35 سال کی عمر میں 25 ہزار پاؤنڈ سالانہ تنخواہ: ہندوستان کو ریل و نہری نظام دینے والے گورنر جنرل جنھوں نے قلعہ لاہور پر برطانوی پرچم لہرایا

بی بی سی اردو  |  Dec 12, 2025

Getty Imagesلارڈ ڈلہوزی کو محض 35 برس کی عمر میں ہندوستان کا گورنر جنرل تعینات کیا گیا تھا

سنہ 1848 میں ہندوستان کے گورنر جنرل بننے والے لارڈ ڈلہوزی نے تین بڑے کام سرانجام دیے اور ان میں سب سے بڑا کارنامہ برٹش انڈیا کی حدود کو بڑی حد تک وسعت دینا تھا۔

لارڈ ڈلہوزی نے اپنی ’ڈاکٹرائن آف لیپس‘ پالیسی کے تحت ہندوستان کی بہت سی شاہی ریاستوں کو دھوکے یا طاقت کے ذریعے برطانوی راج میں شامل کر کے ایک بڑی سلطنت کی بنیاد ڈالی، تاہم اس کے ساتھ ساتھ ڈلہوزی کا ایک اور کام غیر منقسم ہندوستان میں ریلوے، سڑکوں، مواصلات اور نہروں کا جال بچھانا بھی تھا۔

ڈلہوزی کے سوانح نگار ولیم ولسن ہنٹر لکھتے ہیں کہ ’ہندوستان کا گورنر جنرل بننے سے پہلے ڈلہوزی کو تین ذمہ داریاں، سرحدوں کی توسیع، ہندوستان کا اتحاد، اور ہندوستان کے معاشی وسائل کا استحصال، سونپی گئی تھیں۔‘

ان کے مطابق ’ڈلہوزی ان ذمہ داریوں کو پوری طرح نبھاتے رہے لیکن ہندوستان کے عوام کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ڈلہوزی کی انھی پالیسیوں نے اُن کو یہاں کے لوگوں سے دور کر دیا۔‘

معروف مؤرخ عمار فاروقی نے اپنی کتاب ’گورنرز آف ایمپائر‘ میں ڈلہوزی کو ایک متنازع گورنر جنرل قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ ’بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ڈلہوزی کے اقدامات نے ایسے حالات پیدا کیے جس کے نتیجے میں 1857 میں پہلی جنگ آزادی کا آغاز ہوا۔‘

ہندوستان کے سب سے کم عمر گورنر جنرلGetty Imagesسکاٹ لینڈ میں ڈلہوزی کا گھر جسے ’ڈلہوزی کیسل‘ کہا جاتا ہے

ڈلہوزی 22 اپریل 1812 کو پیدا ہوئے تھے۔ ابھی وہ محض 35 برس کے تھے جب انھیں ہندوستان کا گورنر جنرل مقرر کر دیا گیا، یوں انھیں ہندوستانی سرزمین پر قدم رکھنے والے سب سے کم عمر گورنر جنرل بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔

مصنف ایل جے ٹروٹر اپنی کتاب ’لائف آف مارکوئس آف ڈلہوزی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’رابرٹ کلائیو اور ڈلہوزی میں فرق یہ تھا کہ جب کلائیو بنگال کے حکمران بنے تو وہ کم عمر تھے جبکہ ڈلہوزی کو ہندوستان سے واقفیت نہ ہونے یا تجربے کے بغیر براہ راست ہندوستان کے اعلیٰ ترین عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔‘

ان کے مطابق ’وہ ایسے وقت میں ہندوستان میں تعینات ہوئے جب ان کا سیاسی کیریئر برطانیہ میں ابھی شروع ہی ہوا تھا۔‘

تاہم ڈلہوزی نے اس تقرری کے لیے لابنگ نہیں کی تھی۔ درحقیقت اس وقت کے وزیراعظم لارڈ جان رسل برطانیہ کے تیزی سے بدلتے سیاسی منظر نامے میں نئے اتحاد بنانے کے خواہاں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ڈلہوزی کے طاقتور دوست ان کے پیچھے کھڑے ہوں، اس لیے انھوں نے ڈلہوزی کو اس عہدے کی پیشکش کی۔

انھوں نے پہلے ڈلہوزی کو اپنی کابینہ میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی جسے ڈلہوزی نے مسترد کر دیا تھا۔

