برطانیہ کی سپیشل فورسز کے چار سابق فوجیوں نے ماؤنٹ ایورسٹ کو پانچ دن سے بھی کم عرصے میں سر کر کے ایک ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔
چھ شرپاؤں کی مدد سے ٹیم نے بدھ کی صبح دنیا کی بلند ترین چوٹی کو سر کیا۔
انھوں نے زیادہ اونچائی پر کم آکسیجن سے ہم آہنگ ہونے میں مدد کے لیے زینون گیس کا استعمال کیا تھا۔
کوہ پیما عام طور پر ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے سے پہلے وہاں چھ سے آٹھ ہفتے گزارتے ہیں۔
منتظمین کا کہنا ہے کہ زینون گیس کے استعمال نے اتنی تیزی سے چڑھائی کو ممکن بنایا ہے۔
لیکن اس گیس کے استعمال کے حوالے سے سائنس کی دنیا میں تنازع ہے اور کوہ پیمائی کی صنعت میں بہت سے لوگوں نے اس پر تنقید کی ہے۔
اگرچہ یہ مہم ہمالیہ کے ماحول سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ایورسٹ پر ایک ریکارڈ مدت میں چڑھائی ہے لیکن یہ ایورسٹ سر کرنے کا اب تک کا تیز ترین وقت نہیں ہے۔
یہ ریکارڈ اب بھی لکپا گیلو شیرپا کے پاس ہے، جنھوں نے 2003 میں بیس کیمپ سے چوٹی تک 10 گھنٹے اور 56منٹ میں چڑھائی کی تھی لیکن انھوں نے یہ کام پہاڑ پر ماحول سے ہم آہنگ ہونے کے بعد کیا تھا۔
مہم کے آرگنائزر لوکاس فرٹن بیک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ 16 مئی کی سہ پہر نکلے اور 21مئی کی صبح چوٹی پر پہنچے، جس میں چار دن اور تقریباً 18 گھنٹے لگے۔‘
یہ چار سابق فوجی جن میں سابق وزیر ایلسٹر کارنز بھی شامل ہیں، چھ ہفتوں تک برطانیہ میں ایک خصوصی خیمے میں مقیم رہے تاکہ انھیں اونچائی پر آکسیجن کی کم سطح سے ہم آہنگ ہونے میں مدد مل سکے۔ جس کے بعد انھوں نے نیپال کا سفر کیا۔
فرٹن بیک نے بتایا کہ اس کے بعد انھوں نے کھٹمنڈو سے ایورسٹ بیس کیمپ کے لیے اڑان بھری اورجاتے ہی کوہ پیمائی شروع کر دیا۔
کوہ پیما عام طور پر چوٹی سر کرنے سے پہلے چند ہفتوں تک بیس کیمپ اور اونچے کیمپوں کے درمیان اوپر اور نیچے آتے جاتے ہیں۔
انھیں اونچی پہاڑی بلندیوں پر کم آکسیجن کی سطح کی عادت ڈالنے کے لیے ایسا کرنا پڑتا ہے۔ 8000میٹر سے اوپر، جسے ڈیتھ زون کہا جاتا ہے، دستیاب آکسیجن سطح سمندر پر موجود آکسیجن کا صرف ایک تہائی ہوتا ہے۔
لیکن ٹیم میں شامل چار برطانوی مردوں نے تیاری کے لیے ایسا کچھ نہیں کیا۔
Reuters
فرٹن بیک نے کہا کہ ’ٹیم نے نیپال آنے سے پہلے مصنوعی اونچائی پر تین ماہ کا پروگرام بنایا تھا۔‘
مصنوعی اونچائی کو ہائپوکسک خیموں کے نام سے جانا جاتا ہے جس سے جنریٹر کا استعمال کرتے ہوئے آکسیجن نکالی جاتی ہے، جس سے اسے اونچی پہاڑی یا اونچائی پر موجود سطح تک لایا جاتا ہے۔
فرٹن بیک نے بتایا کہ اس کے بعد کوہ پیماؤں نے مہم سے دو ہفتے قبل جرمنی کے ایک کلینک میں زینون گیس والی ہوا میں سانس لی۔
زینون ایک ایسی گیس ہے جو ابتدائی طور پر طبی طریقہ کار میں عام بے ہوشی کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ جسم کو اونچائی کی بیماری سے بچانے میں مدد کرتی ہے۔‘
کچھ محققین کا کہنا ہے کہ زینون گیس پروٹین کی پیداوار میں اضافہ کرتی ہے جسے ایریتھروپوئٹین کہا جاتا ہے جو ہائپوکسیا سے لڑتا ہے۔ یہ ایک ایسی حالت جو اس وقت ہوتی ہے جب جسم کو درکار کافی آکسیجن نہیں مل پاتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسا خون کے سرخ خلیوں کی تعداد میں اضافے سے ہوتا ہے جن میں ہیموگلوبن ہوتا ہے، جو جسم میں آکسیجن منتقل کرتے ہیں لیکن یہ ایک متنازع موضوع ہے اور بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے مزید مطالعہ کی ضرورت ہے۔
کوہ پیمائی کی صنعت میں کچھ لوگوں نے زینون گیس کے استعمال کے خلاف متنبہ کیا ہے۔
