حافظ الاسد: ’پُراسرار شخصیت‘ کے مالک شام کے سابق صدر جو آخری سانس تک اسرائیل سے لڑتے رہے

بی بی سی اردو  |  Jun 10, 2025

Getty Images

جب امریکی صدر رچرڈ نکسن نے 1974 میں دمشق میں شام کے صدر حافظ الاسد سے ملاقات کی تو نکسن نے اسد کو ’ایک پُراسرار شخصیت‘ پایا جس کے پاس 'بے پناہ توانائی اور بے پناہ دلکشی' تھی۔

یروشلم یونیورسٹی کے پروفیسر موشے ماوز نے اپنی کتاب 'اسد: دی سفنکس آف دمشق' میں لکھا ہے کہ 'نکسن شام کے صدر سے بہت متاثر تھے۔'

انھوں نے کہا کہ مجموعی طور پر وہ بہت مضبوط انسان ہیں، اس وقت 44 سال کی عمر میں اگر ان کی جان محفوظ رہتی ہے اور وہ خود کو اقتدار سے بے دخل ہونے سے بچا لیتے ہیں تو وہ دنیا کے اس حصے میں ایک عظیم لیڈر ثابت ہوں گے۔

تقریباً تین دہائیوں تک اقتدار میں رہنے کے بعد حافظ الاسد نے رچرڈ نکسن کی پیشن گوئی کو سچ ثابت کیا۔

حافظ اسد 14 گھنٹے کام کرتے تھے

اسد ہمیشہ ہجوم سے نفرت کرتے تھے۔ بہت کم مواقع ایسے تھے جب وہ اپنے عوام کے سامنے آتے۔ لیکن شام کے لوگوں کو ہمیشہ یاد دلایا جاتا تھا کہ حافظ الاسد ان کے لیڈر ہے۔

اسد ہمیشہ سے خفیہ زندگی گزارنے کے عادی تھے۔ انھوں نے 1958 میں انیسہ مخلوف سے شادی کی لیکن ان کی اہلیہ گھر سے باہر کم ہی نظر آتی تھیں۔

چارلس پیٹرسن اپنی کتاب 'شام کے حافظ الاسد' میں لکھتے ہیں کہ 'اسد ہمیشہ سے بہت محنتی تھے۔ وہ دن میں 14 گھنٹے کام کرتے تھے اور بہت کم سوتے تھے۔ انھیں کبھی چھٹیوں پر جاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ انھیں اپنے بچوں کے ساتھ کھانے کا بھی وقت نہیں ملتا تھا۔ بحران کے دنوں میں وہ اپنے بچوں سے کئی دنوں تک نہیں ملتے تھے۔‘

Getty Imagesصلاح جدید کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا

اسد نے اپنے فوجی کیرئیر کا آغاز 1951 میں کیا۔ وہ شام سے تعلق رکھنے والے ان پندرہ افراد میں شامل تھے جنھیں ایک فلائنگ سکول میں پائلٹ کی تربیت کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ مصر کے شہر قاہرہ میں اپنے چھ ماہ کے تربیتی کورس کے دوران وہ مصری صدر جمال عبدالناصر اور ان کی عرب قوم پرستی سے بہت متاثر ہوئے۔

سنہ 1964 میں اسد کو شامی فضائیہ کا کمانڈر بنا دیا گیا۔ 1966 میں بعث پارٹی ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئی اور اسد کو نئی حکومت میں وزیر دفاع بنایا گیا۔

وزیر دفاع کی حیثیت سے حافظ الاسد کا سب سے بڑا چیلنج 1967 میں اسرائیل کے ساتھ چھ روزہ جنگ تھا۔ اس جنگ میں اسرائیل نے نہ صرف گولان کی پہاڑیوں بلکہ قنیطرہ شہر پر بھی قبضہ کر لیا۔ 16 نومبر 1970 کو جب بعث پارٹی کا ہنگامی اجلاس جاری تھا، حافظ الاسد نے اپنے فوجیوں کو اس مقام کو گھیرے میں لینے کا حکم دیا۔

انھوں نے پارٹی کے رہنما صلاح جدید کی گرفتاری کا حکم دیا۔ چونکہ جدید کی حکومت شام میں اپنی مقبولیت کھو چکی تھی، شامیوں نے حافظ الاسد کے اقتدار میں آنے کا خیرمقدم کیا۔

