BBC
کسی بھی حادثے یا بیماری کی حالت میں خون کی منتقلی نے جدید دور کی طب کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
اگر کبھی کسی آپریشن یا حادثے کے بعد مریض کو خون کی ضرورت ہو تو خون کے عطیہ کی مدد سے اُس کی جان بچائی جا سکتی ہے۔
لیکن ہر ایک خون کی منتقلی نہیں کی جا سکتی ہے۔ دنیا میں کئی افراد ایسے ہیں جن کا بلڈ گروپ نایاب ہے اور بلڈ بینک کے ذریعے ملنے والا خون کا عطیہ اُن کے بلڈ گروپ سے میچ نہیں کرتا۔
ایسے ہی ایک نایاب بلڈ گروپ آر ایچ نل(RH Null)ہے۔ دنیا میں صرف 50 افراد ہی ایسے ہیں جن کا یہ بلڈ گروپ ہے۔ کسی حادثے یا بیماری کی صورت ان افراد کو خون ملنا کا امکان نہ ملنے کے برابر ہے۔ اسی لیے آر ایچ نل بلڈ گروپ والے افراد کو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے خون کی بوتل محفوظ کر کے رکھیں۔
لیکن نایاب ہونے کے ساتھ ساتھ یہ خون مختلف وجوہات کے سبب بہت قیمتی ہے۔ ریسرچ اور طبی کمیونٹی عموماً اسے گولڈ بلڈ کہتی ہے۔
اس بلڈ گروپ کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ عالمی سطحپر خون منتقل کرنے میں بھی مدد کر سکتا ہے کیونکہ سائنسدان مدافعت کے مسائل پر قابو پانے کے لیے مختلف طریقے تلاش کر رہے ہیں جو عطیہ کردہ خون کے استعمال کو محدود کرتا ہے۔
BBCبعض اوقات مریض کو خون چڑھانے کے بعد ری ایکشن ہو جاتا ہے۔
ہمارے جسم میں گردش کرنے والے خون کی تفریق خون کے سرخ خلیوں میں موجود کچھ اہم مارکرز (چیزوں) کی موجودگی یا غیر موجودگی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
ان مارکز کو اینٹی جنز کہتے ہیں جو پروٹین یا شوگر پر مشتمل ہوتے اوریہ خلیے کی بیرونی سے سطح سے چپکے ہوتے ہیں جسم کا مدافعتی نظام ان کو تلاش کر لیتا ہے۔
یونیورسٹی آف برسٹل میں سیل بائیولوجی کے پروفیسر ڈاکٹر ایش ٹوئے کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ کو کوئی ایسا خون لگایا گیا ہے جس کے اینٹی جنز آپ کے اپنے خون کے اینٹی جنز سے مختلف ہو تو جسم ان کا مقابلے کرنے کے لیے اینٹی باڈیز بناتا ہے اور اگر آپ کو دوبار خون لگایا جائے تو یہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔‘
سب سے زیادہ مدافعتی ردعمل دینے والے دو بلڈ گروپ سسٹم ہیں جنھیں اے، بی، او اور Rhesus (Rh) ہیں۔
اے بلڈ گروپ والے شخص کے ریڈ بلڈ سیل میں اے اینٹیجن اور بی بلڈ گروپ والے کے خون میں بی اینٹیجن ہوتے ہیں جبکہ اے بی بلڈ گروپ والے افراد میں اے اوربی دونوں اینٹیجنز ہوتے ہیں اوبلڈ گروپ والے افراد میں کوئی اینٹیجن نہیں ہوتا ہے۔ہر بلڈ گروپ آر آیچپازیٹو یا آر آیچ نیگیٹو ہوتا ہے۔
عمومی طور پر او بلڈ گروپ والے افراد کو یونیورسل ڈونر کہا جاتا ہے کیونکہ اُن کے خون میں اے, بییا آر آیچ اینٹیجنز نہیں ہوتے ہیں۔
لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ اس وقت ہمیں تقریباً 47 مختلف بلڈ گروپس اور 366 اینٹیجنز کے بارے میں پتہ ہے۔