ڈلہوزی کا تعلق سکاٹ لینڈ کے ایک معزز خاندان سے تھا۔ ان کا شاندار گھر (ڈلہوزی کیسل) ایڈنبرگ سے تھوڑے فاصلے پر واقع تھا۔ اب اسے ایک لگژری ہوٹل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

اُن کے والد نے سنہ 1808 میں فوج میں میجر جنرل کے طور پر خدمات انجام دیں تھیں۔ سنہ 1828 میں انھیں ہندوستان میں برطانوی فوج کا کمانڈر انچیف مقرر کیا گیا۔ مستعفی ہونے سے قبل وہ دو سال تک اس عہدے پر رہے تھے۔

25 ہزار پاؤنڈز کی تنخواہ پر تعیناتیGetty Imagesلارڈ ڈلہوزی (1812-1860)

سنہ 1847 میں جب گورنر جنرل ہارڈنگ کی اپنے عہدے پر مدت مکمل ہو گئی تو برطانوی وزیر اعظم رسل نے ڈلہوزی کو اس عہدے پر تعینات کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔

چونکہ ڈلہوزی کو اس وقت کوئی خاص انتظامی تجربہ نہیں تھا، لہذا اُس وقت عام خیال یہ تھا کہ ڈلہوزی کو اس عہدے پر تعینات کر کے رسل اس عہدے کی حیثیت کو کم کر رہے ہیں۔

ڈلہوزی نے ہندوستان کے گورنر جنرل کا عہدہ اس شرط پر قبول کیا کہ اُن سے اُن کے سیاسی وعدوں کو تبدیل کرنے کے لیے نہیں کہا جائے گا۔

اگست 1847 میں ملکہ وکٹوریہ نے اُن کی تقرری کے پروانے پر دستخط کیے تھے۔

فاروقی لکھتے ہیں کہ ’ڈلہوزی کو اس بات کا پوری طرح علم تھا کہ برطانیہ سے طویل غیر حاضری ملک (برطانیہ) میں اُن کے سیاسی کیریئر کو متاثر کر سکتی ہے۔‘

ان کے مطابق ’ڈلہوزی کا گورنر جنرل کا عہدہ قبول کرنے کے پیچھے ایک وجہ 25,000 پاؤنڈ کی تنخواہ بھی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے ان کے خاندان کو درپیش تمام مالی مسائل حل ہو جائیں گے۔‘

12 جنوری 1848 کو لارڈ ڈلہوزی اپنی اہلیہ اور پرائیویٹ سیکریٹری کورٹنی کے ساتھ کلکتہ کی بندرگاہ پر اترے۔

ولیم ولسن ہنٹر لکھتے ہیں کہ ’گورنمنٹ ہاؤس میں رہنے والے اس کم عمر شخص نے اپنے اعتماد اور بے پناہ عزت دینے کی عادت کے باعث بہت متاثر کیا۔ ڈلہوزی 35 سال کے ہونے کے باوجود اپنی عمر سے کہیں کم نظر آتے تھے۔ ان کی پیشانی چوڑی اور آواز سریلی اور لہجہ متاثر کن تھا۔‘

اقدامات کے طویل مدتی نتائج

ڈلہوزی صبح چھ بجے اٹھتے اور اگلے دو گھنٹے تک بیڈ پر بیٹھے بیٹھے سے ہی دفتر کا کام کرتے۔

کیپٹن ٹروٹر لکھتے ہیں کہ ’صبح آٹھ بجے وہ ناشتہ کرتے جس دوران وہ ہندوستانی اخبارات پر بھی نظر ڈالتے۔ ساڑھے نو بجے وہ دفتر کے کام کے لیے اپنی میز پر جاتے تو پھر شام کے ساڑھے پانچ بجے تک اس پر براجمان رہ کر مسلسل کام کرتے۔‘

’اپنا لنچ بھی ڈلہوزی اپنے دفتر کی میز پر کرتے۔ وہ آٹھ گھنٹے تک بلا توقف کام کرتے۔ وہ کم کھاتے پیتے تاہم جو کچھ وہ کھاتے وہ پرتکلف اور شاہانہ ہوتا تھا۔‘