1971 میں شام کے صدر بنےGetty Images

گذشتہ حکمرانوں کے برعکس حافظ الاسد نے شام کے دیہاتوں میں جا کر ان کے مسائل سننے شروع کر دیے۔

چارلس پیٹرسن لکھتے ہیں کہ 'ابتدائی طور پر اسد نے حکومت میں اعلیٰ عہدہ نہ لیتے ہوئے پردے کے پیچھے سے حکومت کرنے کو ترجیح دی۔ فوجی بغاوت کے بعد انھوں نے ایک نامعلوم سنی استاد کو حکومت کا سربراہ بنایا۔ انھوں نے خود وزیر اعظم کا کم اہم عہدہ سنبھالا، لیکن حکمرانی کے تمام اختیارات ان کے پاس رہے۔'

'تاہم، پردے کے پیچھے رہنا اسد کی فطرت نہیں تھی۔ وہ 22 فروری 1971 کو شام کے صدر بنے۔ انھوں نے 22 مارچ 1971 کو ریفرنڈم کرایا جس میں 99.2 فیصد لوگوں نے ان کے صدر بننے کی حمایت کی۔'

چارلس پیٹرسن کے مطابق 'اسی طرح 1978، 1985 اور 1992 میں ہونے والے ریفرنڈم میں شام کے عوام نے حافظ الاسد کے صدر بننے کی حمایت کی تھی۔ یہ ریفرنڈم حقیقی انتخابات نہیں تھے کیونکہ صدر کے عہدے کے لیے کوئی دوسرا امیدوار کھڑا نہیں کیا گیا تھا۔'

شام میں اسد خاندان کے 50 سالہ دور کا ’ایک ہفتے میں خاتمہ‘: آگے کیا ہوگا؟حکومت کے خاتمے سے قبل آخری لمحات میں بشار الاسد نے کیسے اپنے خاندان کواندھیرے میں رکھا؟شام کے ’اسد خاندان کے محافظ‘ اور ’درعا کے قصاب‘ کہلانے والے مہرالاسد کون ہیں؟کیا شام بشار الاسد کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد آزاد ہوگیا؟حریف محمد عمران کو راستے سے ہٹا دیا

اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے ملک کا نیا آئین بنایا جس کے مطابق اسد حکومت کے سربراہ کے ساتھ ساتھ فوج کے کمانڈر بھی بن گئے۔ اس کے تحت شام مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ مرکزی حکومت والا ملک بن گیا اور اسد کے اختیارات میں مزید اضافہ ہوا۔

حافظ الاسد کے حریف محمد عمران نے لبنانی شہر طرابلس سے اسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

جان ڈیولن اپنی کتاب ' سیریا ماڈرن سٹیٹ ان دی انشیئنٹ لینڈ (قدیم سرزمین پر جدید شامی ریاست)' میں لکھتے ہیں 'محمد عمران نے اسد کو خط لکھ کر اور اپنے منصوبے کے بارے میں بتا کر غلطی کی۔ شام واپسی سے ایک ہفتہ قبل دو بندوق برداروں نے ان کے گھر میں گھس کر انھیں قتل کر دیا۔ اگرچہ ان قاتلوں کا کبھی پتہ نہیں چلا، لیکن بہت سے لوگوں کو شبہ تھا کہ اس قتل کے پیچھے حافظ الاسد کا ہاتھ ہے۔'

ملک کے بجٹ کا 70 فیصد دفاع پر خرچ ہوتاGetty Images

حافظ الاسد نے اقتدار میں آنے کے بعد جو اقدامات کیے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ 1967 میں اسرائیل کے خلاف ہونے والی شکست کو کبھی نہیں بھول سکے۔وہ اس وقت شام کے وزیر دفاع تھے۔ 1970 میں اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے اس شکست کا بدلہ لینے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔

ماجد خدوری اپنی کتاب 'سیاست میں عرب شخصیات' میں لکھتے ہیں کہ '1971 میں حافظ الاسد نے شام کے بجٹ کا 70 فیصد فوجی دستوں کے لیے مختص کیا تھا۔ جو رقم سکولوں، سڑکوں اور ہسپتالوں پر خرچ کی جانی تھی وہ عسکری امور پر خرچ کی گئی تھی۔'

