’طالبان کی تعریف اور حملوں کی دھمکیاں‘: امریکہ میں گرفتار ہونے والے تین افغان شہری کون ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Dec 04, 2025

امریکہ میں گزشتہ تقریباً ایک ہفتے کے دوران اب تک تین افغان شہریوں کو پُرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا جا چُکا ہے۔

امریکہ میں ان گرفتار ہونے والے تین افغان شہریوں میں رحمان اللہ، جان شاہ صافی اور محمد داؤد الوکزئی شامل ہیں۔

منگل کے روز امریکی محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے جان شاہ صافی نامی ایک افغان شہری کو گرفتار کیا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُنھوں نے عراق اور شام کی دولتِ اسلامیہ کی ایک شاخ خراسان کی مدد کی اور اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے والد کو بھی ہتھیار فراہم کیے جو افغانستان میں ایک مسلح گروہ کے کمانڈر ہیں۔

ہوم لینڈ سکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹین نُوم کے مطابق جان شاہ صافی کو بدھ کے روز ریاست ورجینیا کے علاقے وینزبورو میں امریکی امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ ایجنسی کی ہوم لینڈ سکیورٹی انویسٹی گیشنز ڈویژن کے اہلکاروں نے گرفتار کیا۔

ایجنسی کا کہنا ہے کہ صافی ایک غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے ’دہشت گرد‘ ہیں، جو 8 ستمبر 2021 کو بائیڈن انتظامیہ کے ’آپریشن ویلکم فرینڈز‘ پروگرام کے تحت امریکہ پہنچے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے عارضی تحفظ کے لیے درخواست دی تھی، مگر یہ درخواست اس وقت منسوخ ہوگئی جب سیکریٹری کرسٹین نُوم نے افغان شہریوں کے لیے عارضی تحفظ کا پروگرام ختم کر دیا۔

ہوم لینڈ سکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹین نُوم نے کہا کہ ’آج ہمارے بہادر افسران نے جان شاہ صافی کو گرفتار کیا، جو ایک ایسا دہشت گرد ہے جس نے نام نہاد دولتِ اسلامیہ کو مدد فراہم کی۔ یہ ’دہشت گرد‘ ہمارے دارالحکومت سے چند میل کے فاصلے پر گرفتار ہوا، جہاں چند روز قبل ایک اور افغان ’دہشت گرد‘ نے ہمارے بہادر نیشنل گارڈز کے اہلکاروں سارہ بیکستروم اور اینڈریو وولف کو گولی ماری تھی۔‘

سیکریٹری کرسٹین نُوم کے مطابق ’بائیڈن انتظامیہ نے امریکی تاریخ کے بدترین قومی سلامتی کے بحرانوں میں سے ایک کو جنم دیا۔ بائیڈن نے تقریباً ایک لاکھ 90 ہزار ایسے افغان شہریوں کو مُلک میں آنے کی اجازت دی کہ جن کے پاس قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے مکمل دستاویزات نہیں تھے۔ان افغان شہریوں کی شناخت اس وقت سامنے آئی کہ جب وہ امریکی سرزمین پر پہنچ چکے تھے۔‘

انھوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’صدر ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری سے اس بحران سے نمٹنے کے لیے اقدامات پر کام کر رہے ہیں تاکہ مُلک سے اس مسئلے کو ختم کیا جا سکے۔‘

محمد داؤد الوکزئی

دوسری جانب امریکی حکام نے ٹیکساس میں ایک اور افغان شہری کو گرفتار کیا ہے جن پر ’بم بنانے اور خودکشی حملوں کی دھمکیوں‘ کے الزامات لگائے گئے ہیں اور ان پر فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔

امریکی محکمہ انصاف نے منگل دو دسمبر کو ایک بیان میں کہا کہ ٹیکساس کے فورٹ ورتھ علاقے کے 30 سالہ افغان شہری محمد داؤد الوکزئی نے 23 نومبر کو ٹک ٹاک، ایکس، اور فیس بک پر پوسٹ دھمکی آمیز پیغامات ویڈیوز کی صورت میں شئیر کیے۔

امریکی محکمہ انصاف کے مطابق اس ویڈیو میں الوکزئی ’طالبان‘ کی تعریف کرتے اور امریکی شہریوں کے خلاف ’خودکش حملے‘ کرنے کی دھمکیاں دیتے دیکھائی اور سُنائی دے رہے ہیں۔