دوسری جانب جہاں ڈلہوزی کے زیادہ تر پیشرو بیشتر زمینوں کو اپنے ہندوستانی دوست بادشاہوں کو تحفتاً دے چکے تھے وہیں ڈلہوزی نے اس پالیسی میں بنیادی تبدیلی کی اور زیادہ سے زیادہ زمین کو برطانوی راج میں شامل کرنے کا بیڑا اٹھایا۔

مارک بینس جونز اپنی کتاب ’دی وائسرائے آف انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ اس پالیسی کے تحت وسطی ہندوستان اور اودھ کی کچھ شاہی ریاستوں کو برطانوی راج میں شامل کیا گیا اور اس نے پورے ہندوستان کی سیاست میں ہلچل مچا دی، جس کے نتائج ڈلہوزی کے جانشینوں کو بھگتنا پڑے۔‘

پنجاب کا حصول

غیر منقسم ہندوستان میں اقتدار سنبھالنے کے ایک سال کے اندر ڈلہوزی نے پنجاب کو برطانوی سلطنت میں شامل کر لیا۔

13 جنوری 1849 کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج نے چلیاں والا کی لڑائی میں سکھ فوج کو شکست دی۔ اس کے بعد 21 فروری کو گجرات کی جنگ میں فتح حاصل کی۔

جب ڈلہوزی کو یہ خبر ملی کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے دلیپ سنگھ نے انگریزوں کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے تو وہ بہت خوش ہوئے۔

اپنے ایک دوست کو لکھے خط میں ڈلہوزی نے لکھا کہ ’اب میں معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا ہوں۔ مہاراجہ نے جو معاہدہ ہمارے ساتھ کیا ہے اس کے مطابق کوہ نور ہیرا ملکہ برطانیہ کو بھیجا جائے گا۔‘

’ہم نے لاہور کے قلعے پر برطانوی پرچم لہرا دیا ہے اور پنجاب کا ایک ایک انچ اب ہندوستان میں برطانوی سلطنت کا حصہ ہے۔‘

’مائی لارڈ، مجھے زیادہ سخت زبان استعمالکرنی چاہیے‘: محمد علی جناح کا 1500 روپے ماہانہ کی ملازمت سے انکار اور جج سے مکالمہجاسوسی سے جنگل میں موت تک: برطانوی جاسوس جس کی زندگی جیمز بانڈ کے کردار کی تخلیق کی بنیاد بنیبرطانوی وائسرائے کے دلی میں قتل کی ’سازش‘ جس کا سراغ لاہور کے لارنس گارڈن سے ملاسبھاش چندر بوس کی ’آزاد ہند فوج‘ کے افسران کا کورٹ مارشل جو انگریز حکومت کو بہت مہنگا پڑا

اسی خط میں انھوں نے گویا اپنی تعریف میں لکھا کہ ’ایسا ہر روز نہیں ہوتا کہ برطانوی حکومت کا کوئی اہلکار 40 لاکھ کی آبادی کو برطانوی سلطنت میں ضم کر سکے اور مغل بادشاہوں کا تاریخی ہیرا اپنی ملکہ کو پیش کر دے۔ یہ کام میں نے کر دیا ہے۔ یہ مت سمجھو کہ میں بلاوجہ جشن منا رہا ہوں۔‘

جب مہاراجہ دلیپ سنگھ معاہدے پر دستخط کر رہے تھےتب ہی ڈلہوزی نے دلیپ سنگھ کو پنجاب سے ساڑھے چھ سو میل دور فتح گڑھ قلعے بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔

دوسری جانب دلیپ سنگھ کو اپنی ماں جندن کور سے الگ کر دیا گیا اور ایک انگریز جوڑے کی حفاظت میں رکھا گیا۔

بعد میں دلیپ سنگھ نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا اور انھیں انگلستان بھیج دیا گیا۔

برما پر قبضہGetty Imagesمہاراجہ رنجیت سنگھ کا پانچ سالہ بیٹا دلیپ سنگھ

پنجاب کے بعد ڈلہوزی کو اگلی کامیابی برما میں ملی۔ اپریل 1852 میں برطانوی افواج نے برما کے شہر رنگون پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔

دو ماہ بعد انگریزوں نے ایک اور اہم شہر پیگو پر قبضہ کر لیا۔ کنگ بانگ سے اُن کی سلطنت سے چھین لی گئی اور تمام زمین کو برطانوی علاقہ بنا دیا گیا جسے لوئر برما کا نام دیا گیا۔

