Getty Imagesدھرمیندر 89 سال کی عمر میں وفات پا گئے
انڈین سینیما کے ’ہیمین‘ کہے جانے والے اداکار دھرمیندر 89 برس کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔
انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے انسٹاگرام پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ دھرمیندر کی وفات کے ساتھ انڈین سینیما کے ایک نمایاں دور کا اختتام ہوا ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق دھرمیندر کی بیوی ہیما مالنی اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ ساتھ بالی وڈ کے اداکاروں کی بڑی تعداد ان کی آخری رسومات کے لیے ایک شمشان گھاٹ پہنچ چکی ہے۔
دھرمیندر کو سانس لینے میں دشواری کے باعث ممبئی کے بریچ کینڈی ہسپتال داخل کیا گیا تھا۔ انھیں کچھ روز تک علاج کے بعد واپس گھر لایا گیا تھا۔
فلمی پردے پر ایکشن ہیرو کی شبیہ رکھنے والے دھرمیندر دراصل ایک شاعرانہ طبیعت کے مالک تھے۔ لیکن ’ہیمین‘ اور ایکشن ہیرو جیسے ٹیگز میں محدود کرنے کے بجائے دھرمیندر کی زندگی پر اگر نظر ڈالی جائے تو وہ اس سے کہیں زیادہ گہرے اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک نظر آتے ہیں۔
فلم 'انُوپما' میں جہاں وہ ایک حساس مصنف، سماج سے گہرا رشتہ رکھنے والے ہیں تو 'ستیہ کام' میں وہ سیدھے راستے پر چلنے والے اصول پرست ضدی نوجوان ہیں اور پھر فلم 'چپکے چپکے' میں آپ انھیں ہنسا ہنسا کر لوٹ پوٹ کر دینے والے پروفیسر پریمل کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔
اور حقیقی زندگی میں وہ ایک شاعر، ایک عاشق، ایک باپ، دنیا کے وحیہ ترین مردوں میں شمار ہونے والے انسان ہیں جو شراب کی لت پر قابو پانے کی جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں جبکہ انھیں آپ وقتی طور پر سیاست میں قدم رکھنے والے ایک رہنما کے طور پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔
BBCدھرمیندر نے 1960 میں 'دل بھی تیرا ہم بھی تیرے سے' اپنے فلمی کریئر کا اغاز کیانواز شریف بھی ان کے مداح
1935 میں پنجاب میں پیدا ہونے والے دھرَم سنگھ دیول نے اپنے آبائی گاؤں نصرالی سے بمبئی تک کا جو سفر طے کیا سے بس خواب ہی کہا جا سکتا ہے۔
انڈیا ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی دھرمیندر کے بے شمار چاہنے والے موجود ہیں جن میں پاکستان کے سابق وزیرِاعظم نواز شریف بھی شامل ہیں۔
دھرمیندر نے ایک بار ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا: 'جب نواز شریف انڈیا آئے تو ان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا خاندان گاڑی سے گزر رہا تھا تو میرے گھر کے سامنے گاڑی رکوائی گئی۔ انھوں نے اپنی بیوی اور بچوں سے کہا: 'یکھو، یہ ہے دھرمیندر کا گھر۔'
مہیش بھٹ کے لیے دھرمیندر نے ٹرک ڈرائیور سے کپڑے ادھار لیے
