پنجاب میں میٹرک کے امتحان میں رول نمبر سلپ پر کیو آر کوڈ لگانے کی ضرورت کیوں پڑی؟

بی بی سی اردو  |  Mar 11, 2025

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں میٹرک کے امتحانات کے دوران چیٹنگ کے واقعات کی روک تھام کے لیے امتحانی اصلاحات کی گئی ہیں جن میں آن لائن رول نمبر سلپس کا اجرا شامل ہے۔

سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق پیر کو پنجاب کے وزیر تعلیم رانا سکندر حیات کا کہنا تھا کہ صوبے میں بوٹی مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا گیا ہے۔

اے پی پی کے مطابق انھوں نے رائیونڈ روڈ پر امتحانی مراکز کا ’اچانک دورہ‘ کیا جہاں انھوں نے امتحانی عمل کا جائزہ لیا، تھری ڈی بار کوڈ سکین کر کے طلبہ کی شناخت کی تصدیق کی اور امیدواروں سے براہ راست فیڈ بیک بھی لیا۔

گذشتہ سال پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں میٹرک کے امتحانات میں چیٹنگ کے خلاف امتحانی مراکز پر چھاپے مارے گئے تھے جس کے بعد غفلت برتنے کے الزام میں لاہور بورڈ کے چیئرمین اور کنٹرولر کو معطل کر دیا گیا تھا۔

رول نمبر سلپس پر کیو آر کوڈ کیوں لگایا گیا؟

پنجاب میں رواں سال میٹرک کے سالانہ امتحان 4 مارچ سے شروع ہوئے جن میں ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ طلبہ کے لیے 920 امتحانی مراکز قائم کیے گئے۔

اِن امتحان کو شفاف بنانے کے لیے آن لائن رول نمبر سلپس متعارف کرائی گئیں جن میں طالب علم کے نام، رول نمبر اور دیگر معلومات کے ساتھ ساتھ ایک خصوصی کیو آر کوڈ بھی موجود ہے۔

’ایف‘ گریڈ اور نمبرز ختم۔۔۔ پاکستان میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے رزلٹ کا نیا نظام کیسے کام کرے گا؟6 ملین ڈالر، 12 لاشیں اور دہائیوں پر محیط تحقیقات: امریکی تاریخ کی وہ ڈکیتی جس میں ملوث ہر ملزم یا تو قتل ہوا یا لاپتاایم ڈی کیٹ نتائج روکنے کا حکم: خیبر پختونخوا میں ’جاسوسی کے آلات‘ سے نقل کا معاملہ کیا ہے؟سی ایس ایس 2024 کے نتائج کا اعلان کیے بغیر 2025 کے امتحانات کا شیڈول جاری: نتائج میں تاخیر کی وجوہات کیا ہیں؟

ایک بیان میں کنٹرولر امتحانات لاہور بورڈ نے کہا کہ اس کیو آر کوڈ سے رول نمبر سلپ آن لائن کھل سکے گی اور ’جعلی امیدواروں کا تعاقب ہو سکے گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اِن کیو آر کوڈز سے کوئی جعلی رول نمبر سلپ نہیں بن سکے گی۔

پنجاب کے وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے گذشتہ روز اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’اگر کسی بچے کی تاریخ پیدائش یا تصویر پر شک ہوتا ہے تو اس ٹیکنالوجی کی مدد سے فوراً بچے کی تمام معلومات آن لائن دستیاب ہو جاتی ہیں۔‘

وزیر تعلیم پنجاب کے مطابق چہرے کی شناخت کی اس ٹیکنالوجی پر عملدرآمد اور کڑی نگرانی کی مدد سے ’گذشتہ سال کے مقابلے چیٹنگ کیسز میں 90 فیصد کمی آئی۔‘

ان کے مطابق گذشتہ سال روزانہ 15 سے 20 چیٹنگ کیسز رپورٹ ہو رہے تھے مگر اس سال ان کی تعداد صرف دو یا تین ہوتی ہے۔

انھوں نے اگلے سال تک امتحانات میں 100 فیصد شفافیت حاصل کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

امتحانات کے دوران نقل کتنا بڑا مسئلہ؟

رواں سال میٹرک کے سالانہ امتحانات کے آغاز سے قبل وزیر تعلیم پنجاب نے کہا تھا کہ نقل اور دیگر بے ضابطگیوں کو روکنے کے لیے امتحانی مراکز میں کیمرے نصب کیے گئے ہیں اور اس بار نگرانی کے لیے کسی پرائیویٹ انچارج کو آنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

انھوں نے کہا کہ حکومت نے پرائیویٹ سینٹرز کی تعداد میں بھی کمی کی۔ انھوں نے کہا کہ مختلف شہروں میں امتحانی مراکز کی کڑی نگرانی کی جائے گی اور چھاپے مارے جائیں گے۔

اپریل 2024 میں پنجاب حکومت نے نویں جماعت کے امتحان کے دوران بچوں کو نقل میں مدد کرنے کے الزام میں 93 پرائیویٹ انویجلیٹرز کو معطل کیا تھا اور ان کے خلاف مقدمات درج کیے تھے۔

پنجاب حکومت کے مطابق اسے طلبہ کی طرف سے یہ شکایت موصول ہوئی تھی کہ ریاضی کے پرچے میں سات ہزار روپے کے عوض نقل کروائی جا رہی ہے۔

اسی سال حکومت نے میٹرک کے امتحانات کے دوران غفلت کے الزام میں لاہور بورڈ کے چیئرمین اور امتحانات کے کنٹرولر کو معطل کیا تھا۔

اس موقع پر وزیر تعلیم نے بتایا تھا کہ لاہور کے امتحانی مراکز میں نقل کروانے کے سرکاری اہلکاروں سمیت 30 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ بعض پرائیویٹ سکولوں نے مخصوص امتحانی مرکز حاصل کرنے کے لیے بورڈ کے عملے کو رشوت دی تھی۔ انھوں نے یہ بھی الزام عائد کیا تھا کہ امتحانی مرکز 80 ہزار روپے جبکہ حل شدہ پرچے چار سے سات ہزار روپے میں فروخت کیے جا رہے تھے۔

6 ملین ڈالر، 12 لاشیں اور دہائیوں پر محیط تحقیقات: امریکی تاریخ کی وہ ڈکیتی جس میں ملوث ہر ملزم یا تو قتل ہوا یا لاپتاایم ڈی کیٹ نتائج روکنے کا حکم: خیبر پختونخوا میں ’جاسوسی کے آلات‘ سے نقل کا معاملہ کیا ہے؟طالب علم کی جگہ خود امتحان دینے پر استاد گرفتار’ایف‘ گریڈ اور نمبرز ختم۔۔۔ پاکستان میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے رزلٹ کا نیا نظام کیسے کام کرے گا؟سی ایس ایس 2024 کے نتائج کا اعلان کیے بغیر 2025 کے امتحانات کا شیڈول جاری: نتائج میں تاخیر کی وجوہات کیا ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More