اعضاء کا عطیہ: وہ بچی جسے گولی لگی لیکن اب وہ دوسروں میں زندہ ہے

بی بی سی اردو  |  Jan 31, 2023

BBCرولی اندھی گولی کا شکار ہوئی

گذشتہ سال انڈیا میں ایک چھ سالہ بچی کی گولی لگنے سے ہلاکت کے بعد اس کے والدین نے وہ فیصلہ جو بہت کم لوگ کرتے ہیں، اس کے اعضا عطیہ کرنے کا فیصلہ۔

اگرچہ اس سال ممکن ہے کہ انڈیا دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے طور پر چین کو پیچھے چھوڑ دے لیکن اس کے باوجود انڈیا اعضا عطیہ کرنے والے ممالک میں 62 ویں نمبر پر ہے۔ 

رولی پرجاپتی گذشتہ اپریل میں اس گھر میں سکون سے سو رہی تھی جس میں وہ اپنے پانچ بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ دہلی کے مضافات میں رہتی تھیں۔ ساتھ والے کمرے میں اس کے والدین رات کے کھانے کی تیاری کر رہے تھے جب انھوں نے ایک زوردار دھماکے اور چیخ کی آواز سنی۔

جب وہ کمرے میں گئے تو رولی نے بے ہوش ہونے سے پہلے اپنے والدین کو پکارا۔

تب انھوں نے اس کے دائیں کان سے خون نکلتا ہوا دیکھا اور انھیں احساس ہوا کہ کچھ خوفناک ہوا ہے۔ وہ ایک اندھی گولی کا نشانہ بن چکی تھی۔

BBCرولی کے چار بہن بہن ہیں

کئی دنوں کی اذیت کے بعد اس کے والدین نے ایک فیصلہ کیا جو انڈیا میں پہلے کم ہی لوگوں نے کیا تھا، اس کے اعضا عطیہ کرنے کا فیصلہ۔ رولی نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (AIIMS) میں اعضا عطیہ کرنے والی سب سے کم عمر فرد بن گئی۔

ان کے والد ہرنارائن پرجاپتی نے وضاحت کی کہ بچے کے اعضا عطیہ کرنے کا فیصلہ آسان  نہیں ہوتا۔

انھوں نے کہا ’مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا کروں۔ میں رات بھر سوچتا رہا۔ میں نے ڈاکٹر سے کہا کہ ہمیں سوچنے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

’آخرکار ہم نے یہ سوچ کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا کہ اگر میری بیٹی کے اعضا کسی کی جان بچا سکتے ہیں، تو ہمیں یہ کرنا چاہیے۔‘

’ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری بیٹی اعضا حاصل کرنے والے نوجوانوں میں زندہ ہے، ہماری بیٹی اسی طرح زندہ رہے گی۔‘

رولی کے دونوں گردے 14 سالہ دیو اپادھیائے میں ٹرانسپلانٹ کیے گئے، جن کے والدین نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ’ہمارے لیے ایک معجزہ‘ تھا کہ ہمیں اعضا مل گئے۔‘

BBCدیو جنھیں رولی کے گردے دیے گئے

وہ ٹرانسپلانٹ کے لیے چار سال سے انتظار کر رہے تھے اور کہا کہ ان کی ’زندگی بدل گئی ہے‘ کیونکہ رولی کے گردوں نے دیو کو ’نئی زندگی‘ دی تھی۔

رولی کا جگر چھ سالہ بچے کو دیا گیا، اس کے دل کے والوز ایک اور چار سال کی عمر کے بچوں کے لیے، اور اس کے قرنیہ نے 35 اور 71 سال کی عمر کے دو بالغوں کی بینائی بحال کرنے میں مدد کی۔

رولی کی موت نکولس گرین کی کہانی سے مماثلت رکھتی ہے۔

ایک سات سالہ بچہ ستمبر 1994 میں اپنے خاندان کے ساتھ اٹلی میں چھٹیاں گزار رہا تھا، وہ جس کار میں سفر کر رہا تھا اسے مشتبہ سمجھ کر غلطی سے اس پر گولی چلا دی گئی۔