دھرمیندر اپنی اداکاری کے ساتھ ساتھ دریا دلی اور فیاضی کے لیے بھی مشہور تھے۔
مصنف راجیو وجےکر کی کتاب ’دھرمیندر: ناٹ جسٹ اے ہیمین‘ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
کتاب میں مہیش بھٹ کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ 'فلم 'دو چور' کے سیٹ پر میں بطور اسسٹنٹ کام کر رہا تھا۔ میری غلطی سے ٹرک ڈرائیور کی وہ وردی، جو دھرمیندر کے کردار کے لیے تھی، ہوٹل میں رہ گئی۔ وہ سین ہر حالت میں صبح صبح شوٹ ہونا تھا، ورنہ پروڈیوسر کو نقصان ہوتا۔ میں نے دھرمیندر سے مسئلہ بیان کیا۔
'انھوں نے ہمدردی سے میری بات سنی، اٹھے، پاس ہی ایک ٹرک ڈرائیور کھڑا تھا۔ اس کے پاس گئے، اور اس کے بدن پر پہنے ہوئے میلے کپڑے ادھار لے لیے۔ ایک ڈریس مین کی غلطی کو اپنی فیاضی اور تخلیقی ذہانت سے چھپا دیا۔'
Getty Imagesدلیپ کمار کی سوانح کے رسم اجرا کے موقعے پر دھرمیندر، امیتابھ اور عامر خان موجود تھےدلیپ کمار کو دیکھ کر فلموں کی چاہ پیدا ہوئی
بچپن میں ان کے والد لدھیانہ کے نزدیک سانیوال گاؤں میں ریاضی کے استاد تھے، جہاں سینیما وینما دیکھنا تو بہت دور کی بات تھی۔
ایک روز دھرمیندر نے چوری چھپے دلیپ کمار کی فلم 'شہید' دیکھ لی۔ یہ فلم سنہ 1948 میں ریلیز ہوئی تھی۔
دھرمیندر بتاتے ہیں کہ اس فلم اور دلیپ کمار نے ان کے دل پر ایسا جادو کیا کہ اسی دن ان کی تقدیر بدل گئی۔
1958 میں معرف فلم میگزن فلم فیئر نے ٹیلنٹ ہنٹ کا اعلان کیا جس میں بمل رائے اور گرو دت جیسے بڑے نام شامل تھے۔
اس وقت مالیر کوٹلہ میں ملازمت کر رہے دھرمیندر، جان محمد فوٹو اسٹوڈیو گئے اور کہا: 'کچھ ایسا کرنا کہ میں دلیپ کمار لگوں اور مجھے چن لیا جائے۔'
اور ایسا ہی ہوا۔ گاؤں کا لڑکا منتخب ہو کر بمبئی جا پہنچا۔
یوں ایک ایسی فلمی کہانی شروع ہوئی جس میں جذبات بھی تھے، ڈراما بھی، اور المیہ بھی۔
BBCبمل رائے نے ہندی سینیما کو کئی یادگار فلمیں دی ہیںبمل رائے کے ھرمیندو اور بندنی
بمل رائے نے خود دھرمیندر کو، جنہیں وہ پیار سے 'دھرمندُو' کہتے تھے انھیں ان کا پہلا رول فلم 'بندنی' میں دیا۔
اگرچہ 'بندنی' فلم کو بننے میں وقت لگ گیا لیکن اس دوران جدوجہد کے ایّام میں ارجن ہنگورانی نے انھیں فلم 'دل بھی تیرا ہم بھی تیرے' کے لیے سائن کر لیا۔
1966 میں آنے والی فلم 'پھول اور پتھر' نے دھرمیندر کو ایک ہیرو کے طور پر پہچان دی۔ اس فلم کا ایک منظر یادگار ہے جب وہ ایک شرابی کے کردار میں اپنی قمیص اتار کر ایک بیوہ بھکاری پر ڈال دیتے ہیں۔
اس وقت کسی ہیرو کی ایسی جسمانی ساخت نہیں دیکھی گئی تھی۔ اسی فلم سے ہی ان میں 'ہیمین' کی پہلی جھلک نظر آئی اور دھرمیندر کو پہلی فلم فیئر نامزدگی ملی۔
امیتابھ بچن اور راجیش کھنہ کے باوجود دھرمیندر ہٹ
ساٹھ کی دہائی کے آخر تک دھرمیندر کامیابی کے زینے چڑھنے لگے تھے، مگر مقابلہ سخت تھا۔
