سابق روسی صدر کے ’اشتعال انگیز بیانات‘ پر ٹرمپ کا ردعمل: جوہری آبدوزوں کو ’مناسب خطوں‘ میں پوزیشن سنبھالنے‘ کا حکم

بی بی سی اردو  |  Aug 02, 2025

Getty Imagesصحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا ’ایک دھمکی دی گئی تھی اور یہ مناسب نہیں اس لیے مجھے بہت محتاط رہنا ہو گا‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انھوں نے سابق روسی صدر دمتری میدوی ایدف کے ’اشتعال انگیز‘ بیانات کے جواب میں دو امریکی جوہری آبدوزوں کو ’مناسب خطوں میں پوزیشن سنبھالنے‘ کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔

ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ اقدام اس لیے اٹھایا ہے کیونکہ ’یہ احمقانہ بیانات صرف الفاظ سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ الفاظ بہت اہم ہوتے ہیں اور کبھی کبھی ان کے غیر ارادی نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ موقع نہیں آئے گا۔‘

صدر ٹرمپ نے یہ وضاحت نہیں دی کہ جوہری آبدوزوں کو کن مقامات پر تعینات کیا گیا ہے۔

یوکرین میں جنگ بندی کے حوالے سے ٹرمپ کے بیانات اور روس پر نئی پابندیوں کے اعلانات کے ردعمل میں سابق روسی صدر دمتری میدویدیف حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر کئی مرتبہ تبصرے کر چکے ہیں۔

ٹرتھ سوشل پلیٹ فارم پر امریکی صدر نے لکھا کہ: ’سابق روسی صدر اور کونسل آف رشیئن فیڈریشن کے موجودہ ڈپٹی چیئرمین دمتری میدویدیف کے انتہائی اشتعال انگیز بیانات کی روشنی میں، میں نے دو جوہری آبدوزوں کو مناسب خطوں میں پوزیشن سنبھالنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔‘

پیر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں سابق روسی صدر نے لکھا تھا کہ ’ہر نیا امریکی الٹی میٹم ایک خطرہ ہے اور جنگ کی طرف ایک قدم ہے۔‘

میدویدیف نے حال ہی میں ٹرمپ کے ماسکو کو یوکرین کے ساتھ جنگ بندی پر راضی ہونے کے الٹی میٹم کے جواب میں امریکہ کو دھمکی دی ہے۔ امریکہ نے کہا تھا کہ روس اگر جنگ بندی پر راضی نہیں ہوتا ہے تو اسے سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دنیا میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار روس اور امریکہ کے پاس ہیں اور دونوں ممالک کے پاس ایٹمی آبدوزوں کا بیڑا بھی ہے۔

امریکی صدر نے یہ نہیں بتایا کہ وہ ٹرتھ سوشل پر اپنی پوسٹ میں جوہری طاقت سے چلنے والی یا جوہری ہتھیاروں سے لیس آبدوزوں کا ذکر کر رہے ہیں۔

Getty Imagesامریکہ اور روس کے پاس جوہری توانائی سے لیس آبدوزوں کے بیڑے ہیں’مجھے بہت محتاط رہنا ہو گا‘ ڈونلڈ ٹرمپ

بعد ازاں جمعہ کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا: ’ایک دھمکی دی گئی تھی اور میرے خیال سے یہ مناسب نہیں ہے اس لیے مجھے بہت محتاط رہنا ہو گا۔‘

’میں یہ اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے کر رہا ہوں۔ روس کے ایک سابق صدر نے دھمکی دی تھی اور ہم اپنے لوگوں کی حفاظت کرنے جا رہے ہیں۔‘

کریملن نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، لیکن ٹرمپ کے بیانات کے بعد ماسکو کی سٹاک مارکیٹ میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔

روس سے سستے تیل کی درآمد اور ٹرمپ کی دھمکی: کیا انڈیا امریکی دباؤ میں اپنے پرانے اتحادی سے تجارت روک سکتا ہے؟ٹرمپ کا پوتن کی جانب بڑھتا جھکاؤ روس اور چین کے درمیان دراڑ ڈالنے کا سوچا سمجھا منصوبہ یا کچھ اورپوتن کی تعریفوں کے بعد ’ٹرمپ کا یوٹرن، لہجے کی تبدیلی اور روس کو پہلی سنجیدہ دھمکی‘: ’مجھے بہت زیادہ غصہ آیا‘ماسکو حملہ: کیا روس نے امریکی انتباہ کو نظر انداز کیا؟

