’ڈاکٹر ہارون اور نامردی کا علاج‘

بی بی سی اردو  |  Apr 17, 2025

Getty Images

60 سال سے زائد عرصے تک ہمارے دماغوں کا علاج کرتے کرتے اور ساتھ یہ سمجھاتے سمجھاتے کہ ذہنی یا پریشانیوں اور امراض کے بارے میں بات کرنے میں کوئی شرمندگی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر دانت میں درد ہوتا ہے تو ڈینٹیسٹ کے پاس جاتے ہو، دن میں دو مرتبہ برش کرتے ہو تو اگر دماغ میں کھلبلی ہو، گھر سے نکلتے ہاتھ پاؤں کانپتے ہوں، کسی انجان اداسی کے باعث بستر سے اٹھنے کو دل نہ کرتا ہو، برے حالات یا بری صحبت کی وجہ سے کسی نشے کی لت پڑی گئی ہو، یا کسی ایسی کیفیت سے گزر رہے ہو جس کے بارے میں گھر والوں سے، دوستوں سے بات نہیں کر سکتے تو ایک ایک محفوظ گوشہ موجود ہے۔

آؤ اور بات کرو، کوئی ضمانت نہیں کہ سو فیصد شفا ہوگی لیکن اگر چل کر کلینک تک آؤ گے تو کم از کم یہ تو ثابت ہو گا کہ ابھی ایک بہتر زندگی گزرانے کی آرزو باقی ہے۔

شفا کی تلاش ہی شفا کی طرف پہلا قدم ہے۔ وہ کراچی کے بزرگوں کی ان نسل میں سے تھے جو بزرگی کا قلعہ بنا نہیں بیٹھ جاتے تھے۔ اپنے کلینک اور ہسپتال کے دروازے تو کھلے ہی رکھتے تھے۔ ہر سیاسی، سماجی تقریب میں اپنی ہلکی سی مستقل مسکان اور ایک لامتناہی تجسس کے ساتھ موجود ہوتے تھے۔

کراچی بھی ہر شہر کی طرح طبقوں میں بٹا ہوا شہر ہے۔ لیکن ڈاکٹر ہارون اور ان کی انتہائی سرگرم اہلیہ انیس ہارون کا گھر ایسی جگہ تھی جہاں ایک شام کو آپ کو ٹریڈ یونین والے صحافی، وکیل، لکھاری، 25 سال کے ڈاکٹر اور 80 سال کے ریٹائرڈ بزرگ ایک ہی محفل ممیں مل جاتے تھے۔ اور ڈاکٹر ہارون مسکراتے جاتے تھے اور سب کی سنتے جاتے تھے۔

90 کی دہائی کے آغاز میں کراچی میں ہیروئن بہت سستی اور معیاری ملتی تھی۔ جو دوست بھی اس لت میں مبتلا ہوتا تو اس کی اپنی زندگی تو عذاب ہوتی تھی ساتھ گھر والوں اور دوستوں کے لیے بھی ایک مسلسل اذیت کا سامان رہتا تھا۔ کراچی میں ترک منشیات کے بہت سے پرائیویٹ ادارے کھل گئے تھے لیکن وہاں سے کسی کو نشہ ترک کر کے نکلتے نہیں دیکھا۔

آخری منزل ڈاکٹر ہارون ہی ہوتے تھے۔ ہر تین چار مہینے کے بعد کسی دوست کا کپکپاتا ہاتھ پکڑ کر ان کے پاس پہنچ جاتے تھے۔

’منیر نیازی پر پیکا لگائیں‘مسیحا کی مدتِ ملازمت: محمد حنیف کا کالمسونے کے ذخائر، قیمتی پتھر اور دھاتیں: پاکستان میں ’کھربوں ڈالرز‘ کی معدنیات کہاں پائی جاتی ہیں اور ان سے فائدہ حاصل کرنے میں کیا مشکلات ہیں؟’احتجاجی کیمپوں میں بیٹھ بیٹھ کر بڑی ہونے والی بچی ریاست کے لیے اتنا بڑا خطرہ کیسے بن گئی‘: محمد حنیف کا وی لاگ

وہ ان نشیئوں کو تحمل سے سنتے تھے، پیار سے دیکھتے تھے، مریض سمجھ کر علاج کرتے تھے، مظلوم سمجھتے تھے۔ ہم دوست مذاق کرتے تھے کہ جتنی عزت ڈاکٹر ہارون ان ہیرونچیوں کو دیتے ہیں ان کے اپنے گھر والے بھی نہیں دیتے۔