جب انھوں نے اپنے کریئر آغاز کیا تو شمّی کپور کا چرچا تھا۔ 1970 آتے آتے راجیش کھنہ کا طوفان آیا، اور جب وہ بلندیوں پر تھے تو امیتابھ بچن کی آندھی چلی۔
لیکن ان سب کے درمیان شاید دھرمیندر واحد اداکار ہیں جو ساٹھ سے اسی کی دہائی تک مسلسل ہٹ فلمیں دیتے رہے اور اپنا دبدبہ قائم رکھا۔
دھرمیندر کے کریئر کی میری پسندیدہ فلمیں 'انوپما' اور 'ستیہ کام' ہیں، اور دونوں فلمیں رشی کیش مکھرجی نے بنائیں۔
'ستیہ کام' (1969) میں آزاد ہندوستان کے ایک نوجوان کو پیش کیا گیا ہے جو سچائی کو سب سے اوپر مانتا ہے، سچائی کی راہ پر چلنے والا نوجوان (دھرمیندر) اتنا اصول پرست ہے کہ اپنی ہر شے داؤ پر لگا دیتا ہے۔
یہ حیرت کی بات ہے کہ کوئی کردار بیک وقت کشمکش، خفگی، محبت، خوف، ہمدردی اور عزت جیسے اتنے متضاد جذبات کیونکر پیدا کر سکتا ہے۔ رشی کیش مکھرجی بھی اسے اپنی اور دھرمیندر کی بہترین فلم مانتے تھے۔
'انوپما' میں وہ دل کو چھو لینے والے ایسے مصنف ہیں جو ایک ایسی لڑکی کے دل تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس نے سب کے لیے اپنے دل کے دروازے بند کر رکھے تھے۔
’سو جا بیٹا ورنہ گبر آ جائے گا‘: پانچ سال تک سینما میں چلنے والی ’شعلے‘ جو 50 برس بعد نئے اختتام کے ساتھ ریلیز ہو گی’شعلے‘ سے لے کر ’برفی‘ تک، بالی وڈ کی سپر ہٹ فلموں پر نقل کا الزام کیوں لگتا ہے؟ابتدا میں فلاپ قرار دی گئی فلم ’شعلے‘ جس کے رقص، رومانس اور کہانی کے مداح اسے بھولے نہیں بھول پاتے’میرے پاس ماں ہے‘: وہ فلم جس کی کہانی کے پیچھے بالی وڈ کی مشہور جوڑی کا دکھ چھپا ہے
جب وہ 'یا دل کی سنو دنیا والو، یا مجھ کو ابھی چپ رہنے دو' گاتے ہیں تو ان کی صدا اور ادا دل کی گہرائیوں تک کو چھو جاتی ہے۔ یا پھر 'آئیے آپ کی آنکھوں کے نام' جیسے نغموں میں مستی سے جھلکتا ان کا رومانی انداز آپ کو سرشار کیے بغیر نہیں رہتا۔
یہ وہ دور تھا جب ان کی فلمیں 'حقیقت'، 'دل نے پھر یاد کیا'، 'ممتا'، 'میرے ہم دم میرے دوست' وغیرہ آئیں، جن میں بمل رائے، رشی کیش مکھرجی اور چیتن آنند جیسے ہدایتکاروں نے انھیں نکھارا۔
پھر آیا 1970 کا عشرہ، جب دھرمیندر کا منفرد انداز ایکشن، رومان، مزاح کے ساتھ کمرشیل سنیما کو سب کچھ دیتا نظر آيا۔ 'جیون مرتیو'، 'سیتا اور گیتا'، 'چرس'، 'بلیک میل'، 'چپکے چپکے' اس کی چند مثالیں ہیں اور یہ سب کی سب ایک کے بعد ایک ہٹ رہیں۔
1975 میں فلم 'شعلے' آئی تو ویرو کا کردار انھیں شہرت کی انتہا پر لے گیا۔
چاہے پانی کی ٹنکی پر چڑھنے والا منظر ہو، جس میں 'سوسائڈ! پولیس کمِنگ!' والے مکالمے ہوں یا بسنتی کے ساتھ ٹانگے پر عشق بھرا سین، اس فلم نے دھرمیندر کے ستارے کو چار چاند لگا دیے۔
BBCدھرمیندر اپنے بیٹوں سنی دیول اور بابی دیول کے ساتھ'سب سے ہینڈسم'
دھرمیند کا ان کے زمانے میں دنیا کے ہینڈسم اور وجیہ ترین مردوں میں شمار ہوا۔
