Getty Imagesانڈین ٹیم اس سے پہلے دو بار سنہ 2005 اور 2017 میں اس ٹورنامنٹ کے فائنل میں پہنچی تھی
انڈیا کی خواتین کرکٹ ٹیم ون ڈے ورلڈ کپ جیت کر پہلی مرتبہ ورلڈ چیمئین بن گئی ہے۔ یہ ایک تاریخی لمحہ تھا جس کا ٹیم ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو انتظار تھا۔
انڈین ٹیم اس سے پہلے دو بار سنہ 2005 اور 2017 میں اس ٹورنامنٹ کے فائنل میں پہنچی تھی مگر دونوں بار کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکی تھی، لیکن اس مرتبہ کہانی نے نیا موڑ لیا ہے۔
انڈیا کی خواتین ٹیم نے ایک سنسنی خیز سیمی فائنل میں سات مرتبہ ورلڈ چیمپیئن بننے والی ٹیم آسٹریلیا کو شکست دی تھی۔ ممبئی کی جمائمہ روڈریگس نے 127 رنز کی یادگار اننگز کھیلی اور پھر فائنل میں ٹیم نے جنوبی افریقہ کو 52 رنز سے شکست دی۔
جب انڈیا کی ویمن کرکٹ ٹیم چیمپئن بنی تو پھر مبارکبادوں اور تعریفوں کے سلسلے شروع ہو گئے۔
سوریہ کمار یادو، سچن تندولکر، وراٹ کوہلی اور سٹار باکسر نکھت زرین نے ٹیم کی تعریف کی۔ وزیر اعظم نریندر مودی سے لے متعدد سیاسی رہنماؤں نے اس جیت کو ’عظیم‘ فتح قرار دیا۔
انڈیا میں اقوام متحدہ کے دفتر نے ٹیم کی تعریف کرتے ہوئے کہا ’آپ نے ہمیں اور پوری دنیا کو متاثر کیا ہے۔‘
انڈیا کی خواتین کرکٹ ٹیم کی اس لیے بھی تعریف کی جا رہی ہے کہ اس میں شامل لڑکیوں کو یہاں تک پہنچنے کے لیے میدان میں جتنی جدوجہد کرنا پڑی، اس سے کہیں زیادہ جدوجہد یہاں تک پہنچنے کے لیے کرنا پڑی ہے۔
آئیے بات کرتے ہیں انڈین ویمن کرکٹ ٹیم کی ان کھلاڑیوں کی جنھوں نے عام گھرانوں اور چیلنجنگ پس منظر سے آنے کے باوجود عالمی چیمپئن ٹیم کا حصہ بننے کا سفر طے کیا۔
کرانتی گوڑGetty Imagesکرانتی نے پہلی بار سنہ 2017 میں اپنے ضلع میں ایک ٹورنامنٹ میں 'ہارڈ بال' میچ کھیلا
22 سالہ کرانتی گوڑ نے مدھیہ پردیش کے چھترپور ضلع کے شہر گھوارا سے ٹیم انڈیا میں اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔
کرانتی گوڑ نے لڑکوں کے ساتھ ٹینس بال کرکٹ کھیلنا شروع کی کیونکہ لڑکیاں ان کے گھر کے آس پاس کرکٹ نہیں کھیلتی تھیں۔
ایک انٹرویو میں کرانتی نے کہا تھا کہ ’گھر کے سامنے ایک گراؤنڈ ہے، وہاں کچھ لڑکے کرکٹ کھیل رہے تھے، لڑکیاں بھی سائیڈ پر اپنا گیم کھیل رہی تھیں، لیکن مجھے لگا کہ مجھے کرکٹ کھیلنی چاہیے، پھر تمام لڑکیاں ایک طرف کھیلتی تھیں اور میں لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتی تھی۔‘
اس کے بعد کرانتی نے اپنے بھائی کے ساتھ مقامی ٹینس ٹورنامنٹس میں حصہ لینا شروع کیا۔ تاہم اس دوران انھیں سماجی چیلنجوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے پر ان کی سرزنش بھی کی گئی۔
انھوں نے پہلی بار سنہ 2017 میں اپنے ضلع میں ایک ٹورنامنٹ میں ’ہارڈ بال‘ میچ کھیلا، جہاں وہ گئیں تو ایک تماشائی کے طور پر تھیں مگر پھر ویمن ٹیم میں کھلاڑیوں کی کمی کے باعث انھیں کھیلنے کا موقع دیا گیا اور پھر انھوں نے پلیئر آف دی میچ بن کراپنا لوہا منوایا۔
ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کرانتی نے اسی انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ایک وقت تھا جب ہمیں کھانے کے لیے بھی پیسے ادھار لینے پڑتے تھے اور لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ ہم اسے واپس کر دیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ برے وقت میں کوئی آپ کا ساتھ نہیں دیتا، اس لیے جب ہم پر برا وقت آیا تو کسی نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت جب مجھے پریکٹس کے لیے جانا ہوتا تھا تو کوئی مجھے پیسے ادھار تک نہیں دیتا تھا۔ اس وقت میری ماں نے اپنے زیورات بیچ کر مجھے میچ کھیلنے بھیجا۔‘
رادھا یادوGetty Imagesرادھا کا خاندان ممبئی کے مضافاتی علاقے کاندیوالی میں رہتا تھا
انڈیا کی خواتین کرکٹ ٹیم میں بائیں ہاتھ سے بولنگ کرنے والی سپنر رادھا یادو کا تعلق ایک بہت ہی عام خاندان سے ہے۔
ان کا خاندان ممبئی کے مضافاتی علاقے کاندیوالی میں رہتا تھا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق پرفل نائک، جنھوں نے ممبئی کے لیجنڈ کوچ رماکانت اچریکر سے کرکٹ سیکھی، نے پہلی بار رادھا کی کرکٹ میں دلچسپی کو اس وقت پہچانا جب وہ 11 سال کی تھیں۔
انھوں نے رادھا سے اپنے والد سے ملنے کی درخواست کی۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق رادھا کے والد سبزی فروش تھے۔ پرفل نائک نے کسی طرح خاندان کو راضی کر لیا کہ وہ اسے کرکٹ کھیلنے دیں۔
اور یہیں سے رادھا کی زندگی کا سفر شروع ہوا جس نے انھیں انڈیا کی ویمن کرکٹ ٹیم کا ایک اہم حصہ بنا دیا۔
گذشتہ اکتوبر میں رادھا یادو نے نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے کے دوران اپنے حیران کن مڈ ایئر کیچ کے ذریعے میڈیا کی توجہ حاصل کی تھی۔
ہرمن پریت کورGetty Imagesبرہمن پریت کور کا تعلق پنجاب کے ضلع سنگرور سے ہے
ہرمن پریت کورانڈین بولنگ یونٹکا ایک اہم حصہ ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع سنگرور سے ہے اور ان کا خاندان موہالی میں رہتا ہے۔
وہ سٹریٹ کرکٹ کے ذریعے کرکٹ کی دنیا میں داخل ہوئیں اور اکثر لڑکوں کے ساتھ کھیلتی تھیں۔
ٹیم کے ورلڈ چیمپیئن بننے کے بعد ہرمن پریت کور کی والدہ رنجیت کور نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پانچ چھ سال کی لڑکی کے لیے لڑکوں کے ساتھ اکیلے کھیلنا بڑی بات تھی۔ وہ لڑکوں کی طرح اپنے بالوں کو روٹی یا پگڑی میں باندھتی تھیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ابتدائی دن کچھ مشکل تھے لیکن ہرمن پریت کور کو اپنے کھیل کے بل بوتے پر ایوارڈز یا سکالرشپ مل جاتی تھیں۔
انڈین خواتین ٹیم کی ورلڈ کپ میں تاریخی فتح، جے شاہ کے پاؤں چھونے کی کوشش اور ایشیا کپ ٹرافی نہ ملنے کا گلہ'لڑکوں کے ساتھ کھیلنے پر مجبور تھی'’کوہلی جیسا سٹائل، روہت شرما جیسی شاٹ‘: صادق آباد کی ننّھی کرکٹر سونیا خان جن کی وائرل ویڈیو کی تعریف آسٹریلیا میں بھی ہوئی’لڑکوں کے ساتھ ہی پریکٹس کرنا پڑتی تھی‘
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ہرمن پریت کور کے والد نے سب سے پہلے ان کی صلاحیتوں کو پہچانا اور انھیں آگے بڑھنے کا موقع دیا۔
ہرمن پریت کور کے والد بھوپندر پیشے کے اعتبار سے بڑھئی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب ہرمن پریت نے کہا کہ وہ اکیڈمی میں داخلہ لینا چاہتی ہیں تو مجھے وہ کام چھوڑنا پڑا جو میں کنٹریکٹ پر کرتا تھا۔ پھر میں نے وقت بچانے کے لیے ایک دکان پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔‘
ہرمن پریت کور کے والدین کا کہنا ہے کہ ’یہ جیت کھیلوں کی طرف لڑکیوں کا رویہ بدلے گی اور ان میں ایک نئی تحریک کا باعث بنے گی۔‘
دیپتی شرماGetty Imagesدیپتی شرما کو 12 سال کی عمر میں یوپی کی ٹیم میں منتخب کیا گیا تھا
دیپتی شرما کی کارکردگی نے انڈیا کی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کے والد انڈین ریلوے میں کام کرتے تھے۔
آل راؤنڈر دیپتی شرما کو ان کی کارکردگی کے لیے پلیئر آف دی ٹورنامنٹ قرار دیا گیا۔ وہ ورلڈ کپ میں 20 سے زیادہ وکٹیں لینے اور 200 سے زیادہ رنز بنانے والی پہلی خاتون کرکٹر بن گئی ہیں۔
آگرہ میں پیدا ہونے والی دیپتی شرما کو 12 سال کی عمر میں یوپی کی ٹیم میں منتخب کیا گیا تھا۔
انھوں نے سنہ 2014 میں جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں اپنے بین الاقوامی کریئر کا آغاز کیا اور صرف دو سال بعد وہ انڈین ٹی 20 ٹیم میں شامل ہو گئیں۔
انھوں نے صرف 18 سال کی عمر میں ون ڈے میچ میں چھ وکٹیں لینے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ انھوں نے سنہ 2017 میں آئرلینڈ کے خلاف میچ میں 188 رنز بنا کر یہ ریکارڈ قائم کیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر صرف 19 سال تھی۔
یوپی حکومت نے اس سال جنوری میں دیپتی شرما کو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے عہدے پر تعینات کیا ہے اور انھیں تین کروڑ روپے کا انعام بھی دیا۔
رینوکا ٹھاکرGetty Imagesرینوکا ٹھاکر کا تعلق ہماچل پردیش سے ہے
انڈین ٹیم کی ایک اور تیز بولر رینوکا ٹھاکر کا تعلق ہماچل پردیش سے ہے۔ وہ ایک کاشتکار خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔
ان کے والد اب اس دنیا میں نہیں رہے مگر ان کا خواب کہ ان کا ایک بچہ کھلاڑی بنے رینو ٹھاکر نے پورا کر دکھایا۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی سے بات کرتے ہوئے رینوکا کی والدہ سنیتا نے کہا کہ رینوکا ٹھاکر کو بچپن سے ہی کرکٹ کا شوق تھا اور وہ علاقے کے لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتی تھیں۔
سنیتا نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ ان کے شوہر کرکٹ کے مداح تھے اور چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی اس کھیل میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’انھیں کرکٹ سے بہت پیار تھا، آج وہ ہمارے ساتھ نہیں لیکن ان کی بیٹی نے ان کا خواب پورا کر دیا۔‘ انڈین ٹیم کی جیت کے بعد ریاست کے وزیر اعلیٰ سکھوندر سنگھ سکھو نے رینوکا ٹھاکر کو ایک کروڑ روپے انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔
انڈین خواتین ٹیم کی ورلڈ کپ میں تاریخی فتح، جے شاہ کے پاؤں چھونے کی کوشش اور ایشیا کپ ٹرافی نہ ملنے کا گلہ'لڑکوں کے ساتھ کھیلنے پر مجبور تھی'’لڑکوں کے ساتھ ہی پریکٹس کرنا پڑتی تھی‘’کوہلی جیسا سٹائل، روہت شرما جیسی شاٹ‘: صادق آباد کی ننّھی کرکٹر سونیا خان جن کی وائرل ویڈیو کی تعریف آسٹریلیا میں بھی ہوئی’یہ میری زندگی کا سب سے بڑا معجزہ تھا‘: افغانستان کی خواتین کرکٹ ٹیم کا ملک سے ’فلمی فرار‘’ہال آف فیم‘ میں شامل ہونے والی ثنا میر: ’یہ صرف میری نہیں بلکہ ہر لڑکی کی جیت ہے‘