ایف بی آئی کے ڈلاس ڈویژن کے ڈائریکٹر جوزف روتھراک نے کہا کہ ’آن لائن ویڈیو میں دھمکی آمیز مواد کی شکایات پر ایف بی آئی کی جوائنٹ ٹیررزم ٹاسک فورس نے اس شخص کو اس سے پہلے گرفتار کر لیا کہ وہ کوئی پُرتشدد کارروائی کرتا۔‘

Reutersرحمان اللہ لکنوال افغانستان میں سی آئی اے کے لیے کام کرتے رہے ہیںرحمان اللہ لکنوال

امریکہ میں پروسیکیوٹرز نے گذشتہ بدھ کو واشنٹگٹن ڈی سی میں فائرنگ کر کے ایک نیشنل گارڈ کو ہلاک اور دوسرے کو زخمی کرنے والے افغان حملہ آور کے خلاف باقاعدہ طور پر قتل کے الزامات عائد کر دیے ہیں۔

چارج شیٹ کے مطابق رحمان اللہ نے فائرنگ کرتے ہوئے ’اللہُ اکبر‘ کا نعرہ لگایا اور گارڈ کی فائرنگ سے زخمی ہونے کے باوجود بھی اپنی گن دوبارہ لوڈ کی۔

بی بی سی کے امریکی پارٹنر ادارے سی بی ایس کے مطابق سنہ 2021 میں افغانستان سے امریکہ آنے والے رحمان اللہ لکنوال نے ہسپتال کے بستر سے عدالت میں ورچوئل حاضری کے دوران صحتِ جرم سے انکار کیا ہے۔

رحمان اللہ کے خلاف چارج شیٹ میں فرسٹ ڈگری قتل اور قتل کرنے کی نیت سے حملہ کرنے کے الزامات شامل ہیں۔

اس حملے میں نیشنل گارڈ کی 20 سالہ اہلکار سارہ بیکسٹارم ہلاک ہوگئی تھیں جبکہ 24 سالہ اینڈریو ولف زخمی ہوئے تھے۔

عدالت میں چارج شیٹ کے ساتھ تصاویر اور کیمرے کی فوٹیج بھی جمع کروائی گئی ہے۔

عدالتی دستاویز کے مطابق ایک سپروائزر نے فائرنگ کی آواز سُنی اور دونوں اہلکاروں کو زمین پر گرتے ہوئے دیکھا۔

عدالتی دستاویز میں مزید لکھا ہے کہ سپروائزر نے 'فوراً اپنی پستول نکالی' اور حملہ آور کا مقابلہ کیا۔ فائرنگ کے تبادلے میں حملہ آور زخمی ہو کر زمین پر گِر گیا۔

خیال رہے گذشتہ جمعرات کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سروس کے ارکان کے ساتھ تھینکس گیونگ کال کے دوران 20 سالہ سارہ بیکسٹارم کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ انتہائی قابلِ احترام، نوجوان، شاندار شخصیت کی مالک تھیں۔۔ جو اب ہمارے ساتھ نہیں رہیں۔‘

وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے امریکہ میں بی بی سی کے پارٹنر ادارے ’سی بی ایس‘ کو بتایا تھا کہ صدر ٹرمپ نے سارہ کے اہلخانہ سے ٹیلی فون پر بات بھی کی ہے۔

اس سے قبل امریکہ میں حکام نے وائٹ ہاؤس کے قریب نیشنل گارڈز کے دو اہلکاروں کو فائرنگ کر کے شدید زخمی کرنے والے 29 سالہ افغان شہری رحمان اللہ لکنوال کی تصویر جاری کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ حملہ آور ماضی میں افغانستان میں امریکی خفیہ ایجنسی ’سی آئی اے‘ کے لیے کام کرتا رہا ہے۔

سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان ریٹکلیف نے امریکہ میں بی بی سی کے پارٹنر ادارے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ مشتبہ شوٹر (رحمان اللہ) کو امریکہ آنے کی اجازت اس لیے دی گئی تھی کیونکہ وہ ماضی میں امریکی حکومت کے لیے کام کرتے رہے تھے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ستمبر 2021 میں شوٹر کو ماضی میں اس کے امریکہ، بشمول سی آئی اے، کے لیے کیے گئے کام کی وجہ سے امریکہ لایا گیا تھا۔