ان کے آئیڈل دلیپ کمار نے ایک تقریب میں کہا تھا کہ جب وہ خدا سے ملیں گے تو پوچھیں گے کہ انھیں دھرمیندر جیسا حسین کیوں نہ بنایا۔
دھرمیندر نے بی بی سی سے کہا تھا: 'لوگ کہتے ہیں تو شاید درست ہی ہوگا۔ ہیمین کہتے ہیں، یونانی دیوتا تک کہتے ہیں۔ میں تو اپنی خوبیوں میں بھی خامیاں تلاش کرتا رہتا ہوں کہ کہیں چاہنے والوں کا مقام نہ کھو دوں۔'
اگرچہ رقص کے معاملے میں ان کا ہنر گہنایا سا مانا جاتا تھا، لیکن 'جٹ یملا، پگلا دیوانہ' جیسے گانے پر ان کا رقص بہت مشہور ہوا۔
اسی گانے کے بارے میں انھوں نے کہا تھا: 'میں نے عوام کے سامنے ناچنے سے انکار کر دیا تھا، تو میرے اور ریکھا کے لیے کرین لگائی گئی۔ پھر میں ایسا کھل گیا کہ شرم چلی گئی۔ اور آپ کا دھرَم بے شرم ہو گیا۔'
BBCدھرمیندر اپنی دوسری اہلیہ ہیما مالنی اور بیٹی ایشا دیول کے ساتھہیما اور دھرم کی پریم کہانی
اسی زمانے میں فلم انڈسٹری کی خوبصورت ترین اداکارہ ہیما مالنی کے ساتھ ان کی محبت بھی پروان چڑھی اگرچہ دھرمیندر کی شادی پرکاش کور سے ہو چکی تھی۔
جب دھرمیندر نے 1980 میں 'ڈریم گرل' ہیما سے شادی کی، تو کافی تنازع کھڑا ہوا۔
ہیما مالنی کی سوانح 'ہیما مالنی: بیونڈ دی ڈریم گرل' میں رام کمل مکھرجی لکھتے ہیں: کہ 1974 میں جیتندر اور ہیما کے والدین نے ان کی شادی کا فیصلہ کر لیا تھا، مگر تب تک دھرمیندر ہیما کی زندگی میں آ چکے تھے۔ دھرمیندر کو خبر ملی تو وہ سیدھے مدراس پہنچ گئے جہاں شادی ہونی تھی۔ انھوں نے ہیما سے اکیلے بات کی، اور ان کی جیتندر سے شادی نہ ہو سکی۔'
بعد میں دھرمیندر پروڈیوسر بھی بنے اور اپنے بیٹوں سنی اور بوبی دیول کو 'وجیتا فلمز' کے بینر تلے متعارف کرایا۔
اپنی بیٹیوں ایشا اور اہانا کے فلموں میں آنے کے وہ حق میں نہیں تھے۔
ایک وقت ایسا آیا جب شہرت کے ساتھ ساتھ شراب نوشی نے ان کے کریئر کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا، جسے وہ خود بھی تسلیم کرتے ہیں۔
نوّے کے بعد دھرمیندر نے 'پاپی دیوتا'، 'ویرو دادا'، 'ڈاکو بھیرو سنگھ'، 'مہا شکتی شالی' جیسی بی گریڈ فلمیں کیں، جو ان کے پرستاروں کے لیے مایوس کن ثابت ہوئیں۔
راجیو وجےکر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ '1990 سے 2003 تک کا دور دھرمیندر کے کریئر کا زوال سمجھا جا سکتا ہے۔ 1999 میں کانتی شاہ کی 'مُنّی بائی' سے وہ پوری طرح بی گریڈ فلموں میں چلے گئے۔'
راجکمار سنتوشی لکھتے ہیں: 'میں ان کا فین ہوں، مگر ماننا پڑے گا کہ انھوں نے اپنے کرشمے کو کھو دیا اور سی گریڈ فلمیں کر کے اپنے پرستاروں کا دل توڑا۔ پچیس برس میں جو وقار کمایا تھا، اس پر دھچکا لگا۔ یہ افسوس ناک بات ہے۔'
'اداکاری میری محبوبہ ہے۔۔۔'
عمر کے ساتھ ان کی اداکاری نکھار کے بجائے زوال کا شکار ہو گئی۔
