندازہ لگا سکتے ہیں یعنی آپ نے کب سویٹ کارن کھائے اور پاخانے کے ذریعے انھیں باہر آنے میں کتنا وقت لگا۔ عام طور پر اگر ایک شخص کے ’گٹ ٹرانزٹ ٹائم‘ لمبا ہوتا ہے وہ اتنا ہی کم پاخانہ کرتا ہے اور اس کے قبض کا شکار ہونے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔

سنہ 2020میں کنگز کالج لندن کے محققین نے 863 لوگوں کو اُن کے ’گٹ ٹرانزٹ ٹائم‘ جاننے کے لیے مفنز دیے۔ اس طبی تحقیق کا عنوان ’پریڈکٹ ون‘ تھا اور اس کے ذریعے یہ سمجھنے پر توجہ مرکوز کی گئی تھی کہ کس طرح جینیات، گٹ مائیکرو بایوم اور دیگر عوامل میں انفرادی تغیرات کس طرح خون میں شوگر اور چربی کی سطح کو متاثر کرتے ہیں۔

مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ گٹ ٹرانزٹ ٹائم ایک شخص سے دوسرے شخص میں بڑے پیمانے پر مختلف ہو سکتا ہے، یعنی 12 گھنٹے سے کم اور کئی دنوں تک بھی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مختصر ٹرانزٹ ٹائم والے لوگوں (یعنی جو زیادہ پاخانہ کرتے ہیں) کی آنتوں میں پائے جانے والے جرثومے اُن لوگوں سے نمایاں طور پر مختلف تھے جن کا ٹرانزٹ ٹائم طویل تھا۔

کنگز کالج لندن کی ایک مائیکرو بائیوم سائنسدان ایملی لیمنگ کہتی ہیں کہ ’ہم نے جو پایا وہ یہ تھا کہ جن لوگوں کا گٹ ٹرانزٹ ٹائم زیادہ ہوتا ہے ان کی آنتوں میں 'خراب' یا مضر صحت بیکٹیریا زیادہ ہوتے ہیں۔‘

اور یہ چیز ان لوگوں میں سب سے زیادہ واضح تھی جن کا گٹ ٹرانزٹ ٹائم 58 گھنٹے یا اس سے زیادہ تھا، یعنی وہ افراد جو ہفتے میں صرف تین بار یا اس سے بھی کم پاخانہ کرتے ہیں۔

گبنز کی طرح، ایملی لیمنگ کو شبہ ہے کہ جن لوگوں کا پاخانہ اُن کی آنتوں میں زیادہ وقت گزارتا ہے، وہاں ان آنتوں میں موجود جرثوموں کو تازہ کھانا نہیں مل پاتا اور نتیجتاً وہ فائبر، کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین کھانے لگتے ہیں، جو صحت کے لیے بُرا ہے۔

یہ دریافت اس بات سے مطابقت رکھتی ہے جو سائنسدانوں کو قبض کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہے اور اس کا تعلق دائمی بیماری سے ہے۔ اگر کسی کو دائمی قبض ہے تو اس کا آنتوں کے کینسر جیسی بیماری میں مبتلا ہونے کا خطرہ زیادہ ہو سکتا ہے۔تاہم اس کے حوالے سے دستیاب شواہد ملے جلے ہیں کیونکہ ایک اور تجزیے میں یہ سامنے آیا آنتوں کا کینسر قبض والے افراد میں زیادہ عام نہیں ہوتا۔

آپ کا پاخانہ آپ کے بارے میں کیا بتاتا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ آپ ایک ہفتے میں کتنی بار پاخانہ کرتے ہیں، جس کی فریکوئنسی ہر شخص میں مختلف ہو سکتی ہے، اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ آپ اپنے پاخانے کرنے کی عادات میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھیں۔

لیمنگ یہ مشورہ دیتی ہے کہ یہ جاننے کے لیے کہ آپ کے لیے نارمل کیا ہے، آپ کا اپنے پاخانہ کرنے کی عادات پر نظر رکھنا اچھا ہو سکتا ہے۔

لیمنگ کا کہنا ہے کہ ’ہم سب کو اپنے پاخانے کو دیکھنا چاہیے، کیونکہ یہ بنیادی طور پر آنتوں کی صحت کے مفت ٹیسٹ کی طرح ہے۔ اہم صرف یہ نہیں کہ آپ کتنی بار پاخانہ کرتے ہیں بلکہ آپ کے پاخانے کا رنگ اور شکل اور ساخت بھی اہم ہے۔ آپ واقعی میں جس چیز کی تلاش کر رہے ہیں وہ ٹائپ 3 سے ٹائپ 4 ہے (برسٹول سٹول فارم سکیل پر) جو بنیادی طور پر ایک ساسیج کی طرح کا ہے جس میں دراڑیں ہیں، یا وہ ہموار ہے۔‘

جہاں تک رنگ کا تعلق ہے اگر آپ اپنے پاخانے میں کالا یا سرخ رنگ دیکھتے ہیں تو یہ اس میں خون کی موجودگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگرچہ اس کی کوئی بےضرر وجہ ہو سکتی ہے مگر یہ بڑی آنت کے کینسر کی علامت بھی ہو سکتی ہے اور اس لیے جلد از جلد ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔

اور اگر آپ کو باقاعدگی سے اسہال ہوتا ہے یا بیت الخلا میں اچانک جانے کی ضرورت ہوتی ہے، یا اگر آپ کو کھانے کے بعد بہت زیادہ درد، اپھارے اور گیس کا سامنا ہوتا ہے تو آپ کو اپنے ڈاکٹر سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔

انڈہ اُبالنے کا سائنسی طریقہ: ایک انڈہ اُبالنے میں 32 منٹ تو لگیں گے مگر سائنسدانوں کے مطابق ’محنت وصول ہو جائے گی‘برتن دھونے والے سپونج پر ’انسانی فضلے کے برابر جراثیم‘: اسے صاف کیسے رکھا جائے اور کتنے عرصے بعد بدلا جائے؟کیا یخ پانی میں غوطے لگانے اور وٹامنز کی گولیاں کھانے سے قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے؟وہ نئے شواہد جو ’کزن کے درمیان شادیوں‘ پر پابندی کے مطالبے کی وجہ بن رہے ہیںنئے مدافعتی نظام کی دریافت، ’جس خزانے کو عرصے سے تلاش کرتے رہے وہ ’سونے کی کان‘ ہمارے جسم کے اندر ہی موجود تھی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More