اس کے مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو او نیگیٹو بلڈ لگایا جائے تب بھی کسی دوسرے اینٹی جن کی وجہ سے مدافعتی ردعمل ہو سکتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ 50 سے زائد آر آیچ اینٹیجنز ہوتے ہیں اور جب آر آیچ نیگیٹو کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آر آیچڈی اینٹیجن لیکن اُن کے خون کے سرخ خلیوں میں کوئی دوسری آر ایچ پروٹین ہوتی ہیں۔
دنیا بھر میں آر ایچ اینٹیجز کی بہت سی اقسام ہیں اور انھیں میچ کرنے والا ڈونر تلاش کرنا بہت بڑا چیلنج ہے۔
BBC
ایسے افراد جن کا بلڈ گروپ آر ایچ نلہوتا ہے ان میں تمام 50 آر ایچ اینٹیجنز نہیں ہوتے ہیں لیکن یہ افراد کوئی اور خون نہیں لگا سکتے ہیں۔
آر ایچ نلبلڈ گروپ تمام آر ایچ بلڈ والوں کو لگایا جا سکتا ہے۔
یہ او ٹائپآر ایچ نلخون کو انتہائی قیمتی بناتا ہے کیونکہ کئی افراد یہ خون استعمال کر سکتے ہیں۔
ہنگامی حالات میں جب مریض کا بلڈ گروپ معلوم نہ ہو او ٹائپآر ایچ نلبلڈ لگایا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں ری ایکشن ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔ یہی وجہ سے سائنسدان اس ’گولڈن بلڈ‘ کی نقل تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر ٹوئے کا کہنا ہے کہ ’مدافعتی نظامآر ایچ اینٹیجنز کی وجہ سے ردعمل ظاہر کرتا ہے اوراگر خون میں کوئی بھی اینٹیجن نہ ہو تو یہ ری ایکشن نہیں ہوتا ہے۔ اگر یہ او ٹائپآر ایچ نلتو یہ کافی حد تک یونیورسل ہے۔‘
2018 میں ڈاکٹر ٹوئے اور اُن کی ٹیم نے لیبارٹری میں آر ایچ نل خون کو دوبارہ بنایا۔
انھوں نے خون کے سرخ خلیوں کی مدد سے لیبارٹری میں خلیے کی پیدا کیے۔ ٹیم نے چین ایڈیٹنگ تکنیک استعمال کرتے ہوئے پانچ مختلف بلڈ گروپس اینٹیجنز کو ختم کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خون کے خلیے تمام بڑے بلڈ گروپس کے لیے مطابقت پذیر ہو گئے۔ جیسے آر ایچ نلاور Bombay phenotype بلڈ گروپ جو 40 لاکھ افراد میں سے کسی ایک کا ہوتا ہے۔
ان نایاب بلڈ گروپ والے افراد کو او، اے، بی یا اے بی خون نہیں دیا جا سکتا ہے۔
تاہم دنیا کے کئی ممالک میں جین ایڈیٹنگ کی تکنیک متنازع اور ریگولیٹیڈ ہے اور اس لحاظ سے انتہائی مطابقت پذیر اس خون کی طبی مقاصد کے لیے دستیابی میں کچھ وقت لگے گا۔ اسےکلینیکل ٹرائلز اور مزید ٹیسٹنگ کے مراحل سے گزرنا ہو گا۔
ڈاکٹر ٹوئے نے ایک کمپنی سکارلیٹ تھیرسپیوٹکس کی بنیاد رکھی ہےجو آر ایچ نلسمیت نایاب بلڈ گروپس کے حامل افراد کے خون کے عطیات جمع کر رہی ہے۔ اُن کی ٹیم کو امید ہے کہ اس خون کو سیل لائنز بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا جسے لیبارٹری میں بنایا جا سکتا ہے تاکہ خون کے سرخ خلیے غیر معینہ مدت تک تیار کیے جا سکیں۔اس کے بعد لیبارٹری سے تیار کردہ خون کو ہنگامی حالات کے لیے ذخیرہ کرنے کے لیے منجمد کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر ٹوئے پراُمید ہیں کہ وہ بغیر جین ایڈیٹنگ کیے نایاب بلڈ گروپس کا بلڈ بینک بنائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ ’اگر ہم یہ ایڈیٹنگ کیےبغیر کر سکتے ہیں، تو بہت اچھا، لیکن ایڈیٹنگ بھی ایک آپشن ہے۔ ہم احتیاط سے عطیہ دہندگان کا انتخاب کر رہے ہیں تاکہ ان کے تمام اینٹیجنز کو زیادہ تر لوگوں کے لیے ممکنہ حد تک ہم آہنگ بنایا جا سکے۔