سنہ 1993 میں، نکولس کو گولی مارنے سے ایک سال پہلے، اٹلی میں ہر دس لاکھ میں 6.2 افراد عضو عطیہ کرتے تھے جبکہ 2006 تک یہ تعداد دس لاکھ میں 20 تک پہنچ گئی۔

یہ جزوی طور پر 1999 میں ملک کے آپٹ آؤٹ سسٹم کی طرف جانے کی وجہ سے تھا، جو تمام بالغوں کو ممکنہ عطیہ دہندگان بناتا ہے۔ لیکن عام لوگوں کے ذہنوں میں عطیہ دے کر کسی زندگی بچانے کا خیال لانا شاید سب سے اہم عنصر تھا۔

BBCڈاکٹر گپتا ہی تھے جنھوں نے پہلی بار رولی کے والدین سے اعضا عطیہ کرنے کے آپشن کے بارے میں بات کی

نکولس کا اثر تو واضح ہے امید ہے کہ انڈیا میں بھی ایسی ہی تبدیلی آئے گی۔

اس میں سب سے آگے ڈاکٹر دیپک گپتا ہیں، جنھوں نے اعضا عطیہ کرنے والی کمیونٹی کے ریگ اور دیگر ماہرین سے ملنے کے لیے روم کا سفر کیا ہے۔

یہ ڈاکٹر گپتا ہی تھے جنھوں نے پہلی بار رولی کے والدین سے اعضا عطیہ کرنے کے آپشن کے بارے میں بات کی۔ انھوں نے، ملک کے بہت سے لوگوں کی طرح، اس کے بارے میں کبھی نہیں سنا تھا۔

انھوں نے رولی کے والد پرجاپتی جو ان پڑھ ہیں انھیں نکولس کی مثال دی اور اعضا عطیہ کرنے کے ممکنہ اثرات کے بارے میں بتایا۔

لانسیٹ نیورولوجی کمیشن کے مطابق انڈیا میں ہر تین منٹ میں ایک شخص سر کی چوٹ سے مر جاتا ہے اور اس طرح، جیسا کہ ڈاکٹر گپتا کہتے ہیں ’عطیہ تلاش کرنے والے افراد کے لیے بہت زیادہ امکانات موجود ہیں۔‘

انڈیا جس کی آبادی 1.4 ارب  سے زیادہ ہے  وہاں سنہ 2000 سے اب تک ہر سال اوسطاً 700 سے 800 کے درمیان لوگ اعضا عطیہ کرتے ہیں۔

ڈاکٹر گپتا نے ایک سروے کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ مذہب اور خاندان کے بوڑھے افراد کے رویے جیسے عوامل عطیہ کرنے کی حوصلہ شکنی کر سکتے ہیں۔

لیکن گذشتہ اپریل میں رولی کی موت کے بعد سے، دہلی کے ایمس ہسپتال میں پچھلے پانچ سال میں مجموعی طور پر زیادہ اعضا عطیہ کیے گئے ہیں۔

نیشنل آرگن اینڈ ٹشو ٹرانسپلانٹ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں 2022 میں 846 عطیات دیے گئے جو پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔ ڈاکٹر گپتا اسے ایک ’ٹرننگ پوائنٹ‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا ’میں کافی پراعتماد ہوں، میں ایک نیورو سرجن ہوں اور اتنا اعتماد میری رگوں اور خون میں رہتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم سب تبدیلی کی صلاحیت کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ میں سمندر میں صرف ایک چھوٹا سا قطرہ ہوں جو لوگوں کے لیے تبدیلی لانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

ریگ اب 94 برس کے ہیں وہ لاس اینجلس سے اٹلی جا کر ان لوگوں سے ملے جن کو نکولس کے اعضا عطیہ کیے گئے۔ اس سفر میں ان کی ملاقات دو خواتین سے ہوئی جن کی زندگی اعضا کے عطیے سے بدلی۔

شانا پیریسیلا کا بھائی ڈیوڈ مارچ 2013 میں ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے اور ان کا دل اینا آئیکوئنٹا میں ٹرانسپلانٹ کیا گیا تھا۔

آپریشن کے نو سال بعد، اینا نے اپنے ڈونر کے خاندان کو تلاش کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کا شانا کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ بن گیا جس کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ وہ ان کی بہن جیسی ہیں۔

