انسداد دہشت گردی عدالت نے شاہد حامد قتل کیس میں منہاج قاضی اور محبوب غفران کو عدم شواہد پر بری کر دیا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر شاہد حامد کے قتل کیس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا ہے۔
عدالت نے عدم شواہد کی بنیاد پر محمد منہاج قاضی اور محبوب غفران کو بری کر دیا ہے۔ عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں قرار دیا ہے کہ پراسیکیوشن ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی اور قانونی اصول کے تحت ملزموں کو شک کا فائدہ دیا جاتا ہے۔
پراسیکیوشن کے مطابق 1997 میں ڈیفنس کے علاقے میں شاہد حامد کو ان کے ڈرائیور اشرف بروہی اور گن مین خالد خان سمیت قتل کردیا گیا تھا۔
مقدمے میں ابتدائی طور پر ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے صولت مرزا کو گرفتار کیا گیا جسے 1999 میں انسداد دہشت گردی عدالت نے سزائے موت سنائی اور 2015 میں اسے پھانسی دے دی گئی۔
ملزمان منہاج قاضی اور محبوب غفران کو 2016 میں گرفتار کیا گیا اور ان پر جولائی 2016 میں فرد جرم عائد کی گئی۔
عدالت کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پراسیکیوشن کی جانب سے پیش کردہ شواہد، گواہان اور بیانات میں ملزمان کے خلاف واضح اور قابلِ اعتبار ثبوت پیش نہیں کیے جا سکے۔
مقدمے میں بانی ایم کیو ایم، ندیم نصرت، سہیل زیدی اور راشد اختر سمیت دیگر ملزمان کو مفرور قرار دیا گیا ہے جن کے خلاف مقدمہ داخل دفتر کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
عدالت نے جیل حکام کو ہدایت جاری کی ہے کہ اگر محمد منہاج قاضی اور محبوب غفران کسی اور مقدمے میں نامزد نہیں ہیں تو انہیں فوری طور پر رہا کر دیا جائے۔
شاہد حامد کے قتل کا مقدمہ ڈیفنس تھانے میں 1997 میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کیا گیا تھا۔