برمی جنگ کے دوران ڈلہوزی نے اپنی فوج کے حوصلے بلند کرنے کے لیے مون سون کی شدید بارشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کلکتہ سے برما تک مارچ کیا۔ تیس سال بعد 1885 میں شمالی برما پر بھی انگریزوں نے قبضہ کر لیا۔

کنگ بونگ خاندان کے آخری حکمران کو گرفتار کر کے انھیں ہندوستان کے رتناگیری میں جلاوطن کر دیا گیا جہاں سنہ 1916 میں ان کی موت واقع ہو گئی۔

پانچ سال بعد جھانسی میں بھی ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی جب راج گنگادھر راؤ چل بسے۔ اس وقت ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔

جان ولسن اپنی کتاب ’India Conquered‘ میں لکھتے ہیں کہ ’کمپنی نے جھانسی کے راجہ گنگادھر راؤ کی اہلیہ رانی لکشمی بائی کو 60 ہزار روپے کی پنشن دی لیکن انھیں ان کے لے پالک بیٹے سمیت اپنے شوہر کے قلعے سے نکال دیا گیا۔ بعد میں وہ ایک باغی رہنما بن کر ابھریں۔‘

’دوسری جانب کمپنی نےان کے لے پالک بیٹے کو جب پینشن دینے انکار کر دیا تو انھوں نے 1857 میں کانپور میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی قیادت کی۔‘

اودھ کا برطانوی سلطنت کا حصہ بنناGetty Imagesمہارانی لکشمی بائی

سنہ 1856 میں ڈلہوزی کا دور ختم ہونے سے کچھ دیر پہلے انھوں نے اودھ کو برطانوی سلطنت میں ضم کرنے کا کام بھی مکمل کر لیا۔

امر فاروقی لکھتے ہیں ’شجاع الدولہ کی موت کے بعد آٹھ سال تک انگریزوں نے اودھ پر بالواسطہ کنٹرول حاصل کیا جس کی خود مختاری تقریباً ختم ہو چکی تھی۔‘

’18ویں صدی کے آخر تک اودھ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک نمائندہ (ریزیڈینٹ) متوازی طاقت کے مرکز کے طور پر ابھر چکا تھا جو نواب کے دربار سے زیادہ طاقتور ہو گیا۔ ڈلہوزی نے نواب کی باقی ماندہ طاقت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

’جنوری 1849 میں برطانوی رہائشی سلیمان نے اطلاع دی کہ ریاست کا انتظام مکمل طور پر گر چکا ہے۔ 1855 میں برطانوی کابینہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے اودھ کے الحاق کرنے کا فیصلہ کیا۔ فروری 1856 میں اودھ کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے ضم کر لیا اور نواب واجد علی شاہ کو کلکتہ جلاوطن کر دیا گیا۔ مکمل ہونے پر ڈلہوزی نے اپنے فرائض نئے مقرر کردہ گورنر جنرل لارڈ کیننگ کے حوالے کر دیے۔‘

جارحانہ حکمت عملیGetty Imagesنواب واجد علی شاہ لکھنؤ

ڈلہوزی کو تمام برطانوی گورنر جنرلوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ جارحانہ سمجھا جاتا ہے۔

اپنے دور میں انھوں نے تقریباً ڈھائی لاکھ مربع میل کا علاقہ برطانوی سلطنت میں شامل کیا۔

ولیم ولسن ہنٹر نے لکھا کہ ’1847 میں ڈلہوزی نے ہندوستان پہنچنے پر اس کے جس نقشے کا مطالعہ کیا وہ اپنے جانشین کے حوالے کیے گئے نقشے سے خاصا مختلف تھا۔‘

’اس دوران پنجاب، سکم، کیچھر اور برما کا ایک حصہ، اور سندھ کا ایک حصہ برطانوی سلطنت میں شامل ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ، اودھ، سنبل پور، جیت پور، اودے پور، جھانسی، برار اور خاندیش کا ایک حصہ بھی ان کے پاس آ چکا تھا۔‘

ڈلہوزی کو وسعت پسندی کے رجحان کے باعث تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے تاہم ہندوستان میں سڑکوں، ریلوے، نہروں، آبی گزرگاہوں، ٹیلی گراف، پوسٹل سسٹم، تعلیم اور تجارت کی توسیع کا سہرا بھی انھیں دیا جاتا ہے۔