لندن میں ایک انٹرویو کے دوران دھرمیندر نے مجھ سے کہا تھا کہ 'اداکاری میری محبوبہ ہے۔ کبھی یہ روٹھ جاتی ہے، کبھی میں روٹھ جاتا ہوں، مگر میں نے اسے کبھی چھوڑا نہیں۔'
انھوں نے واقعی اداکاری کو کبھی نہیں چھوڑا۔ کبھی کبھار اپنی محبوبہ سے ملنے واپس آ جاتے اور اچھا کردار ملے تو وہی پرانا جادو جگا دیتے۔
'جانی غدّار' میں جب ان کے گروہ کے لوگ ان کی عمر پر شک کرتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں: 'اٹس ناٹ دی ایج، اٹس دی مائلیج' یعنی 'عمر نہیں، سفر دیکھو' یعنی قابلیت عمر سے نہیں ناپی جاتی۔
'لائف ان اے میٹرو' میں نَفیسہ علی کے ساتھ آخری عمر کے چند لمحے گزارنے والے عاشق کا کردار ہو یا 'رانی اور راکی کی پریم کہانی' میں یادداشت کھو بیٹھا بوڑھا عاشق، ان فلموں میں ان کی وہی پرانی طرز ادا جھلک آئی ہے۔
فلموں کے علاوہ انھوں نے سیاست میں بھی قدم رکھا۔ اٹل بہاری واجپئی کے کہنے پر بیكانیر سے لوک سبھا کا انتخاب لڑا اور جیتے، مگر وہ اسے اپنی بڑی بھول مانتے تھے۔
Getty Imagesدھرمیندر کو 2012 میں انڈیا کے گرانقدر شہری اعزاز پدم بھوشن سے نوازا گیااردو زبان سے محبت
اداکاری کے علاوہ اردو زبان اور شاعری سے دھرمیندر کو ہمیشہ محبت رہی۔
ایک بار جب ان سے اردو زبان سے عشق کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا:
'احسان مند ہوں زبان اردو تیرا/ تری زباں میں بیانِ احساسِ دل آ گیا'
دھرمیندر ایسے ہی جذباتی، رومانوی، شاعرانہ دل رکھنے والے ایکشن سٹار تھے۔
شہرت اور سٹارڈم پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا: 'ہوتی ہے تعریف اہمیت کی، لیکن انسانیت کی قدر ہوتی ہے۔ ترجیح نہ دے عہدے کو انسانیت پر، بندے پر خدا کی تب نظر ہوتی ہے'
ان کی اداکاری میں ایک سادگی، ایک لطافت تھی جو کبھی پردے پر نمایاں ہوئی، کبھی ہیمین کے ماسک کے پیچھے چھپ گئی، مگر دھرمیندر کی تلاش کبھی ختم نہیں ہوئی۔
جیسا کہ ان ہی کی فلم میں ایک مکالمہ ہے: 'کچھ پانے کی چاہ، کچھ اور بہتر کی تلاش۔۔۔ اسی چکر میں انسان اپنا سب کچھ کھو دیتا ہے جو اس کے پاس ہوتا ہے۔ تلاش کبھی ختم نہیں ہوتی، وقت ختم ہو جاتا ہے۔'
یہ بھی اتفاق ہے کہ دھرمیندر کے چاہنے والے انھیں آخری بار اسی سال دسمبر میں آنے والی ان کی فلم 'اکّیس' میں پردے پر شاید آخری بار دیکھ سکیں گے۔
’شعلے‘ سے لے کر ’برفی‘ تک، بالی وڈ کی سپر ہٹ فلموں پر نقل کا الزام کیوں لگتا ہے؟سلمان، شاہ رخ اور عامر ایک سٹیج پر: ’بالی وڈ کے فلمساز جو کام 35 برسوں میں نہ کر سکے، وہ امبانی نے کر دکھایا‘’سیکس کے لیے خود کو دستیاب رکھیں‘: انڈیا کی وہ فلم انڈسٹری جہاں اداکاروں کو کام کے لیے ’سمجھوتہ‘ کرنا پڑتا ہےابتدا میں فلاپ قرار دی گئی فلم ’شعلے‘ جس کے رقص، رومانس اور کہانی کے مداح اسے بھولے نہیں بھول پاتے’سو جا بیٹا ورنہ گبر آ جائے گا‘: پانچ سال تک سینما میں چلنے والی ’شعلے‘ جو 50 برس بعد نئے اختتام کے ساتھ ریلیز ہو گی