'سنہ 1972 میں وہ سوویت یونین کے ساتھ ایک فوجی معاہدے پ کرنے کے لیے ماسکو گئے اور انھوں نے مگ 21 لڑاکا طیارے اور سام طیارہ شکن میزائل خریدنے کے لیے 700 ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔'

سوویت یونین نے اسلحے کے ساتھ فوجی مشیر شام بھیجے۔ جلد ہی شام میں سوویت فوجی مشیروں کی تعداد سات سو سے بڑھ کر تین ہزار ہو گئی۔ لیکن جب شام نے سوویت یونین سے جدید ترین مگ 23 لراکا طیاروں کا مطالبہ کیا تو سوویت یونین نے ان کی درخواست قبول نہیں کی۔

مصر کے ساتھ مل کر اسرائیل پر حملے کی منصوبہ بندی

فروری 1973 میں جب مصر کے وزیر جنگ نے اسرائیل کے خلاف مصر شام جنگ کا منصوبہ پیش کیا تو حافظ الاسد نے فوراً اس پر رضامندی ظاہر کی۔

چارلس پیٹرسن لکھتے ہیں کہ 'دراصل مصر کے اس وقت کے صدر انور سادات مئی میں ہی اسرائیل پر حملہ کرنا چاہتے تھے لیکن حافظ الاسد اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس لیے حافظ الاسد کے مشورے پر سادات نے اکتوبر تک حملے کو ملتوی کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔'

'حافط الاسد مصر اور سوویت یونین کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے بھی ماسکو گئے تھے۔ اس سے قبل 1972 میں سادات نے سوویت فوجی مشیروں کو اپنے ملک سے نکال دیا تھا۔ لیکن اسرائیل کے خلاف جنگ میں انھیں ایک بار پھر سوویت یونین کی ضرورت تھی۔ اس کے لیے سادات نے اسد کی مدد لی۔'

چارلس پیٹرسن کے مطابق 'چونکہ اردن کی اسرائیل کے ساتھ طویل سرحد تھی، اس لیے حافط الاسد گولان کی پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ اردن کے راستے اسرائیل پر حملہ کرنا چاہتے تھے، لیکن اردن ایسا کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔ تاہم شام کی جنگی کوششوں میں مدد کے لیے اردن نے اپنے دو بریگیڈ گولان کی پہاڑیوں میں اسرائیل کے خلاف لڑنے کے لیے بھیجے تھے۔'

Getty Imagesپینتیس ہزار فوجیوں اور آٹھ سو ٹینکوں کے ساتھ اسرائیل پر حملہ

اسرائیل کو ابہام میں رکھنے کے لیے حافظ الاسد نے مشرق وسطیٰ کے بحران کے پرامن تصفیے کی کوششوں کے حصے کے طور پر دمشق میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کرٹ والڈھیم کی میزبانی کی۔ جبکہ چھ اکتوبر 1973 کی صبح مصر نے اسرائیل پر اچانک حملہ کر دیا۔ حافظ الاسد ایک زیر زمین وار روم میں چلے گئے۔

موشے ماوز لکھتے ہیں کہ 'حافظ الاسد اس حملے میں اس قدر مگن تھے کہ وہ بھول گئے کہ چھ اکتوبر ان کے لیے دیگر وجوہات کی بنا پر بھی اہم ہے۔ بعد میں جب کسی نے انھیں یاد دلایا کہ یہ ان کی 43 ویں سالگرہ ہے، تو انھوں نے کہا، آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ مجھے یہ یاد نہیں تھا۔'

پہلے سے طے شدہ وقت پر مصر اور شام نے اسرائیل پر دو طرفہ حملہ کیا۔ شام نے 35000 فوجیوں اور 800 ٹینکوں کے ساتھ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل پر حملہ کیا۔ ابتدائی طور پر حافط الاسد کا خیال تھا کہ وہ 1967 میں کھوئی ہوئی سرزمین دوبارہ حاصل کرنے کے بہت قریب ہیں۔ جب مصر نے بھی 4000 توپوں اور 250 طیاروں کے ساتھ اسرائیل پر اچانک حملہ کیا تو ابتدائی جنگ میں 300 اسرائیلی ٹینک تباہ ہو گئے۔