وہ علاج کے ساتھ زندگی بدلنے کے گر بھی بتاتے تھے۔ کہتے تھے نشہ چھوڑنے سے کچھ نہیں ہوگا صرف ایک خلا پیدا ہوگا جس کو کسی اور نشے سے پورا کرو گے۔ اس لیے کام کرو، وہ کام کرو جس میں دل لگے، صرف نوکری مت کرو، جس کام کو لوگ پاگل پن سمجھتے ہیں وہ بھی کر ڈالو، اور کچھ نہیں ہوتا تو دل لگا کر عشق ہی کرلو۔

میں نے ان سالوں میں کئی ہیرونچیوں کو ڈاکٹر ہارون کے ہاتھوں معزز شہری بنتے دیکھا ہے۔

جب چوتھے دوست کو ڈاکٹر صاحب کے پاس لے کر گئے تو وہ بے تکلف ہو چکے تھے۔ انھوں نے بٹھا کر نشوں کی دیسی تھیوری سمجھائی۔ ہماری جیب میں پڑے سگریٹ کے پیکٹ کی طرف اشارہ کیا کہ کبھی کوئی ایسا نشئی دیکھا ہے جو سگریٹ نہ پیتا ہو۔ سب کا رستہ ایک ہی ہے۔

Getty Imagesکراچی میں ترک منشیات کے بہت سے پرائیویٹ ادارے کھل گئے تھے لیکن وہاں سے کسی کو نشہ ترک کر کے نکلتے نہیں دیکھا۔

پہلے والدین سے چھپ کر ایک سوٹا لگاتے ہیں، پھر کوئی دوست تمباکو میں رنگ آمیزی کرنے لگتا ہے اور کوئی وقت آ جاتا ہے کہ آپ کسی تاریک گلی میں کسی ہیروئن فروش کی منت سماجت کرتے پائے جاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ان کے پاس اس برائی کو جڑ سے کاٹنے کا ایک منصوبہ ہے۔ حکومت تعاون کرے تو ایک سیدھا سا حل موجود ہے۔ مردوں کو سب سے زیادہ خوف کس چیز کا ہوتا ہے، نامردی کا۔

اور آج کل مردوں میں سب سے بڑا مرد کون ہے، عمران خان۔ عمران خان ورلڈ کپ جیتنے کے بعد شوکت خانم ہسپتال کے لیے چندہ اکھٹا کر رہے تھے، قوم ابھی ان سے محبت اور نفرت کرنے والوں میں نہیں بٹی تھی۔

ڈاکٹر ہارون کا منصوبہ یہ تھا کہ ایک اشتہار بنایا جائے جس میں عمران خان یہ کہے کہ میں سگریٹ نہیں پیتا۔ کیونکہ سگریٹ نوشی سے نامردی کی امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ہم نے پوچھا کیا یہ سچ ہے۔

انھوں نے کہا اس پر تحقیق ہو رہی ہے لیکن سائنس کو چھوڑو جب عمران خان یہ کہے گا تو تمھارے جیسے لونڈے بھی سگریٹ کو ہاتھ لگاتے ہوئے کچھ سوچیں گے۔ سگریٹ نوشی کم ہوگی تو میرے ویٹنگ روم میں بیٹھے ہوئے نشیوں کی لائن بھی چھوٹی ہو جائے گی۔

ڈاکٹر ہارون اپنے اس منصوبے کو عملی شکل نہیں دے سکے لیکن جب تک زندہ رہے ہمارے ذہنوں کی مسیحائی کرتے رہے۔ سندھ حکومت کو چاہیے کہ ان کے نام پر کسی سڑک یا پل کا نام رکھنے کے بجائے ان کے مسیحائی کے مشن کو آگے بڑھانے کے طریقے سوچے۔

’منیر نیازی پر پیکا لگائیں‘عمران خان: ’قیدی نمبر 804‘ جو اڈیالہ جیل سے بھی حکومت کو مشکل میں مبتلا رکھے ہوئے ہےمسیحا کی مدتِ ملازمت: محمد حنیف کا کالمبیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقوم میں ریکارڈ اضافہ: کیا یہ حکومتی معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے یا وجوہات کچھ اور ہیں؟سونے کے ذخائر، قیمتی پتھر اور دھاتیں: پاکستان میں ’کھربوں ڈالرز‘ کی معدنیات کہاں پائی جاتی ہیں اور ان سے فائدہ حاصل کرنے میں کیا مشکلات ہیں؟’احتجاجی کیمپوں میں بیٹھ بیٹھ کر بڑی ہونے والی بچی ریاست کے لیے اتنا بڑا خطرہ کیسے بن گئی‘: محمد حنیف کا وی لاگ
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More