BBC
2021 میں، امیونولوجسٹ گریگوری ڈینومے اور ورسیٹی بلڈ ریسرچ انسٹیٹوٹ ملواکی سے وابستہ سائنسدانوں نےجین ایڈیٹنگ ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے انسانی سٹیم سیل سے آر ایچ نلسمیت نایاب بلڈ گروپس بنائے۔
ان اسٹیم سیلز میں ایمبریونک سٹیم سیلز جیسی خصوصیات ہوتی ہیں اوریہ مناسب حالات کے پیش نظر انسانی جسم میں کوئی بھی سیل بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دوسرے سائنسدانوں نے ایک اور قسم کے سٹیم سیلز استعمال کیے جو پہلے سے ہی خون کے خلیات بنانے کے لیے پروگرام کیے گئے ہیں لیکن ابھی تک اس بات کا تعین نہیں کیا گیا ہے کہ سیلز کی کون سی قسم ہے۔
مثال کے طور پر کیوبیک، کینیڈا میں لاول یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے حال ہی میں اے پازیٹو خون کے عطیہ سے اسٹیم سیلز نکالے۔ اس کے بعد انھوں نے جین ایڈینٹگ ٹیکنالوجیCrispr-Cas9استعمال کی تاکہاسے اور آر ایچ اینٹیجنز کی جین ڈنگ کو حذف کیا جا سکے، جس سےیہ او ٹائپآر ایچ نلسرخ خون کے خلیات پیدا ہوتے ہیں۔
بارسلونا، اسپین میں محققین نے بھی حال ہی میں ایک آر ایچ نلخون کے عطیہ دہندہ سے سٹیم سیلز لیے، اور Crispr-Cas9 کا استعمال کرتے ہوئے ان کے خون کو ٹائپ اے سے ٹائپ او میں تبدیل کیا۔
تمام تحقیق کے باوجودلیبارٹری میںتیار کردہ مصنوعی خون کو اس پیمانے پر بنانا کہ لوگ اسے استعمال کر سکیں، ابھی بہت دور ہے۔ اس میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہسٹیم سیلز بھی میچور ریڈ بلڈ سیلز میں نمو پاتے ہیں۔
جسم میں، خون کے سرخ خلیے ریڈ بلڈ سیلز بون میرو کے اسٹیم سیلز سے تیار ہوتے ہیں، جو ان کی نشوونما کے طریقہ کار کی رہنمائی کے لیے پیچیدہ سگنلز پیدا کرتے ہیں۔ لیبارٹری میں اس کی نقل تیار کرنا مشکل ہے۔
فی الوقت ڈاکٹر ٹوئےری سٹور ٹرائل کی قیادت کر رہے ہیں، یہ دنیا کا پہلا کلینیکل ٹرائل ہے جو لیبارٹری میںعطیے کئے گئے سٹیم سیلز کو صحت مند رضاکاروں پر جانچ رہا ہے لیکن انسانوں میں اس کے استعمال کے لیے مزید دس تک کا عرصہ درکار ہے۔
ٹوئے کا کہنا ہے کہ ’اس وقت، کسی کے بازو سے خون نکالنا بہت عام سی بات ہے لیکن ہمیں مستقبل قریب میں خون عطیہ کرنے والوں کی ضرورت ہوگی۔‘
’میرے جسم میں 26 لاکھ پاؤنڈ کا خون ہے‘نیو بلڈ: ’میری رگوں میں دوڑنے والا خون نا صرف نایاب ہے بلکہ نومولود بچوں کی جان بھی بچا سکتا ہے‘خون کی بیماری کا انقلابی علاج جس نے جمی کو نیا انسان بنا دیاخلیے آکسیجن کی کمی بیشی سے کیسے نمٹتے ہیں؟