جان ریٹکلیف نے کہا کہ ’افغانستان سے بائیڈن کے تباہ کن انخلا کے تناظر میں، بائیڈن انتظامیہ نے مبینہ شوٹر کو ستمبر2021 میں امریکہ لانے کا یہ جواز پیش کیا کہ اُس نے امریکی حکومت، بشمول سی آئی اے کے ساتھ، قندھار میں ایک پارٹنر فورس کے رُکن کے طور پر کام کیا تھا۔‘

ایف بی آئی حکام نے فائرنگ کے واقعے میں زخمی ہونے والی نیشنل گارڈ کے دو اہلکاروں کی شناخت 20 سالہ سارہ بیکسٹارم اور 24 سالہ اینڈریو وولف کے طور پر کی تھی۔

اس حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے ایف بی آئی ڈائریکٹر کیش پٹیل نے کہا کہ وہ حملہ آور کی رہائش گاہ تک بھی پہنچ چکے ہیں جہاں سے ’بہت سے الیکٹرانک آلات‘ بشمول موبائل فونز، لیب ٹاپس اور آئی پیڈز کو قبضے میں لیا گیا اور ان کے تجزیے کا عمل جاری ہے۔

Reutersنیشنل گارڈ کے دو اہلکاروں کی شناخت 20 سالہ سارہ بیکسٹارم (دائیں) اور 24 سالہ اینڈریو وولف (بائیں) کے طور پر کی گئی

انھوں نے کہا کہ امریکی حکام شواہد کی روشنی میں امریکہ اور دنیا بھر میں تفتیش کی غرض سے ہر مقام تک جائیں گے۔

ایک پریس کانفرنس کے دوران یو ایس اٹارنی جینین پیرو نے بتایا کہ حملہ آور نے کارروائی کے لیے 257 سمتھ اینڈ ویسن ریوالور کا استعمال کیا۔ اس حملے کا محرک کیا تھا؟ حکام کا کہنا ہے کہ یہ قبل از وقت ہو گا اور اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

انھوں نے کہا کہ حملہ آور واشنگٹن میں اپنی اہلیہ اور ’ہمارے خیال میں‘ پانچ بچوں کے ہمراہ رہائش پذیر تھا۔

اس سے قبل امریکہ کے محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی نے مشتبہ حملہ آور کی شناخت 29 سالہ افغان شہری رحمان اللہ لکنوال کے طور پر کی۔

بی بی سی کے امریکہ میں پارٹنر ادارے 'سی بی ایس نیوز' کے مطابق مشتبہ حملہ آور نیشنل گارڈ کے ایک اہلکاروں کی جوابی کارروائی کے بعد زخمی حالت میں حراست میں لیے گئے اور اس وقت وہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

امریکی حکام کے مطابق 29 سالہ مشتبہ حملہ آور رحمان اللہ ستمبر 2021 میں افغانستان سے امریکہ آئے تھے۔

محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹی نوم نے ’ایکس‘ پر کہا کہ مشتبہ حملہ آور 8 ستمبر 2021 کو افغان شہریوں کے لیے مختص بائیڈن دور کے پروگرام ’آپریشن الائیز ویلکم‘ کے تحت امریکا لائے گئے تھے۔

Reutersامریکی حکام حملہ آور کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کر رہے ہیں

ہوم لینڈ سکیورٹی کے مطابق اس پروگرام کے تحت ہزاروں ’انویٹیڈ‘ (وہ افراد جنھیں امریکہ لانے سے قبل اُن کا پس منظر اور سکیورٹی کی کلیئرنس نہیں کی گئی تھی) افغان شہریوں کو افغانستان سے امریکہ لایا گیا تھا۔

صدر ٹرمپنے بھی اپنے ایک ویڈیو پیغام میں مشتبہ حملہ آور کو ’ایک غیر ملکی جو افغانستان ، زمین پر جہنم، سے ہمارے ملک میں داخل ہوا‘ قرار دیا۔ ٹرمپ نے اسے ’دہشت گردی کا واقعہ‘ قرار دیا۔

سی بی ایس نیوز کو محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کے ایک اہلکار نے بتایا کہ مشتبہ شخص کو ’انسانی ہمدردی کی بنیادوں‘ پر امریکہ لایا گیا تھا۔ ’آپریشن الائیز ویلکم‘ وہ اہم قانونی طریقہ کار تھا جس کے تحت بائیڈن انتظامیہ نے اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سینکڑوں افغان شہریوں کے ملک سے انخلا کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

