Getty Images
سکنتھورپ سٹیل فیکٹری کی صورتحال نے ایک بار پھر سے برطانیہ کی معیشت میں چینی سرمایہ کاری کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے اور چند ناقدین سکیورٹی سے متعلق سوالات اٹھا رہے ہیں۔
یہ سٹیل پلانٹ چین کی کمپنی ’جنگیے سٹیل‘ کی ملکیت تھا تاہم اب برطانوی حکومت نے سکنتھورپ کے اس مقام کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
یہ اقدام ان دعووں کے بعد اٹھایا گیا کہ جن میں کہا جا رہا تھا کہ چینی مالکان یہاں موجود دونوں بلاسٹ فرنسز کو مستقل طور پر بند کر کے صرف چینی درآمد شدہ دھات کو رولنگ ملز میں پروسیس کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
بی بی سی ویریفائی یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ برطانیہ کی معیشت میں چینی سرمایہ کاری کتنے بڑے پیمانے پر کی جا رہی ہے اورآیا یہ واقعی تشویش کی بات ہے یا نہیں۔
برطانیہ میں چینی سرمایہ کاری کتنی ہے؟
برطانیہ کے دفتر برائے قومی شماریات کے مطابق سال 2023 میں چین کی طرف سے برطانیہ میں کل سرمایہ کاری کا تخمینہ تقریباً 4.3 ارب پاؤنڈ لگایا گیا ہے۔ یہ رقم برطانیہ میں اس سال ہونے والی کل غیر ملکی سرمایہ کاری (جو تقریباً دو کھرب پاؤنڈ تھی) کا بہت چھوٹا حصہ ہے۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار دراصل برطانیہ میں چینی سرمایہ کاری کے اصل حجم کو ظاہر نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سرکاری اعداد و شمار صرف اسی ملک کو ظاہر کرتے ہیں جس نے براہِ راست سرمایہ کاری کی ہو جبکہ اکثر اوقات پیسہ کسی اور ملک سے آتا ہے۔ اس کے علاوہ چین کی حکومت بیرونِ ملک سرمایہ کاری کے بارے میں شفاف معلومات فراہم نہیں کرتی جس سے اندازہ لگانا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔
ایک امریکی تھنک ٹینک امریکن انٹرپرائز انسٹیٹیوٹ نے کمپنیوں کی رپورٹس کی مدد سے اندازہ لگایا ہے کہ 2005 سے 2024 کے دوران چین نے برطانیہ میں سرکاری اور نجی سطح پر 105 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔
اس بنیاد پر امریکہ اور آسٹریلیا کے بعد برطانیہ چین کی سرمایہ کاری حاصل کرنے والا تیسرا بڑا ملک بنتا ہے۔
BBCچینی کمپنیوں نے برطانیہ میں کن شعبوں میں سرمایہ کاری کی ہے؟
چینی سرمایہ کاری برطانیہ میں مختلف شعبوں میں پھیلی ہوئی ہے جن میں توانائی، ٹرانسپورٹ، نجی کمپنیاں اور یہاں تک کہ فٹبال کلب بھی شامل ہیں۔
اس کی کچھ اہم مثالیں یہ ہیں:
چائنا انویسٹمنٹ کارپوریشن (جو چینی حکومت کی ملکیت ہے) نے لندن کے ہیئتھرو ایئرپورٹ میں 10 فیصد حصص خرید رکھے ہیں۔
لی کا شنگ نامی ہانگ کانگ کے صنعتکار کی کمپنی نے یو کے پاور نیٹ ورکس کی ملکیت حاصل کی ہوئی ہے جو لندن، جنوب مشرق اور مشرقی انگلینڈ میں بجلی کی ترسیل کا نظام چلاتی ہے۔
اسی ارب پتی کاروباری گروپ کے پاس نارتھمبریئن واٹر گروپ کا 75 فیصد حصہ بھی ہے جو شمال مشرقی انگلینڈ میں پانی کی فراہمی اور نکاسی کا نظام چلاتی ہے۔
چین نے برطانیہ میں نیوکلیئر بجلی کے منصوبوں میں بھی سرمایہ لگایا ہے۔
برطانیہ کے علاقے سمرسیٹ میں موجود ہنکلی پوائنٹ سی نیوکلیئر پاور سٹیشن میں بھی چین کی بڑی سرمایہ کاری ہے۔
شروع میں چائنا جنرل نیوکلیئر پاور گروپ کے پاس اس منصوبے میں 33.5 فیصد حصہ تھا جبکہ باقی سرمایہ فرانس کی کمپنی ای ڈی ایف نے لگایا تھا۔
تاہم ای ڈی ایف کا کہنا ہے کہ چینی کمپنی نے اس مشترکہ منصوبے میں مزید پیسہ لگانا بند کر دیا ہے جس کا بجٹ پہلے ہی مقررہ حد سے تجاوز کر چکا ہے۔ اسی وجہ سے گذشتہ سال کے آخر تک چینی حصے کی شرح کم ہو کر 27.4 فیصد رہ گئی ہے۔