شانا، جنھوں نے فونڈی سے روم تک 140 کلومیٹر کا سفر طے کیا ہے۔ ان کا کہنا کہ ایک ایسے ’عظیم آدمی‘ سے ملنا ایک خواب تھا جو ’سب کے لیے ایک مثال‘ تھے۔

اینا کا کہنا تھا ’یہ اس شخص کے لیے آسان نہیں ہے جسے دل دیا جاتا ہے کیونکہ آپ بہت کچھ سوچتے ہیں اور آپ کو برا بھی لگتا ہے کیونکہ دوسری طرف بہت زیادہ درد ہوتا ہے۔ لیکن آپ کی طرف بہت زیادہ خوشی ہے، یہ ایک ساتھ دو مختلف جذبات ہیں۔‘

’میں واقعی خوش قسمت ہوں کہ ان کا خاندان مجھ سے مل کر بہت خوش تھا اور ان کے لیے، یہ سب سے بڑا سرپرائز اور سب سے بڑا تحفہ ہے۔‘

’ان کی زندگی کا سب سے بڑا تحفہ مجھ سے ملنا تھا اور میرے لیے صرف ٹھیک ہونا اور ان کے ساتھ رہنا، یہ میرا شکریہ ہے، لیکن شکریہ کبھی بھی کافی نہیں ہوتا۔‘

’زندگی حاصل کرنے کے بدلے کچھ بھی کافی نہیں ہوگا۔

BBCریگ اب 94 برس کے ہیں وہ لاس اینجلس سے اٹلی جا کر ان لوگوں سے ملے جن کو نکولس کے اعضا عطیہ کیے گئےڈونر ڈیٹا

سپین کے بڑے ہسپتالوں میں ٹرانسپلانٹ کوآرڈینیٹر کے طور پر تربیت یافتہ کل وقتی ڈاکٹروں کی موجودگی کی وجہ سے سپین نے کئی سال سے اعضا کے عطیہ کرنے میں رہنما کردار ادا کیا ہے۔

میڈرڈ کے گریگوریو ماران یونیورسٹی ہسپتال میں ٹرانسپلانٹیشن کے ڈائریکٹر جوز لوئس ایسکلانٹے کہتے ہیں ’اگر لوگ شامل نہ ہو تو ٹرانسپلانٹ کرنا ممکن نہیں ہے۔‘

سنہ 2021 میں دو دہائیوں میں پہلی بار امریکہ سپین کو پیچھے چھوڑ کر اعضا کے عطیات کے لیے عالمی رہنما بن گیا، جس کی ایک وجہ اوپیئڈ کی وبا کے دوران 100,000 سے زیادہ افراد کی موت ہے۔

اٹلی عالمی سطح پر نویں جبکہ برطانیہ 13ویں نمبر پر ہے۔ مئی 2020 میں، انگلینڈ نے آپٹ آؤٹ سسٹم  اپنایا جس کے تحت تمام بالغ افراد اعضا عطیہ کرنے والے بن جاتے ہیں۔

سکاٹ لینڈ کی جانب سے آٹومیٹک ڈونیشن نظام اپنانے کے بعد دو ماہ میں تقریباً 300  افراد نے  اعضا عطیہ کیے۔ ویلز نے 2015 میں یہ نظام متعارف کرایا تھا۔

ادھر روم کا دورہ کرنے کے بعد، ریگ نے میسینا کا سفر کیا جہاں ان کی ملاقات 24 سالہ نکولس سے ہوئی، جو ماریا پیا پیڈالا کے بیٹا تھے۔ 29 سال قبل جب انھیں نکولس کا جگر ملا تو وہ کوما میں تھیں۔

ریگ کہتے ہیں کہ وہ اس معاملے پر بات کرنا تبھی چھوڑ یں گے جب وہ مر جائیں گے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں 94 سال کا ہوں اس لیے جب میں نے یہ کام شروع کیا تو میں کافی بوڑھا ہو چکا تھا۔‘

’مجھے لگتا ہے کہ اب مجھے اپنے گلے کو آرام دینا چاہیے لیکن صرف بات کرنے سے آپ کسی کی جان بچا سکتے ہیں، یہ سوچ ہر روز مجھے حوصلہ دیتی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More