ٹرمپ اور میدویدیف حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف ذاتی حملوں میں ملوث رہے ہیں۔

حالیہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کو 8 اگست تک جنگ کے خاتمے کے لیے ایک نئی ڈیڈ لائن دی ہے، جس پر عمل درآمد کے صدر پوتن نے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔

اس سے پہلے پیر کو ٹرمپ نے ’10 یا 12‘ دن کی آخری تاریخ مقرر کی تھی۔ جولائی کے شروع میں انھوں نے روس کو دھمکی دی تھی کہ اگر پوتن نے 50 دنوں میں جنگ ختم نہ کی تو اس کے تیل اور دیگر برآمدات پر سخت محصولات عائد کیے جائیں گے۔

میدویدیف سنہ 2008 سے 2012 تک روس کے صدر رہے تھے۔ انھوں نے رواں ہفتے کے شروع میں ٹرمپ پر ’روس کے ساتھ الٹی میٹم گیم‘ کھیلنے کا الزام لگایا۔

Reutersمیدویدیف سنہ 2008 سے 2012 تک روس کے صدر رہے تھےہر نیا الٹی میٹم ایک خطرہ ہے

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں میدویدیف نے کہا کہ ’ہر نیا الٹی میٹم ایک خطرہ ہے اور جنگ کی طرف ایک قدم ہے۔‘

انھوں نے جولائی کے شروع میں ٹرمپ کے الٹی میٹم کو ’تھیٹریکل‘ یعنی ’ڈرامہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’روس کو ان کی پرواہ نہیں ہے۔‘

جمعرات کو ٹیلی گرام پر لکھتے ہوئے میدویدیف نے ’مردہ ہاتھ‘ کے خطرے سے آگاہ کیا، جسے کچھ فوجی تجزیہ کاروں نے روس کی جانب سے انتقامی ایٹمی حملوں کے کنٹرول سسٹم کے کوڈ نام کا حوالہ قرار دیا ہے۔

جمعرات کو ٹیلیگرام پر میدویدیف نے ’ڈیڈ ہینڈ‘ (مردہ ہاتھ) کے خطرے سے خبردار کیا، جسے بعض عسکری ماہرین روس کے خودکار جوابی جوہری حملوں کے نظام کا کوڈ نام قرار دیتے ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ٹرمپ نے میدویدیف کے تبصروں کا جواب دیا ہو۔ اس سے قبل جمعرات کو انھوں نے میدویدیف کو ’روس کے ناکام سابق صدر کے طور پر بیان کیا جو سمجھتے ہیں کہ وہ اب بھی صدر ہیں۔‘

ٹرمپ نے میدویدیف کو ’اپنی زبان پر قابو رکھنے‘ کے لیے بھی متنبہ کیا اور مزید کہا کہ ’وہ بہت خطرناک حدود میں داخل ہو رہے ہیں!‘

میدویدیف سنہ 2022 میں یوکرین پر شروع کیے جانے والے روسی حملے کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور وہ مغرب کے کھلے عام نقاد ہیں۔

ماسکو حملہ: کیا روس نے امریکی انتباہ کو نظر انداز کیا؟روس سے سستے تیل کی درآمد اور ٹرمپ کی دھمکی: کیا انڈیا امریکی دباؤ میں اپنے پرانے اتحادی سے تجارت روک سکتا ہے؟روس کا جوہری ڈاکٹرائن کیا ہے اور اس میں نئی تبدیلیوں کا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے کیا مطلب ہے؟پوتن کی تعریفوں کے بعد ’ٹرمپ کا یوٹرن، لہجے کی تبدیلی اور روس کو پہلی سنجیدہ دھمکی‘: ’مجھے بہت زیادہ غصہ آیا‘’تعاون کرو ورنہ‘: ٹرمپ کا پہلا بین الاقوامی تنازع، دھمکی کا ہتھیار اور عالمی رہنماؤں کے لیے پیغامٹرمپ کا پوتن کی جانب بڑھتا جھکاؤ روس اور چین کے درمیان دراڑ ڈالنے کا سوچا سمجھا منصوبہ یا کچھ اور
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More