اسی چینی کمپنی کا ایک اور نیوکلیئر منصوبہ بریڈویل بی کے نام سے ایسیکس میں تجویز کیا گیا ہے جس میں اس کے پاس 66.5 فیصد حصص ہیں، جبکہ باقی سرمایہ ای ڈی ایف نے لگایا ہے۔
اسی چینی کمپنی نے ایسیکس میں ایک اور نیوکلیئر پلانٹ بریڈویل بی بنانے کی بھی منصوبہ بندی کی ہے جس میں اس کے پاس 66.5 فیصد حصص ہیں جبکہ باقی سرمایہ ای ڈی ایف نے لگایا ہے۔
’قرض کا جال، عالمی معیشت کا مستقبل اور معدنیات‘: چین افریقہ میں اتنی بھاری سرمایہ کاری کیوں کر رہا ہے؟پیرو میں چینی سرمایہ کاری سے بنی بندرگاہ جس نےامریکی دفاعی ماہرین کی نیندیں اُڑا دیںچینی معیشت اور پانچ سوال: پاکستان سمیت دیگر ممالک میں چین کی سرمایہ کاری کا مستقبل کیا ہے؟چینی کارخانوں میں سستی مصنوعات کے بڑے ڈھیر، مگر چین کی کمپنیاں پریشان: ’امریکی بڑے چالاک ہیں‘
چینی کمپنیوں نے برطانیہ میں بیٹری کے شعبے میں بھی بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ ولٹ شائر کے علاقے میں واقع مینٹی بیٹری سٹورج سائٹ یورپ کے سب سے بڑے توانائی ذخیرہ کرنے والے منصوبوں میں سے ایک ہے۔
اسے چینی سرکاری کمپنی ہوانینگ نے بنایا، مالی معاونت فراہم کی اور اب وہی اسے چلا بھی رہی ہے۔
اوپن یونیورسٹی کے پروفیسر جائلز موہن کے مطابق: ’یورپ میں چینی کمپنیوں کی سب سے زیادہ سرمایہ کاری الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں کے شعبے میں ہو رہی ہے اور ان میں زیادہ تر کمپنیاں نجی ہیں، نہ کہ حکومت کی ملکیت۔‘
چینی کار کمپنی گیلی آٹو (جو ہانگژو میں قائم ہے) برطانیہ کی لندن ای وی کمپنی کی مالک ہے جو کوونٹری میں واقع ہے اور مشہور الیکٹرک بلیک ٹیکسیاں تیار کرتی ہے۔
برطانیہ اور یورپ میں ماحولیاتی اہداف حاصل کرنے کی کوششوں کے تحت ہوا سے توانائی پیدا کرنے والے منصوبے جیسے شعبوں میں بھی چینی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہا گیا ہے۔
چین کی ایک سرکاری کمپنی ایس ڈی آئی سی پاور کی ملکیت میں کام کرنے والی ریڈ راک رینیوایبلز سکاٹ لینڈ کے ایک سمندری ونڈ فارم (بیٹرس) میں 25 فیصد حصہ رکھتی ہے۔
چینی سرمایہ کاروں نے عوامی برانڈز میں بھی دلچسپی لی ہے۔ لی کا شنگ کی کمپنی سفوک میں قائم پب چین اور بریوری گرین کنگ کی مالک ہے۔
وولورہیمپٹن وانڈرز فٹبال کلب کی ملکیت شنگھائی کی کمپنی فوسن گروپ کے پاس ہے۔
اگرچہ جنگیے سٹیل کو سکنتھورپ سٹیل پلانٹ پر مکمل کنٹرول حاصل تھا مگر یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تمام چینی سرمایہ کار برطانوی کمپنیوں میں اکثریتی حصہ دار نہیں ہوتے یعنی وہ اکثر کمپنیوں کے روزمرہ فیصلوں پر مکمل اختیار نہیں رکھتے۔
کچھ اہم ادارے جیسے ائیرپورٹس اور پانی کی فراہمی کا نظام سخت ریگولیشنز کے تحت آتے ہیں جس کی وجہ سے ان چینی مالکان کی آزادی محدود ہو سکتی ہے۔
اس کے علاوہ چینی سرمایہ کاروں کے بارے میں یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ ان کے پاس برطانیہ میں بڑی تعداد میں زمین اور عمارتیں موجود ہیں۔
مثال کے طور پر لندن میں واقع مشہور لیڈن ہال بلڈنگ (جسے چیز گریٹر بھی کہا جاتا ہے) 2017 میں ایک چینی پراپرٹی کمپنی نے 1.15 ارب پاؤنڈ میں خریدی تھی۔
کیا چینی سرمایہ کاری برطانیہ کے لیے خطرہ بن سکتی ہے؟Getty Images
برطانیہ میں چینی سرمایہ کاری سے لاحق ممکنہ خطرات پر حالیہ برسوں میں بہت زیادہ بحث ہوئی ہے۔ ایک خاص تنازع اُس وقت پیدا ہوا جب چین کے شہر شینژین میں قائم ٹیکنالوجی کمپنی ہواوے کو برطانیہ کے فائیو جی کمیونیکیشن نیٹ ورک کی تعمیر میں شامل کیا گیا۔
