BBC
امریکہ کے لیے یہ ایک ظالم ہفتہ رہا، یہ سوچنے والی میں اکیلی نہیں ہوں کہ کیا ملک کو نفرت اور تشدد سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔
امریکی ریاست یوٹا میں ملکی تاریخ کے اندوہناک قتل کے بعد ریاست کے گورنر نے امریکیوں سے سیاسی گرما گرمی کم کرنے کی درخواست کی۔
لیکن چارلی کرک کی موت کے بعد بمشکل ہی کسی نے یہ سوچا ہو کہ کیا یہی وہ راستہ ہے، جسے منتخب کیا جائے گا۔
امریکہ کی حالیہ تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب کسی سانحے کے بعد بھی امریکیوں نے متحد نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔
14 برس قبل ریاست ایریزونا میں جب ایک ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی خاتون رکنِ کانگریس کے سر میں گولی ماری گئی اور آٹھ سال قبل جب رپبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رکن کو بیس بال کی پریکٹس کے دوران قتل کر دیا، یہاں تک کہ کووڈ کی عالمی وبا نے بھی امریکیوں کو متحد کرنے کے بجائے اُن میں موجود تقسیم کو مزید بڑھا دیا۔
OLIVIER TOURON/AFP via Getty Images
اس تقسیم کی وجہ سادہ سی ہے لیکن اسے تبدیل کرنا بہت مشکل ہے۔ امریکی سیاست ایسے افراد اور پلیٹ فارمز کو انعامات سے نوازتی ہے جو تناؤ اور کشیدگی کم کرنے کے بجائے اُسے ہوا دیتے ہیں۔
امریکہ بھر میں کسی بھی سیاسی اُمیدوار کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی مہم میں وہی بات کرے جو سیاسی حامی سننا چاہتے ہیں نہ کہ وہ سیاست میں درمیانے راستے کا انتخاب کرے۔
یہ امریکی سیاسی نظام کی وہ ضمنی پیداوار ہے جو ملک کے سیاسی نظام کو مزید تقسیم اور غیر فعال کر رہی ہے۔
میڈیا میں جو افراد سیاست پر اپنی رائے دیتے ہیں، انھیں بھی غصہ دلواتے اور بھڑکاتے ہوئے زیادہ دیکھا جاتا ہے اوراشتہارات سے کمائی ہوتی ہے۔
یہ منافع پر مبنی وہ ڈھانچہ ہے جس کی بنیاد پر یوٹا کے گورنر نے غیر معمولی اپیل کی۔
چارلی کرک کے قتل نے امریکیوں پر زور دیا کہ وہ ’اپنے خاندان کے کسی فرد کو گلے لگائیں، باہر جائیں اور کمیونٹی میں اچھا کام کریں۔‘
واضح تقسیم کے سمندر میں مصالحت کی یہ کوشش بہت ہی خوش آئند ہے۔
REUTERS/Cheney Orrامریکی ریاست یوٹا میں ملکی تاریخ کے اندوہناک قتل کے بعد ریاست کے گورنر نے امریکیوں سے سیاسی گرما گرمی کم کرنے کی درخواست کییہ دور ساٹھ اور ستر کی دہائی سے کیسے مختلف ہے؟
سیاسی تشدد اور تقسیم امریکی معاشرے کے لیے نئی نہیں۔ 160 سال قبل امریکہ نے اپنے ہی خلاف جو جنگ شروع کی تھی وہ پھر کبھی رکی ہی نہیں۔
1960 کی دہائی میں پانچ سال کے دوران امریکی صدر کا قتل ہوتا ہے پھر صدر کے بھائی اپنی صدراتی مہم کے دوران مارے جاتے ہیں۔
اسی عرصے کے دوران شہری آزادی کے لیے آواز اُٹھائے جانے والے دو سرکردہ رہنماؤں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔
1970 کی دہائی میں امریکی صدر پر دو مختلف مقامات پر فائرنگ ہوتی ہے اور 1980 میں رونلڈ ریگن پر فائرنگ ہوتی ہے۔
Heritage Space/Heritage Images via Getty Images22 نومبر 1963 کو امریکی صدر جان ایف کینیڈی اپنی اہلیہ جیکی کینیڈی اور ٹیکساس ریاست کے گورنر جان کونالی جونیئر اور ان کی اہلیہ کے ساتھ ایک کنورٹیبل گاڑی میں ڈیلس کے ڈیلی پلازہ کے سامنے سے گزر رہے تھے جب اچانک گولیاں چلیں
گذشتہ سال ڈونلڈ ٹرمپ پر دو قاتلانہ حملے ہوتے ہیں جن میں وہ بچ گئے تھے۔ ان حملوں پر مقدمے کی سماعت شروع ہوئی ہی تھی کہ چارلی کرک کو قتل کر دیا گیا۔
لیکن 1960 اور ستر کی دہائی کے مقابلے میں یہ دور بہت مختلف ہے اور اسی وجہ سے یوٹا کے گورنر پریشان ہیں۔