Getty Imagesمصر کے رویے سے مایوسی ہوئی

ان ابتدائی حملوں کی کامیابی نے راتوں رات سادات اور اسد کو عرب دنیا کے ہیرو بنا دیا۔ لیکن عربوں کی ابتدائی فتح چند دنوں تک ہی رہی۔

پیٹرک سیل اپنی کتاب 'اسد: مشرق وسطیٰ کے لیے جدوجہد' میں لکھتے ہیں کہ 'اسد کو اس بات کا صدمہ ہوا کہ مصر نے نہر سویز کو عبور کرنے کے بعد اپنے حملوں کی شدت کو کم کر دیا۔ مصر کو صحرا میں پیش قدمی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی فوجیں اسرائیل کی فضائیہ کے سامنے آئیں۔'

'جبکہ حافظ الاسد چاہتے تھے کہ مصر سات اور 14 اکتوبر کے درمیان اسرائیل کے خلاف اپنے حملوں کو تیز کرے، مصر نے ایسا نہیں کیا۔ مصر کے ساتھ اسد کی مایوسی تلخی میں بدل گئی، اور شام کو اسرائیل کے جوابی حملے برداشت کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔'

اسرائیل نے شام پر اپنے راکٹوں، میزائلوں، ٹینکوں اور طیاروں سے اتنا شدید حملہ کیا کہ اسے پیچھے ہٹنا پڑا۔ بعد ازاں حافظ الاسد نے مصر کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے یہ جنگ کی سب سے بڑی مایوسی تھی۔

اسد ایک سخت مذاکرات کار ہیں

مصر نے 14 اکتوبر کو اسرائیل کے خلاف اپنی کوششیں تیز کر دیں، لیکن اس وقت تک اسرائیل نے نہ صرف گولان کی پہاڑیوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا جو وہ ابتدائی طور پر کھو چکا تھا بلکہ اس کی فوج شام کے دارالحکومت دمشق کے بہت قریب آچکی تھی۔

اس طرح گولان کی پہاڑیوں کو آزاد کرانے اور مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو بدلنے کا حافظ الاسد کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ امریکہ اور سوویت یونین کی ثالثی میں جنگ بندی کی تجویز سامنے آئی تو اسرائیل اور مصر نے فوراً اسے قبول کر لیا لیکن حافظ الاسد اسے ماننے کو تیار نہیں تھے۔

جب اسرائیل کا توپ خانہ دمشق سے صرف 20 میل دور رہ گیا تو اسد کو بھی جنگ بندی قبول کرنا پڑی۔ جنگ کے بعد ہنری کسنجر نے اسرائیل، مصر اور شام کے درمیان معاہدے کے لیے چیف مذاکرات کار کا کردار ادا کیا۔

ہنری کسنجر نے اپنی کتاب 'یئرز آف رنیول' میں لکھا کہ 'حافظ الاسد نے سخت موقف اپنایا اور مطالبہ کیا کہ اسرائیل 1973 میں قبضے میں لیا گیا تمام علاقہ اور 1967 میں قبضے میں لیے گئے علاقے کا ایک بڑا حصہ واپس کر دے۔'

انھوں نے مزید لکھا کہ 'چونکہ انور سادات نے حافظ الاسد کے ساتھ مشاورت نہیں کی تھی، اس لیے حافظ الاسد کو میرے (ہنری کسنجر کے) ذریعے اسرائیل کے ساتھ علیحدہ معاہدے پر بات چیت کرنی پڑی۔ میری نظر میں اسد ایک بہت ہی قابل فخر، سخت اور چالاک مذاکرات کار تھا۔'

ہنری کسنجر لکھتے ہیں کہ 'اگرچہ حافظ الاسد کو وہ سب کچھ نہیں ملا جس کا انھوں نے مذاکرات میں مطالبہ کیا تھا لیکن وہ 1973 میں اسرائیل کے قبضے سے تقریباً تمام علاقہ واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ حافظ الاسد اسرائیل سے قنیطرہ شہر کو بھی واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے، جسے شام نے 1967 کی جنگ میں کھو دیا تھا۔ جس کے بعد انھوں نے ذاتی طور پر قنیطرہ جا کر اور وہاں شام کا جھنڈا لہرا کر جشن منایا۔'

