نظامِ شمسی میں نئے دمدار ستارے کی آمد، دوبارہ 50 ہزار سال بعد نظر آئے گا

بی بی سی اردو  |  Feb 01, 2023

ایک نایاب سبز رنگ کا کومیٹ یا دمدار ستارہ ہزاروں برس بعد ہمارے نظامِ شمسی کے دورے پر ہے اور نصف کُرّہ شمالی میں یکم فروری کو یہ ممکنہ طور پر برہنہ آنکھ سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ کومیٹ 50 ہزار برس میں پہلی بار زمین کے قریب سے گزرے گا اور شاید ایک مہینے تک یہ اسی کے آس پاس رہے۔

ناسا حکام کا کہنا ہے کہ یہ برفیلا کومیٹ پہلی مارچ 2022 میں دیکھا گیا تھا جب یہ سیارہ مشتری کے مدار کے قریب تھا۔

ایک دستی دوربین سے یہ سبز رنگ کی ایک چھوٹی سی چمکتی ہوئی چیز کی طرح نظر آئے گا۔

ناسا کی سائنسدان ڈاکٹر سیٹفنی میلم نے کہا کہ ’ہم اس میں کچھ مالیکیولز کی موجودگی یا عدم موجودگی کا پتہ لگانا چاہتے ہیں، مثلاً پانی، کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ، میتھین وغیرہ۔‘

اس کومیٹ کی زمرد جیسی سبز چمک اس میں موجود کیمیائی مادوں کا پتہ دیتی ہے، یہ اس میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ سے سورج کی روشنی کے ٹکرانے کا نتیجہ ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ یکم فروری کو زمین کے قریب ترین ہو گا۔

ناسا نے اپنے ایک بلاگ میں کہا کہ ’کومیٹس کی پیشگوئی کرنا بے حد مشکل ہے پر اگر یہ اپنی روشنی میں اضافے کا یہی رجحان برقرار رکھتا ہے تو اسے دیکھنا آسان ہو گا۔‘

’یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تاریک آسمان تلے برہنہ آنکھ سے بھی دیکھا جا سکے۔‘

اس کومیٹ کا نام سی 2022 ای تھری (زیڈ ٹی ایف) ہے اور یہ 12 جنوری کو سورج کے قریب ترین تھا اور یکم فروری کو زمین کے قریب ترین ہو گا۔

دی پلینٹری سوسائٹی کے مطابق اس وقت یہ زمین سے صرف چار کروڑ 20 لاکھ کلومیٹر دور ہو گا۔

’مٹی و برف کے گولے‘

کومیٹس برف، مٹی اور پتھر کی بنی ہوئی بڑی گیندوں کی طرح ہوتے ہیں اور یہ ہمارے نظامِ شمسی کے بیرونی کنارے سے باہر موجود برفانی مواد کے ایک چھلّے سے آتے ہیں جسے اوورٹ کلاؤڈ کہا جاتا ہے۔

کومیٹس کا مرکز پتھر، برف اور پانی پر مبنی ہوتا ہے اور ان کے گرد برف اور مٹی پر مبنی ایک بیرونی فضا ہوتی ہے جسے کوما کہا جاتا ہے۔ جب یہ سورج کے قریب پہنچتے ہیں تو سورج کی شعاعوں کی وجہ سے ان سے گیس اور مٹی کی ایک لہر نکلتی ہے جو اسے ایک دھوئیں جیسی دم فراہم کرتی ہے۔ اسی لیے انھیں اردو میں دمدار ستارہ بھی کہا جاتا ہے حالانکہ یہ ستارے نہیں ہوتے۔

نظامِ شمسی میں موجود کئی اجسام کی کششِ ثقل انھیں اوورٹ کلاؤڈ سے کھینچ کر یہاں لے آتی ہے اور جیسے جیسے یہ سورج کے قریب پہنچتے ہیں ان کی چمک میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ ہر سال دنیا بھر میں موجود رصدگاہیں ایک درجن کے قریب کومیٹس دریافت کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ہماری اپنی کہکشاں کے مرکز میں واقع بلیک ہول کی پہلی تصویر جاری کر دی گئی

خلائی مخلوق کے ساتھ جانے کے خواہشمند 39 افراد نے ’جنت کے دروازے‘ پر خودکشی کر لی

اس سبز کومیٹ کو اس کا نام کیسے ملا؟

امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں قائم زوئیکی ٹرانزیئنٹ فیسلٹی نے یہ کومیٹ دریافت کیا تھا اس لیے اس کا نام سی 2022 ای تھری (زیڈ ٹی ایف) ہے۔

شاید آپ نے دیکھا ہو کہ چند دیگر کومیٹس کے نام میں بھی زیڈ ٹی ایف ہو، ایسا اس لیے ہے کیونکہ وہ بھی انہی رصدگاہوں نے دریافت کیے تھے۔

یہ کومیٹ سورج کا ایک چکر لگانے میں تقریباً 50 ہزار سال لیتا ہے چنانچہ دی پلینٹری سوسائٹی کے مطابق ’یہ وہ موقع ہے جو ہماری زندگیوں میں صرف ایک مرتبہ آئے گا۔‘

Getty Imagesیہ کومیٹ زیڈ ٹی ایف نہیں لیکن عمومی طور پر گرمائش حاصل کرنے کے بعد کومیٹس کی ایسی ہی دم بن جاتی ہےاسے کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟

دی پلینٹری سوسائٹی کے مطابق نصف کُرّہ شمالی میں موجود افراد اگر ٹیلی سکوپ کے بغیر یہ دیکھیں گے تو انھیں یہ ’آسمان میں ایک مدھم اور سبز دھبے کی طرح‘ نظر آئے گا جبکہ ٹیلی سکوپ رکھنے والے افراد اس کی خوبصورت دم دیکھ سکیں گے۔

ناسا کا کہنا ہے کہ اب چونکہ کومیٹ شمال مغرب کی جانب جا رہا ہے تو نصف کُرّہ شمالی میں رہنے والے لوگوں کو یہ صبح کے آسمان میں دکھائی دے گا۔

اگر تو آپ بھی اس کومیٹ کا نظارہ کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ آبادی اور مصنوعی روشنیوں سے دور کسی جگہ کا انتخاب کریں۔

ناسا کا منصوبہ ہے کہ وہ جیمز ویب خلائی دوربین کے ذریعے اس کومیٹ کا مشاہدہ کریں گے اور اس سے ممکنہ طور پر نظامِ شمسی کی ابتدا کے متعلق اہم معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔

مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More