ان میں سے زیادہ تر افراد وہ تھے جنھوں نے گذشتہ 20 سال کے دوران افغانستان میں امریکہ اور اس کی افواج کی کسی نہ کسی صورت میں مدد کی تھی اور طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد انھیں ممکنہ خطرات لاحق تھے۔

سی بی ایس نیوز کے مطابق رحمان اللہ نے سنہ 2024 میں امریکہ میں پناہ کے لیے درخواست دائر کی جسے منظور کر لیا گیا اور فی الحال اُن کے گرین کارڈ کی درخواستزیر التوا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ کے پروگرام کے تحت امریکہ لائے گئے بہت سے افغان شہریوں کو خصوصی امیگریشن ویزوں کا اجرا کیا تھا کیونکہ یہ وہ افراد تھے جنھوں نے گذشتہ 20 برسوں کے دوران افغانستان میں موجود امریکہ کی افواج کے ساتھ کام کیا گیا تھا۔

Getty Imagesرحمان اللہ ستمبر 2021 میں افغانستان سے امریکہ آئے تھے

اسی طرح کچھ افغان شہریوں کو عارضی انسانی ہمدردی سٹیٹس (جسے پیرول کہا جاتا ہے) پر امریکہ لایا گیا جبکہ 8000 افراد کو ایک اور پروگرام ’ٹیمپریری پروٹیکٹڈ سٹیٹس‘ پر امریکہ لایا گیا، اس پرواگرام کو موجودہ صدر ٹرمپ نے رواں برس کے آغاز پر ختم کر دیا تھا۔

ڈی سی میٹروپولیٹن پولیس کے افسر جیف گیرول نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ’تنہا حملہ آور‘ نے فائرآرم (بندوق) اٹھایا اور ماس ٹرانزٹ سٹیشن پر گشت کرنے والے نیشنل گارڈ کے تین اہلکاروں پر حملہ کر دیا۔

جمعرات کی صبح ایک پریس کانفرنس میں، ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کیش پٹیل نے لکنوال کے امریکی افواج سے تعلق کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا امریکہ منتقل ہونے سے پہلے ’افغانستان میں شراکت دار فورسز کے ساتھ تعلق تھا۔‘

ایک اہلکار نے سی بی ایس کو بتایا کہ لکنوال نے 2024 میں سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی اور ان کی درخواست اس سال کے شروع میں منظور کر لی گئی تھی۔

سی بی ایس نیوز کو ذرائع نے بتایا کہ حملہ آور کی بندوق میں گولیوں کے چار راؤنڈ تھے اور ایک خاتون افسر اس کے حملے کا پہلا نشانہ بنیں۔ سی بی ایس نیوز کے مطابق خاتون اہلکار کو دو گولیاں لگیں اور وہ فی الفور گر گئی اور حملہ آور نے خاتون کی بندوق اٹھائی اور اس سے فائرنگ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

یاد رہے کہ یہ واقعہ پیش آنے کے بعد امریکہ کے شہریت اور امیگریشن سروسز کے محکمے نے ’سکیورٹی اور جانچ کے پروٹوکولز‘ کے جائزے تک افغان شہریوں کی امیگریشن کی تمام درخواستوں پر کارروائی معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ایکس پر جاری ایک بیان میں محکمے کا کہنا ہے کہ اپنے ملک اور امریکی عوام کی حفاظت اُن کا واحد مشن ہے اور اسی مقصد کے تحت یہ فیصلہ لیا گیا۔

جب اجمل قصاب نے اپنی شناخت سے لے کر ممبئی حملوں کی تفصیلات تک سے پردہ ہٹایاپشاور میں ایف سی ہیڈکوارٹرز پر حملہ: تین شدت پسند یہاں تک پہنچنے میں کامیاب کیسے ہوئے؟ٹرمپ کے حامی چارلی کرک کا قتل: پولیس 33 گھنٹوں میں ملزم تک کیسے پہنچی؟عمران خان پر قاتلانہ حملے میں ملوث مبینہ حملہ آور نوید احمد کون ہیں؟’آپریشن الائز ویلکم‘: افغانستان سے امریکی انخلا کے دوران افغان پناہ گزین کی جانچ پڑتال کیسے کی گئی؟جب امریکہ میں لوگ خلائی مخلوق کے حملے سے بچنے کے لیے گھروں سے بھاگ نکلے
مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More