انٹرنیشنل کلائمبنگ اینڈ مونٹینیرنگ فیڈریشن نے جنوری میں ایک بیان میں کہا تھا کہ ’موجودہ لٹریچر کے مطابق اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ زینون میں سانس لینے سے پہاڑوں میں کارکردگی بہتر ہوتی ہے اور اس کانامناسب استعمال خطرناک ہوسکتا ہے۔‘
’اونچائی سے ہم آہنگ ہونا ایک پیچیدہ عمل ہے جو دماغ، پھیپھڑوں، دل، گردوں اور خون جیسے مختلف اعضاء اور نظاموں کو مختلف درجے تک متاثر کرتا ہے اور اسے اب تک مکمل طور پر سمجھا نہیں جاتا ہے۔‘
’جسمانی نقطہ نظر سے، ایک واحد دوا بہتر ہم آہنگی یا کارکردگی میں اضافے کی کلید نہیں ہوسکتی۔‘
ماؤنٹ ایورسٹ: کیا دنیا کے سب سے بلند پہاڑ کی اونچائی ایک دریا کی وجہ سے ہر سال بڑھتی جا رہی ہے؟’دکھی عورت بہت سخت جان ہوتی ہے‘ دس بار ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی شرپا جن کی ذاتی زندگی کرب سے بھری تھیماؤنٹ ایورسٹ: ’چوٹی قریب تھی مگر میری آکسیجن کی سپلائی بند ہو چکی تھی‘ہمالیہ کا ’ڈیتھ زون‘: کوہ پیما کی لاش جسے 12 سال بعد پہاڑ کی چوٹی سے واپس لایا گیا
ایڈرین بالنگر جو چین کی طرف شمال سے ایورسٹ کو سر کرنے والی ایک اور ٹیم کے سربراہ ہیں، وہ بھی کوہ پیماؤں کو پہاڑوں پر وقت کم گزارنے سے بچنے کے لیے ہائپوکسک خیموں کا استعمال کرنے جیسی پیشگی تربیت سے گزارتے ہیں۔ لیکن وہ زینون گیس کے استعمال کی مخالفت کرتے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ زینون کو کارکردگی میں اضافے میں مدد کے طور پر فروغ دے رہے ہیں لیکن آپ اس بات کا بھی جائزہ لینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ پہاڑوں میں اس کا کیا مطلب ہے تو یہ ایک مسئلہ ہے۔‘
لوگ خود کو ہم آہنگ کرنے اور تربیت دینے کے حقیقی کام کے بجائے شارٹ کٹ لے رہے ہیں۔
فرٹن بیک کہتے ہیں کہ اس کے کچھ فوائد ہیں۔
فرٹن بیک کا کہنا تھا کہ ’ایک مختصر مہم سے کاربن کے اثرات کم اور ماحولیاتی اثرات کم ہوتے ہیں۔‘
’اور یہ کوہ پیماؤں کے لیے محفوظ ہے کیونکہ وہ اچھی صحت کے ساتھ پہاڑ پر چڑھ سکتے ہیں اور جب وہ پہاڑکے ماحول سے ہم آہنگ ہو رہے ہوتے ہیں تو وہ کم وقت کے لیے اونچائیوں اور پہاڑوں کے خطرات کا سامنا کرتے ہیں۔‘
اب جبکہ برطانوی ٹیم نے ایورسٹ کی چوٹی کو سر کر لیا ہے، مہم جؤؤں کا خیال ہے اور کچھ کو تشویش ہے کہ یہ طریقہ دوسرے کوہ پیماؤں کو بھی ترغیب دے سکتا ہے۔
نیپال کی ایکسپیڈیشن آپریٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈمبر پارجولی نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا یقینی طور پر سیاحت کی صنعت پر براہ راست اور منفی اثر پڑے گا کیونکہ کوہ پیماؤں کے قیام کی مدت میں نمایاں کمی آئے گی۔
’اس کے علاوہ، پہاڑوں پر ماحول سے ہم آہنگ ہونا کوہ پیمائی کا بنیادی اصول ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے تو حکام کو انھیں سرٹیفکیٹ نہیں دینا چاہیے جس سے یہ تصدیق ہو کہ وہ پہاڑ پر چڑھے ہیں۔‘
نیپال کے محکمہ سیاحت کے حکام کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ برطانوی ٹیم ماؤنٹ ایورسٹ پر قیام کے بغیر چوٹی پر پہنچی تھی۔
نیپال کے محکمہ سیاحت کے ڈائریکٹر جنرل نارائن ریگمی نے بی بی سی کو بتایا کہ 'اب جب ہمیں اس بارے میں معلوم ہوا ہے تو ہم اس معاملے پر تبادلہ خیال کریں گے اور اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کا فیصلہ کریں گے۔'
ماؤنٹ ایورسٹ: کیا دنیا کے سب سے بلند پہاڑ کی اونچائی ایک دریا کی وجہ سے ہر سال بڑھتی جا رہی ہے؟’دکھی عورت بہت سخت جان ہوتی ہے‘ دس بار ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی شرپا جن کی ذاتی زندگی کرب سے بھری تھیماؤنٹ ایورسٹ: ’چوٹی قریب تھی مگر میری آکسیجن کی سپلائی بند ہو چکی تھی‘