Getty Images
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر صادق آباد سے تعلق رکھنے والے محمد شاہد ایک رات کارخانے میں اپنی شفٹ مکمل کرنے کے بعد گھر جانے کے لیے بس سے اترے ہی تھے کہ چار نقاب پوش افراد نے انھیں اسلحے کے زور پر لوٹنے کے بعد ایک آٹو رکشہ پر رکھے صندوق میں بند کر دیا۔
چند گھنٹے بعد جب انھیں اس صندوق سے باہر نکالا گیا تو وہ کچے کے علاقے میں پہنچ چکے تھے جو ڈاکوؤں کا مسکن ہے۔
پاکستان کے تین صوبوں پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر دریائے سندھ کے کنارے واقع کچے کا علاقہ نوآبادیاتی دور سے ڈاکوؤں کی کمین گاہوں کا کام کرتا رہا ہے اور غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے مشہور ہے۔
پہلے اس علاقے کو اپنے مرکز کے طور پر استعمال کرنے والے ڈاکو پولیس کی جانب سے شہریوں کو ’ہنی ٹریپ‘ کر کے کچے میں بلانے اور تاوان کی غرض سے اغوا کی وارداتوں کے ذمہ دار قرار دیے جاتے تھے لیکن پولیس کے مطابق اب ان گروہوں کی جانب سے شہری علاقوں، بالخصوص ضلع رحیم یار خان اور راجن پور سے لوگوں کو اسلحے کے زور پر اغوا کرنے کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صادق آباد سے تعلق رکھنے والے سابق پولیس افسر اور وکیل عزیز اللہ کا کہنا تھا کہ ’کچے سے دور شہروں میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں اس لیے بڑھ گئی ہیں کہ پہلے لوگ ہنی ٹریپ ہوتے تھے مگر آگاہی مہم کے بعد ہنی ٹرہپ کے واقعات میں کمی آئی تاہم اب شہروں میں رہنے والے مجرموں کا گٹھ جوڑ کچے کے ڈاکوؤں سے ہو گیا ہے جس کی وجہ سے شہروں میں اغوا کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔‘
رحیم یار خان کے ضلعی پولیس افسر عرفان سموں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے ضلعے میں اغوا کی وارداتوں میں رواں سال اضافہ ہوا۔
عرفان سموں کے مطابق جہاں گذشتہ سال کچے کے ڈاکووں نے پانچ لوگوں کو اغوا کیا تو رواں سال 11 ماہ کے دوران 15 لوگ اغوا ہوئے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان سب کو پولیس نے بازیاب کروا لیا۔
تاہم ان اعداد و شمار پر اختلاف موجود ہے اور خود پنجاب پولیس کی جانب سے جاری کردہ سوشل میڈیا اعلامیوں کے مطابق صرف 18 اکتوبر 2025 کے بعد سے اب تک دس کارروائیوں میں کچے کے ڈاکوؤں سے تقریباً 15 مغویوں کو رہا کروانے کے دعوے کیے گئے ہیں۔
جنوبی پنجاب کے علاقوں میں اغوا کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی وجہ کیا ہے، اس میں مقامی پولیس کے کردار پرسوال کیوں اٹھ رہے ہیں اور کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف پولیس کی حکمت عملی کیا ہے؟ تاہم ان سوالوں کے جواب جاننے سے قبل محمد شاہد کے اغوا اور رہائی کی بقیہ کہانی جانتے ہیں۔
زندگی سے مایوسی اور ڈرامائی رہائی
شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’چار نقاب پوشوں نے میرا موبائل فون، نقدی چھینی اور مجھے مارنے لگے۔ پھر مجھے اسلحے کے زور پر زبردستی پکڑ کر قریب کھڑے رکشے پر رکھے صندوق میں بند کر دیا۔‘
’تقریباً دو گھنٹے رکشہ چلتا رہا۔ راستے میں وہ ایک جگہ رکے اور وہاں سے مجھے اغوا کرنے والے لوگ واپس لوٹ گئے، مجھے کسی اور کی تحویل میں دے دیا گیا۔‘
شاید کے مطابق ’مجھے جنگل میں کافی دیر پیدل چلایا گیا پھر کشتی میں سوار کرا دیا، دریا پار کرنے کے بعد مجھے راجن پور کے علاقے غیر کراچی کچہ میں لایا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے زنجیروں میں جکڑ کر ایک غار کے اندر رکھا گیا جس کے اردگرد گھنا جنگل تھا۔ خوف کی وجہ سے نیند بھی نہیں آتی تھی۔‘
شاہد نے بتایا کہ ’وہاں 20 کے قریب ڈاکو تھے جو سرائیکی اور سندھی زبان میں بات کیا کرتے تھے۔‘
’مجھ سے میرے بہنوئی کا فون نمبر مانگا گیا جو میں نے فوری بتا دیا مگر گھر والوں سے ڈاکو کیا بات کرتے تھے یہ مجھے پتا نہیں چلتا تھا۔‘
شاہد کا کہنا تھا کہ ’میں 25 دن ڈاکوؤں کی قید میں رہا۔ میرے ہوتے ہوئے تین اور لوگوں کو لایا گیا اور پیسے لے کر چھوڑا گیا مگر وہ مجھے نہیں چھوڑ رہے تھے۔‘
کچے کے ڈاکو سے 30 برس قبل ہونے والی انکشافات سے بھری ملاقاتکچے کے سفاک ڈاکو گینگ: ’انھوں نے قرآن چوما اور بچوں کو بغیر تاوان لیے واپس کر دیا‘ڈیرہ غازی خان کا سفاک ’لاڈی گینگ‘ اپنی کارروائیاں کیونکر جاری رکھے ہوئے ہےعاطی لاہوریا: وہ گینگسٹر جس کا تعاقب گوجرانوالہ پولیس کو سربیا کے جنگلوں تک لے گیا
شاہد کے مطابق ’ڈاکو روزانہ مجھ سے مورچوں پر کام کرواتے تھے۔ الاؤ جلانے کے لیے لکڑیاں بھی کٹواتے تھے۔ بہت گندا اور کم کھانا دیتے تھے۔ میں سوچتا تھا کسی طرح بھاگ جاؤں مگر وہاں موجود راکٹ لانچرز، ہیوی مشین گنز، جی تھری جیسا اسلحہ اور زنجیریں میرا حوصلہ چھین لیتی تھیں۔‘
’میں زندگی سے مایوس ہو رہا تھا۔ مجھے اپنے گھر والوں پر غصہ آتا تھا کہ کسی طرح پیسے مانگ تانگ کے اس جہنم سے میری جان چھڑوا لیں۔‘
شاہد کا کہنا ہے کہ ایک رات ایک ڈاکو نے انھیں بتایا کہ ’آج رات تمہیں چھوڑ دیں گے۔‘
’میں بے یقینی کی کیفیت میں اسے دیکھنے لگا۔ اسی رات مجھے ایک بندے کے حوالے کیا گیا اور رات دس بجے رحیم یار خان کے تھانہ بھونگ لایا گیا۔‘
شاہد کے مطابق ’میں نے پولیس والوں سے کہا مجھے فوراً گھر پہنچا دو۔ جس پر انھوں نے کہا صبح آپ کو گھر چھوڑ آئیں گے کیونکہ رات کو باہر حالات ٹھیک نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’صبح میرے بہنوئی دیگر رشتہ داروں کے ہمراہ تھانہ بھونگ پہنچے۔ ایس ایچ او رانا رمضان اور پولیس والوں کو پھولوں کے ہار پہنائے گئے اور ان کے حق میں نعرے بازی ہوئی اور پھر میں گھر آ گیا۔‘
’دس لاکھ روپے ایس ایچ او کے بتائے بندے کو دیے اور مغوی واپس آ گیا‘