ہواوے کو 1987 میں رن ژینگ فی نامی سابق چینی فوجی افسر نے قائم کیا تھا۔
برطانیہ کے نیشنل سائبر سکیورٹی سینٹر نے ابتدا میں 2019 میں یہ فیصلہ دیا کہ ہواوے سے لاحق خطرات کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔
تاہم جب امریکہ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں برطانیہ پر دباؤ ڈالا تو حکومت نے 2020 میں ہواوے کو اپنے ٹیلی کام نیٹ ورک سے الگ ہونے کا حکم دیا۔
برطانیہ کے کئی اراکینِ پارلیمنٹ نے بھی ہواوے کو برطانوی نیٹ ورک کا حصہ بنانے کی مخالفت کی تھی۔
گریس تھیوڈولو جو ’کونسل آن جیو سٹریٹیی‘ میں چین سے متعلق پالیسی کی ماہر ہیں، کہتی ہیں کہ برطانیہ کے اہمانفراسٹرکچر میں چینی سرمایہ کاری کے دو بڑے ممکنہ خطرات ہیں۔
پہلا خطرہ جاسوسی کا ہو سکتا ہے: مثلاً اگر کسی سرکاری عمارت یا آفس میں چینی کمپنی کا بنایا ہوا آڈیو یا ویڈیو سسٹم لگا دیا جائے، تو اس سے معلومات چوری ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔
دوسرا خطرہ یہ ہے کہ اگر وہ نظام کسی چینی کمپنی کے کنٹرول میں ہے تو وہ کمپنی مستقبل میں کسی سیاسی یا عالمی دباؤ کے تحت اُس نظام کو بند یا متاثر کر سکتی ہے۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی قوانین کے مطابق ہر چینی کمپنی کو حکومت اور کمیونسٹ پارٹی کے احکامات ماننے ہوتے ہیں اور انھیں ملک کی خفیہ ایجنسیوں سے بھی تعاون کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے مغربی ملکوں کے اہم سسٹمز میں چینی سرمایہ کاری ایک فطری خطرہ بن سکتی ہے۔
گریس کہتی ہیں کہ ایک ممکنہ صورتحال یہ ہو سکتی ہے کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا اور برطانیہ نے اس کے خلاف پابندیاں لگانے کی کوشش کی تو چین برطانیہ کے اس انفراسٹرکچر کو متاثر کر سکتا ہے جو اس کے کنٹرول میں ہیں تاکہ برطانیہ پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
تاہم کچھ دوسرے ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی سرمایہ کاروں کے لیے برطانوی انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانا ان کے اپنے مالی مفادات کے خلاف ہو گا کیونکہ اس سے ان کی سرمایہ کاری کی قیمت گر جائے گی اور برطانیہ کی حکومت وہ اثاثے (جائیداد یا کمپنیاں) اپنے قبضے میں لے سکتی ہے۔
پروفیسر جائلز موہن کہتے ہیں کہ ’یہ خطرہ صرف باتوں کی حد تک ہے، اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ یہ کمپنیاں منافع کمانے کے لیے بنی ہیں اس لیے ان کے لیے ایسا کرنا فائدے کا سودا نہیں ہوگا۔‘
اور ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں قسم کی سرمایہ کاری میں فرق کرنا ضروری ہے یعنی وہ چینی سرمایہ کاری جو اہم سسٹمز (مثلاً بجلی، پانی یا نیٹ ورک) میں ہو اور وہ جو صرف عام کاروبار یا برانڈز (جیسے کھانے پینے یا کپڑوں کی کمپنیوں) میں ہو کیونکہ دوسری قسم کی سرمایہ کاری سے عوام کو فوری خطرہ نہیں ہوتا۔
پیرو میں چینی سرمایہ کاری سے بنی بندرگاہ جس نےامریکی دفاعی ماہرین کی نیندیں اُڑا دیںچینی کارخانوں میں سستی مصنوعات کے بڑے ڈھیر، مگر چین کی کمپنیاں پریشان: ’امریکی بڑے چالاک ہیں‘چینی معیشت اور پانچ سوال: پاکستان سمیت دیگر ممالک میں چین کی سرمایہ کاری کا مستقبل کیا ہے؟’قرض کا جال، عالمی معیشت کا مستقبل اور معدنیات‘: چین افریقہ میں اتنی بھاری سرمایہ کاری کیوں کر رہا ہے؟