Getty Imagesایران عراق جنگ میں ایران کی حمایت

اسد نے لبنان کی خانہ جنگی میں حکومت اور اپوزیشن دونوں جماعتوں کی حمایت کی۔ یہ بھی کہا گیا کہ لبنانی رہنما کمال جمبلاٹ کے قتل میں حافظ الاسد کے ایجنٹ ملوث ہیں۔

انھوں نے فلسطینی رہنما یاسر عرفات کو خبردار کیا کہ وہ لبنان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ انھوں نے یاسر عرفات سے کہا کہ وہ کمال جمبلاٹ اور شام میں سے کسی ایک کا ساتھ دیں۔ جب عرفات نے کمال جمبلاٹ کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا تو حافظ الاسد نے اپنی فوج کو فلسطین لبریشن ارگنائزیشن (پی ایل او) کے خلاف تعینات کیا۔

سنہ 1980 میں جب ایران اور عراق کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو انھوں نے ایران کا ساتھ دیا اور پوری عرب دنیا ان کے خلاف ہو گئی تھیں۔

نکولس وین ڈیم اپنی کتاب 'دی سٹرگل فار پاور ان سیریا' میں لکھتے ہیں کہ 'شام کی جانب سے غیر عرب ایران کی حمایت نے سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو ان کے خلاف کر دیا۔ شام نے ایک بار پھر اپنی آزاد خارجہ پالیسی کا مظاہرہ کیا، حالانکہ اس کی وجہ سے وہ عرب دنیا میں بہت غیر مقبول ہو گیا تھا۔'

انسانی حقوق کے میدان میں خراب ریکارڈ

حافظ الاسد نے کبھی بھی اسرائیل کو جنگ میں شکست نہیں دی، لیکن اس نے اپنی فوج کو جدید بنایا، لیکن اسے کئی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی حکومت پر اکثر فضول خرچی، نا اہلی اور بدعنوانی کے الزامات لگے۔

انسانی حقوق کے حوالے سے حافظ الاسد کا ریکارڈ بھی خراب تھا۔ ان کے دور حکومت میں عوام حکومت کے خلاف اپنے خیالات کے اظہار کے لیے آزاد نہیں تھے۔

سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے ایک بار حافظ الاسد کو 'مشرق وسطیٰ کا سب سے دلچسپ آدمی' کہا تھا۔ سیاسی قتل و غارت، مذہبی جنونیت اور علاقائی تشدد کی دنیا میں 29 سال تک اقتدار میں رہنا کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں تھا۔

Getty Imagesحافظ الاسد کی موت کیسے ہوئی

حافط الاسد کی صحت 90 کی دہائی میں خراب ہونے لگی۔ امریکی سفارت کاروں نے نوٹ کیا کہ انھیں کسی بھی چیز پر توجہ مرکوز کرنے میں دشواری ہونے لگی تھی۔

دس جون 2000 کو لبنان کے وزیر اعظم سلیم الحس سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے انھیں دل کا دورہ پڑا اوران کی موت ہو گئی تھی۔

اس وقت ان کی عمر 69 سال تھی۔ تین دن بعد انھیں ان کے آبائی شہر کردھا میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

11 دسمبر 2024 کو جب ان کے بیٹے بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو باغیوں نے حافظ الاسد کے مزار کو آگ لگا دی تھی۔ جبکہ اس کے چند روز بعد نامعلوم افراد نے ان کی لاش کو ان کے مزار سے نکال کر نامعلوم مقام پر دفنا دیا۔

شام میں اسد خاندان کے 50 سالہ دور کا ’ایک ہفتے میں خاتمہ‘: آگے کیا ہوگا؟بشار الاسد: لندن میں امراض چشم کے ڈاکٹر سے شام کے آمر تکشام کے ’اسد خاندان کے محافظ‘ اور ’درعا کے قصاب‘ کہلانے والے مہرالاسد کون ہیں؟کیا شام بشار الاسد کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد آزاد ہوگیا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More