رہائی کے وقت محمد شاہد کا خیال تھا کہ یہ ان کی خوش قسمتی ہے لیکن دراصل ان کی رہائی بھی تاوان کی ادائیگی کے بعد ہی عمل میں آئی جو ان کے بہنوئی تنویر احمد نے دیا۔ یہی نہیں بلکہ تنویر کا الزام ہے کہ اس سارے عمل میں مقامی پولیس بھی ملوث رہی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تنویر احمد کا کہنا تھا کہ ان کے برادرِ نسبتی کے اغوا کے کچھ دن بعد کچے کے اندھڑ گینگ کے سرغنہ تنویر اندھڑ نے ان سے رابطہ کیا اور شاہد کی رہائی کے بدلے 50 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی دھمکی دی کہ ’اگر پیسے نہ دیے تو شاہد کو قتل کر دیا جائے گا۔‘
تنویر کے مطابق اس صورتحال میں جب انھوں نے پولیس سے رابطہ کیا تو ’پولیس ایس ایچ او رانا رمضان نے مجھے ہدایت دی کہ ڈاکوؤں کو پیسے نہیں دینے صرف رابطے میں رکھنا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ڈاکو مجھ سے بار بار رقم کا مطالبہ کرتے رہے اور میں رانا رمضان کے کہنے پر ٹالتا رہا۔ پھر ایک دن ڈاکو کی کال آئی کہ اگلے دو دن تک پیسے نہ دیے تو آپ کا بندہ ہم قتل کر دیں گے۔
تنویر احمد کہتے ہیں کہ ’ہم گھر والے ڈر گئے۔ اپنے رشتہ داروں سے پیسے ادھار پکڑے، حتیٰ کہ بھیک تک بھی مانگی اور دس لاکھ جمع ہو گئے۔‘
ان کا دعویٰ ہے کہ جب انھوں نے پیسے جمع ہونے کے متعلق ’رانا رمضان کو بتایا تو انھوں نے کہا کہ دس لاکھ لے کے بھونگ چلے جاؤ، فلاں بندہ آپ سے پیسے لے جائے گا اور آپ کا بندہ مل جائے گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم پیسے لے کر بھونگ پہنچ گئے۔ ایک بندہ آیا اسے دس لاکھ دیے اور واپس آ گئے۔ ہمیں بتایا گیا کہ آج رات آپ کا بندہ مل جائے گا۔‘
تنویر احمد کا دعویٰ ہے کہ ’رات کو دس بجے مجھے پولیس سٹیشن سے کال آئی کہ آپ کو مبارک ہو۔ رات ہم نے آپ کا بندہ ڈاکووں سے چھڑا لیا۔ ڈاکو شاہد کو کہیں اور منقل کر رہے تھے جس پر ہمیں مخبرِ خاص نے اطلاع دی اور ہم نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے آپ کا بندہ بازیاب کر لیا۔‘
ان کے مطابق اس کال میں انھیں ہدایت دی گئی کہ ’کل صبح کیفے سجاول کی مٹھائی اور پھولوں کے ہار لے کر آ جانا، میڈیا کی موجودگی میں شاہد کو آپ کے حوالے کیا جائے گا۔‘
تنویر کہتے ہیں کہ ’ہم لوگ صبح بھونگ تھانے پہنچے جہاں فوٹو سیشن ہوا، ایس ایچ او کو ہار پہنائے، اہل علاقہ نے مبارکباد دی اور پنجاب پولیس زندہ باد کے نعرے لگاتے گھر آ گئے۔‘
بی بی سی نے ان الزامات کے حوالے سے ایس ایچ او رانا رمضان سے بات کی تو انھوں نے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’جب یہ پھنسے ہوئے تھے تو منتیں کرتے تھے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ (تنویر احمد اور شاہد) ’اب جھوٹ بول رہے ہیں۔ میں نے مغوی کے اہلخانہ سے پیسے لے کر اندھڑ گینگ کو نہیں دیے بلکہ انھوں نے کسی پرائیویٹ آدمی کے ذریعے دس لاکھ روپے دیے ہیں۔‘