اگرچہ انھوں نے احتیاط کا مظاہرے کرتے ہوئے وہ باتیں نہیں کیں جس سے مزید تقسیم پیدا ہو لیکن انھوں نے واضح طور پر سوشل میڈیا کمپنیوں کو اس سانحے کا ذمہ دار قرار دیا۔
گورنر سپنسر نے اتوار کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ’میرے خیال میں گذشتہ پانچ سے چھ برس کے دوران ہونے والے ہر قتل اور قتل کرنے کی کوشش میں سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا۔‘
انھوں نے کہا کہ امریکی معاشرے کو اس (سوشل میڈیا) نے جو نقصان پہنچایا، اس کے لیے’کینسر‘ ممکنہ طور پر بہت کمزور لفظ ہے۔
Anna Moneymaker/Getty Imagesگذشتہ سال ڈونلڈ ٹرمپ پر دو قاتلانہ حملے ہوتے ہیں جن میں وہ بچ گئے تھے
چارلی کرک کے قتل پر زیادہ تر سوشل میڈیا کمپنیوں نے باضابطہ بیان جاری نہیں کیا لیکن ایکس کے مالک ایلون مسک نے لکھا کہ ’انتہائی بائیں بازوں کے افراد چارلی کرک کے قتل پر خوشیاں منا رہے ہیں۔ ایسے جنونی افراد جو قتل پر خوشیاں منا رہے ہیں ان کے ساتھ اتحاد ناممکن ہے۔‘
انھوں نے سوشل میڈیا کے اثرات پر ہونے والی بحث پر لکھا کہ ’اگر ایکس پر ہونے والی کوئی بحث منفی بھی ہو گئی ہے تو یہ پھر بھی اچھا ہے کہ کچھ ڈسکشن تو ہو رہی ہے۔‘
’سیاسی قتل کا جشن منانا تہذیب کے دائرے میں نہیں آتا‘: چارلی کرک کی موت پر ’نامناسب‘ تبصروں پر امریکہ میں ملازمین کی برطرفیاںٹرمپ کے حامی چارلی کرک کا قتل: پولیس 33 گھنٹوں میں ملزم تک کیسے پہنچی؟امریکی صدور کا سزا معاف کرنے کا اختیار جو اب اپنے حامیوں اور رشتہ داروں کے لیے زیادہ استعمال ہو رہا ہےکیا امریکہ واقعی آزاد ریاست ہے؟’یہ ایک ناکام شادی کی طرح ہے‘
سوشل میڈیا اور سیاست کے امتزاج سے ہونے والے نقصانات نے سیاسی لحاظ سے پرجوش افراد کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
یوٹا سٹیٹ یونیورسٹی میں چارلی کرک کی تنظیم کی صدر کھیتلین گیرافتھی نے کہا کہ ’یقینی طور پر سوشل میڈیا ہمارے معاشرے کے لیے مشکل چیز ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آپ کسی ایسے شخص سے بات چیت بھی نہیں کر سکتے جس کے سیاسی عقائد آپ سے مختلف ہوں اور میں سجھتی ہوں کہ یہ بہت المناک ہے۔‘
یہ بہت افسوسناک ہے۔ اگرچہ کرک خود کو آزادی اظہار کے علمبرادر کے طور پر دیکھتے تھے لیکن اُن کے ناقد اس بات سے متفق نہیں تھے۔
چارلی کرک کی موت نے ملک میں اختلافِ رائے کو مزید پیچھے دکھیل دیا۔
BBCیوٹا سٹیٹ یونیورسٹی میں چارلی کرک کی تنظیم کی صدر کھیتلین گیرافتھی نے کہا کہ ’یقینی طور پر سوشل میڈیا ہمارے معاشرے کے لیے مشکل چیز ہے‘
کرک کی ہلاکت کے چند دن کے اندر اندر ملک میں مخالف سیاسی کیمپس پہلے ہی ایک دوسرے کے مخالف بیانیے کی آڑ لے رہے ہیں۔
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد کی کوشش ہے کہ وہ ایسی چیزیں تلاش کریں کہ جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ کرک کا قاتل انٹرنیٹ اور گروپ چیٹس کے ذریعہ بنیاد پرست بنا۔ بائیں بازوں کے افراد کا کہنا ہے کہ یہ چھان بین کرنی چاہیے کہ آیا مشتبہ شخص کسی سازش کا حصہ تو نہیں۔
یہ جو بگاڑ ہو گیا ہے کہ اس کو ٹھیک کرنا کسی بھی گروہ کی ترجیح نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انتہا پسندی کا مطالعہ کرنے والوں کے خیال میں موجودہ تقسیم پر بائیں اور دائیں جانب دیکھنا زیادہ مددگار ثابت نہیں ہو سکتا۔
Samuel Corum/Getty Imagesچارلی کرک اور ان کی اہلیہ
کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس سینٹر کی سینیئر فیلو ریچل کلین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ’یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو لوگوں کو بے قابو کر رہی ہے۔‘
’درجہ حرارت اور تناؤ کو کم کرنے کی خواہش ضرور ہوتی ہے لیکن لوگوں کو زیادہ ہمت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں ہمیں زیادہ توجہ اس پر دینی چاہیے کہ ہم ایک معاشرے کے طور پر کیسے نئے باب کی ابتدا کر سکتے کیونکہ یہ ایک ناکام شادی کی مانند، جو صرف انگلی اٹھانے (سوالات کرنے) سے ہی ختم ہو سکتی ہے۔‘
مصالحت کیسے ہونی چاہیے؟
کیا امریکہ معاشرے کی تقسیم کو ہوا دینے والے الگورتھم کی گرفت کو توڑ سکتا ہے تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس کے لیے ایک ایسے مضبوط طاقتور رہنما کی ضرورت ہے جو مفاہمت کے لیے پرعزم ہو۔
سیاسی اُمور کے مصنف ڈیوڈ ڈرکر کا کہنا ہے کہ ’میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ہم اس سے کیسے باہر نکل سکتے ہیں لیکن اگر دونوں جماعتیں اور جماعتوں سے مراد صرف سیاسی شخصیات نہیں، الزام تراشیاں روک دیں اور اسے بند کرنے پر متفق ہوں۔‘
اُنھوں نے کہا کہ ’عموماً صدر ہی اس قسم کی سہولت کاری فراہم کر سکتا ہے لیکن مجھے نہیں پتہ کہ ہم اُس مرحلے تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔‘
SAUL LOEB/AFP via Getty Images
ٹرمپ اس قسم کے صدر نہیں۔ وہ اکثر سیاسی طور پر اُس وقت سب سے زیادہ مضبوط دکھائی دیتے ہیں جب وہ اپنے کسی مخالف سے لڑ رہے ہوتے ہیں۔
میں یہ سمجھتی ہوں کہ ٹرمپ کو یقین ہے کہ بائیں بازو کے لوگ ان کی ’میگا تحریک‘ کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور چارلی کرک کی موت کے بعد یوٹا کے گورنر کے مقابلے میں ٹرمپ نے مختلف لہجہ اختیار کیا۔
جب ٹرمپ سے یہ پوچھا گیا کہ وہ اس معاملے کو کیسے ٹھیک کریں گے تو انھوں نے یہ جواب دیا کہ ’آپ کو کچھ بتانے پر میں مشکل میں آ جاؤں گا لیکن لاپرواہی نہیں کر سکتا۔‘
ٹرمپ نے کہا کہ ’دائیں جانب کے بنیاد پرست اکثر اس لیے بنیاد پرست ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ جرم نہیں دیکھنا چاہتے، بائیں طرف کے بنیاد پرست ہی مسئلہ ہیں۔‘
چارلی کرک کے قتل کے بعد اوول آفس نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ’بائیں بازو کے بنیاد پرست افراد کے سیاسی تشدد نے کئی معصوم لوگوں کو نقصان پہنچایا اور کئی جانیں لی ہیں۔‘
صدر ٹرمپ کی جانب سے یہ کہنا کہ یہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ وسیع پیمانے پر بنیاد پرست بائیں بازو کا کام تھا، وائٹ ہاؤس کے دیگر عہدیداروں نے بھی کچھ ایسی ہی بات کی۔
صدر ٹرمپ کے ڈپٹی چیف آف سٹاف سٹیفین ملر نے کہا کہ ’میں خدا کو گواہ بنا کر کہہ رہا ہوں کہ ہم ایسے نیٹ ورکس کو ختم کرنے اور تباہ کرنے کے لیے اپنے پاس موجود تمام وسائل استعمال کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم یہ کریں گے اور ہم یہ چارلی کے نام پر کریں گے۔‘
دوسری جانب سیاسی وجوہات کی بنا پر ہونے والے قتل اور تشدد پر کی جانے والی تحقیق کے مطابق امریکہ میں گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران ایسے کیسز میں زیادہ تر دائیں بازوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے نام سامنے آئے ہیں لیکن کوئی حتمی رائے قائم کرنے کے لیے مزید کیسز کا مشاہدہ کرنا ضروری ہے۔
’لوگ کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا‘
میں نے کچھ لوگوں سے امریکی تاریخ کے تاریک دور کے بارے میں بات کی۔
رپبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے رکنِ کانگریس جو سکاربور نے مجھے بتایا کہ ’امریکہ میں کچھ ادوار سیاسی طور پر زیادہ تاریک یا پرتشدد رہے ہیں (1960 کی دہائی اور 1970 کی دہائی کے اوائل میں) جس میں ویتنام اور واٹر گیٹ سکینڈل سامنے آیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’لیکن ملک آگے بڑھا، اپنی پر تشدد تقسیم سے آگے بڑھتے ہوئے 200 سالہ جشن منایا، دوبارہ ایسا ہی ہو گا۔‘
CHARLY TRIBALLEAU/AFP via Getty Image
اس کے علاوہ میں نے اُن افراد سے بھی بات کی جو پرُ امید ہیں، ان میں جارجیا سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹس پارٹی کے سینیٹر رافیل وارنوک بھی شامل ہیں۔ وہ امریکہ کے سینیئر ترین سیاہ فام عہدیداروں میں سے ایک ہیں۔
انھوں نے سیاسی تشدد کو بدترین ’جمہوریت مخالف‘ اقدام قرار دیتے ہوئے اس کیمذمت کی لیکن مجھے نسل پرستی جیسے مسائل پر امریکی پیشرفت یاد دلائی۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ ’کسی بھی خاندان کی کہانی ہمیشہ ان کہانیوں سے زیادہ پیچیدہ ہوتی ہے جو ہم خاندان کے دوبارہ متحد ہونے پر خود کو سناتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’فوجی کی وردی پہنے ہوئے بھی میرے والد کو بس میں اپنی سیٹ نوجوان کے لیے چھوڑنی پڑی تھی لیکن اب میں سینیٹ کی نشست پر بیٹھا ہوں۔‘
وہ پر اُمید ضرور ہیں لیکن مجھے اس جانب کوئی واضح راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔
ایسے موقع پر جب امریکہ اپنے قیام کی 250ویں سالگرہ منانے کی تیاری کر رہا ہے، میں نے رواں سال کے ابتدا میں مشہور تاریخ دان اور فلم ساز کین برنس کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں بہت سوچا۔
کین برنس کہتے ہیں کہ ’لوگ کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔‘
برنس نے مصنف مارک ٹوین سے منسوب ایک اقتباس کا حوالہ دیا کہ ’تاریخ اپنے آپ کو دہراتی نہیں لیکن یہ اکثر شاعری کرتی ہے۔‘
دوسرے لفظوں میں، اگر حال ماضی کی طرح لگتا بھی ہے تو چیزیں کبھی بھی ایک ہی طرح سے نہیں ہوتی ہیں۔
تناؤ کے اسلمحے میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے یہ امریکی تاریخ کے دیگر اختلافی ادور سے مطابقت رکھتا ہے لیکن یہ ان کو دہرا نہیں رہا۔
یہ درست ہے کہ امریکی تاریخ غصے اور تنازعات سے بھری ہوئی ہے لیکن میں اس بات پر متفق نہیں ہوں کہ اس ملک کا سماجی اور سیاسی نظام ہمیشہ جذبات کو بھڑکانے والی کمپنیوں اور افراد کو نوازنے میں اتنا ہی متحرک رہا۔
اس دوران امریکہ مزید کمزور ہو گا عظیم نہیں۔۔۔
سابق وزیر دفاع باب گیٹس نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ امریکہ کی قومی سلامتی کو تین بڑے خطرات لاحق ہیں: چین کا عروج، روس کا زوال اور تیسرا خطرہ ملک کی اپنی اندرونی تقسیم ہے۔
امریکہ کے مخالفین یقیناً جانتے ہیں کہ یہ تقسیم اس سپر پاور کو کتنا نقصان پہنچا رہی ہے اور وہ امریکیوں کو مزید تقیسم کا شکار کرنے کے لیے آن لائن سخت محنت کر رہے ہیں اور امریکی ان کے لیے اسے مزید آسان بنا رہے ہیں۔
’سیاسی قتل کا جشن منانا تہذیب کے دائرے میں نہیں آتا‘: چارلی کرک کی موت پر ’نامناسب‘ تبصروں پر امریکہ میں ملازمین کی برطرفیاںٹرمپ کے حامی چارلی کرک کا قتل: پولیس 33 گھنٹوں میں ملزم تک کیسے پہنچی؟کیا امریکہ واقعی آزاد ریاست ہے؟سٹیفن ملر: امریکہ میں ٹرمپ کی سخت امیگریشن پالیسی کے ماسٹر مائنڈ کون ہیں؟امریکی صدور کا سزا معاف کرنے کا اختیار جو اب اپنے حامیوں اور رشتہ داروں کے لیے زیادہ استعمال ہو رہا ہے