مارک بینس جونز لکھتے ہیں کہ ’یہ ڈلہوزی کا دور تھا جب ہندوستان میں پہلی ریل چلی تھی۔ ڈلہوزی نے ہندوستان کے لوگوں کو تعلیم دی،، آبپاشی کا نظام متعارف کروایا اور ہندوستان کو ڈاک اور ٹیلی گراف کی خدمات فراہم کیں۔‘

ان کے مطابق ’لیکن ان کامیابیوں کے باوجود ڈلہوزی کو وہاں زیادہ پسند نہیں کیا گیا تاہم ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی خودمختار اور متکبر تھے جس کے باعث وہ غیر مقبول رہے۔‘

زندگی کے آخری چار سال اور 48 برس کی عمر میں موت

ہندوستان سے رخصت ہوتے وقت لارڈ ڈلہوزی کو ٹانگ کی ہڈیوں سے متعلق ایک سنگین بیماری لاحق ہو گئی۔

جب ان کے جانشین لارڈ کیننگ کلکتہ پہنچے تو ڈلہوزی نے گورنر جنرل کی رہائش گاہ پر بیساکھیوں کا سہارا لے کر ان کا استقبال کیا۔

6 مارچ 1856 کو لارڈ ڈلہوزی کلکتہ سے اپنے وطن کے لیے روانہ ہوئے۔ وہ واپسی کے سفر میں غیر آرام دہ جہاز ’کیراڈاک‘پر سخت بے آرام رہے۔

انھوں نے قاہرہ سے اپنے دوست جارج کوپر کو خط لکھا جس میں کاراڈاک جیسے پرانے جہاز کو انھیں لینے کے لیے بھیجنے پر حکومت کی بے حسی کا شکوہ کیا۔

انھوں نے یہ بھی شکایت کی کہ ’نہ تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز اور نہ ہی ہزمیجسٹی کی حکومت نے ہندوستان چھوڑنے سے پہلے میرے لیے شکریہ کا ایک لفظ بھی کہا۔‘

کوپر ڈلہوزی کے والد کے اے ڈی سی (ماتحت) رہ چکے تھے اور ان سے 26 سال بڑے تھے۔

لندن پہنچ کر ڈلہوزی کو خبر ملی کہ حکومت نے انھیں پانچ ہزار پاؤنڈ سالانہ پنشن دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس خبر سے ان کا مزاج قدرے بہتر ہوا۔ ڈلہوزی نے اپنی زندگی کے آخری چار سال سیاسی غیر یقینی میں گزارے۔

امر فاروقی لکھتے ہیں کہ ’گورنر جنرل کی حیثیت سے ڈلہوزی کو ہندوستان پر منظم طریقے سے حکومت کرنے کا جنون تھا۔ اس جنون نے انھیں ایک انتہائی توسیع پسند اور مداخلت پسند بنا دیا تھا۔‘

ان کے مطابق ’ڈلہوزی کو بھی اپنے کام میں مشغول رہنے کی عادت تھی۔ ہندوستان کے منتظم کے طور پر دن میں لمبے وقت تک کام کرنے سے ان کا جسم تھک جاتا تھا اور یہ ان کی جلد موت کی وجہ ہو سکتی ہے۔‘

لارڈ ڈلہوزی دسمبر 1860 میں محض 48 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔

’مائی لارڈ، مجھے زیادہ سخت زبان استعمالکرنی چاہیے‘: محمد علی جناح کا 1500 روپے ماہانہ کی ملازمت سے انکار اور جج سے مکالمہسبھاش چندر بوس کی ’آزاد ہند فوج‘ کے افسران کا کورٹ مارشل جو انگریز حکومت کو بہت مہنگا پڑابرطانوی وائسرائے کے دلی میں قتل کی ’سازش‘ جس کا سراغ لاہور کے لارنس گارڈن سے ملاجاسوسی سے جنگل میں موت تک: برطانوی جاسوس جس کی زندگی جیمز بانڈ کے کردار کی تخلیق کی بنیاد بنی نپولین: افریقہ کے دور افتادہ جزیرے سینٹ ہیلینا پر فرانسیسی جرنیل کے آخری ایام کیسے گزرےراجیو گاندھی کی ہلاکت: جب انڈیا کے سب سے کم عمر وزیراعظم ایک خودکش حملے کا نشانہ بنے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More