بی بی سی کے اس سوال کے اگر ایسا ہوا تو انھوں نے کس بنیاد پر مغوی کی بازیابی کا کریڈٹ لیا؟ رانا رمضان نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔
AFPفائل فوٹو
محمد شاہد کا کہنا ہے کہ انھوں نے ’اس ڈر سے تھانیدار کے خلاف شکایت نہیں کی کہ کہیں انھیں دوبارہ اغوا نہ کر لیا جائے۔‘
’میں ایک طاقتور ایس ایچ او کے خلاف شکایت نہیں کر سکتا کیونکہ مجھے یہاں رہنا ہے۔ میں دوسری بار کچے کے جنگل میں اغوا ہو کر نہیں جا سکتا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’خدا ایسی اذیت میں کسی دشمن کو بھی مبتلا نہ کرے جس اذیت سے میں اغوا کے دوران گزرا۔ کبھی کبھی تو میں رات کو بھی ڈر کے اٹھ بیٹھتا ہوں کہیں ڈاکو تو نہیں آ گئے۔‘
ان کا مطالبہ ہے کہ ’پولیس خود اپنے اندر خود احتسابی کے عمل کے تحت ایکشن لے اور میرے پیسے واپس دلوائے۔‘
’20 پولیس افسران کو کچے کے ڈاکوؤں سے تعلق کی بنیاد پر ہٹایا گیا‘
اس بارے میں جب رحیم یار خان کے ضلعی پولیس افسر عرفان سموں سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ ان کے چارج سنبھالنے سے پہلے کا ہے اور اگر مدعی کی شکایت سامنے آئی تو ضرور ایکشن لیا جائے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھوں نے چارج سنبھالنے کے بعد مذکورہ ایس ایچ او سمیت متعدد دوسرے تھانیداروں کو کچے اور اس سے ملحقہ تھانوں کی سربراہی سے ہٹایا۔
عرفان سموں کے مطابق ’پولیس کے اندر جزا سزا کا شفاف عمل ہے۔ 20 سے زیادہ پولیس افسران کو کچے کے ڈاکوؤں سے تعلق کی بنیاد پر ہٹایا گیا اور ان کے خلاف تحقیقات چل رہی ہیں۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’رانا رمضان کے خلاف ایک افغان شہری سے نو لاکھ روپے لے کر رہا کرنے کے الزام میں بھی ایک ایف آئی آر درج کی گئی اور اب وہ خود گرفتار ہیں۔‘
عرفان سموں کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھوں نے شہری علاقوں میں موجود کچے کے ڈاکوؤں کے مبینہ سہولت کاروں کے خلاف بھی کارروائیاں کی ہیں۔ ’67 سہولت کار گرفتار کیے گئے ہیں اور نہ صرف شہروں اور شہر سے باہر گشت کو بڑھایا گیا بلکہ ڈرونز کے ذریعے نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔‘
اس بارے میں سابق پولیس افسر اور وکیل عزیز اللہ کا کہنا ہے ’جب تک ڈاکوؤں کے ساتھ تعلق رکھنے والے پولیس اہلکاروں کو سخت سزائیں نہیں دی جاتیں، یہ گٹھ جوڑ نہیں توڑا جا سکتا۔‘
عاطی لاہوریا: وہ گینگسٹر جس کا تعاقب گوجرانوالہ پولیس کو سربیا کے جنگلوں تک لے گیاڈیرہ غازی خان کا سفاک ’لاڈی گینگ‘ اپنی کارروائیاں کیونکر جاری رکھے ہوئے ہےکچے کے ڈاکو سے 30 برس قبل ہونے والی انکشافات سے بھری ملاقاتکچے کے سفاک ڈاکو گینگ: ’انھوں نے قرآن چوما اور بچوں کو بغیر تاوان لیے واپس کر دیا‘کچے کا علاقہ کیا ہے، ڈاکو یہاں کیوں چھپتے اور کارروائی کرتے ہیں؟