گھر میں وہ چار چیزیں جن کو صاف نہ کرنا بیماری کو دعوت دینے کے مترادف ہے

بی بی سی اردو  |  Mar 18, 2023

Getty Images

ہمارے بچپن میں ملکہ ترنم میڈمنور جہاں کی آواز میں ’میرا گھر میری جنت وہ میرا آشیاں‘ اور ایسے ہی بے شمار نغمے ریڈیو پر نشر ہوا کرتے تھے اور گھروں میں موجود خواتین اپنے گھر سے محبت میں سرشاریہ نغمے سنتے ہوئے اور بھی جوش و محبت سے گھر کی صفائی میں جان لگا دیتی تھیں۔

گھر کی یومیہ صفائی کے علاوہ موسم کے تیور بدلنےیا تہواروں پر تو دیواروں اور چھتوں پر لگے جالے اتارنے سے لے کر پردوں اور قالینوں کی دھلائی تک سب صفائی کی لپیٹ میں آتا تھا۔

گھروں کی جھاڑ پونچھ اور صفائی کے لیے جی جان سے مگن ہوجانے والا ایسا ماحول کسی مخصوص دور یا زمانے تک محدود نہیں بلکہ آج تک بیشتر گھرانوں کے مکینوں کی ترجیحات میں اپنے گھر کی صفائی شامل ہوتی ہے اور اس کا مقصد ہوتا ہے کہ گھر نہ صرف چمکتا رہے بلکہ اس کی فضا اور ماحول آلودگی سے پاک ہو جائے جہاں بچے اور بڑے ارام وسکون کے ساتھصحت مند زندگی گزار سکیں۔

گھر کو صاف رکھنے کے لیے بعض گھروں میں روزانہ صفائی معمول ہوتی ہے جبکہ بعض افراد ہفتہ وار تفصیلیجھاڑ پونچھکو ترجیح دیتے ہیں۔

امریکہ کے نیشنل کلیننگ انسٹی ٹیوٹ کے ایک سروے کے مطابق 70 فیصد لوگ سالانہ اپنے گھروں کی تفصیلی صفائی کرتے ہیں۔

بہت سے لوگ حفظان صحت کو مد نظررکھتے ہوئے صفائی کے لیے سب سے اہم جگہ باورچی خانے یا کچن کو تصور کرتے ہیں جبکہ بیشتر افراد باتھ روم کی صفائی بہت باریک بینی سے کرتے ہیں۔ اس کے قالین یا فرش پر بچھی چٹائیاں، ٹیبل پر بچھے میٹ وغیرہ کو جراثیم، پھپوندی، بیکٹیریا اور کیڑے مکوڑوں کی آماجگاہ جان کر ان کی صفائی کو کافی سمجھتے ہیں۔

لیکن ہم آپ کو یہاں ان چار چیزوں کے بارے میں بتاتے ہیں جو صفائی کے دوران تو شاید آپ کی توجہ حاصل نہیں کر پاتیں لیکن ان میں چھپے جراثیم اس قدر ہوتے ہیں جو خاموشی سے صحت کو متاثر کر جاتے ہیں۔

Getty Imagesسپنج کو ہفتے میں کم از کم ایک بار کلورین یا بلیچ سے دھویا جائے تاکہ بیکٹیریا کی افزائش نہ ہو برتن صاف کرنے والے سپنج میں باتھ روم سے زیادہ جراثیم ہو سکتے ہیں

باورچی خانے میں برتن دھونے اور سلیب صاف کرنے کے لیے سپنج ہمارا اہم ہتھیار ہوتا ہے جو برتنوں کی سخت ترین گندگی کو دور کرتا ہے اور چکنی سطحیں صاف کر دیتا ہے۔

ہم میں سے کئی افراد کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ چونکہ اس سپنج میں صابن ہوتا ہے جو گندگی کو صاف کرتا ہے تو ہمیں اس سپنج یا فوم کو صاف کرنے کی ضرورت نہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق برتن دھونے والے سپنج میں انسانوں کے لیے خطرناک جراثیم اور بیکٹیریا کی تعداد سینک کے مقابلے میں زیادہ ہو سکتی ہے۔

کچن کے سپنج میں پائے جانے والے جراثیم کے لیے کیے جانے والے اس مطالعے میں ساڑھے تین سو سے زائد مختلف قسم کے بیکٹیریا پائے گئے جن کی تعداد بیت الخلا میں پائے جانے والے جراثیم سے زیادہ تھی۔

جراثیموں کی بڑی تعداد کا سبب جہاں سپنج میں پائی جانے والی مسلسل نمی ہے وہیں اس کی ساخت اسے بیکٹیریا اور جراثیم کی افزائش کے لیے ایک بہترین جگہ بنا دیتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سپنج کو ہفتے میں کم از کم ایک بار کلورین یا بلیچ سے دھویا جائے تاکہ بیکٹیریا کی افزائش کے اس خطرناک عمل کو روکا جا سکتا ہے۔

Getty Imagesبیڈ پر موجود گدا جراثیم کی آماجگاہ

یہ سچ ہے کہ بستر پر موجود گدا (میٹرس) صاف کرنا بالکل بھی آسان نہیں لیکن جب آپ یہ جان لیں گے کہ آپ کا گدا کتنے جراثیم کو پال لیتا ہے تو آپ اس کی صفائی کو ہر گز نظر انداز نہیں کر سکتے۔

تو جان لیجیے انسانی جسم ہر روز ایک اعشارعہ پانچ گرام جلد کے مردہ خلیے (ڈیڈ سیلز) خارج کرتا ہے جو نیند کے دوران آپ کے آرام دہ گدے پر خاموشی سے جھڑتے رہتے ہیں۔

رائل سوسائٹی اوپن سائنس جرنل میں 2018 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں ایک چمپینزی کے مقابلے میں ان گدوں کی صفائی کا موازنہ کیا گیا جہاں انسان سوتا تھا۔

نتیجہ سامنے آیا کہ انسان کے زیر استعمال گدا چمپینزی کے زیر استعمال بستر کے مقابلے میں تقریباً 30 فیصد زیادہ گندا تھا۔

جِلد سے جھڑنے والے ڈیڈ سیلز، گرد و غبار اور پسینے نے انسان کے زیر استعمال گدے کو بیکٹیریا کو پھلنے پھولنےکے لیے زرخیز زمین بنا دیا تھا۔

حالیہ برسوں میں گدوں کی صفائی کے نئے اور جدیدطریقے دریافت کیے گئے ہیں۔ ماہرین گدے اور بستروں کو پہر کچھ دن بعد دھوپ میں رکھنے پر بھی زور دیتے ہیں تاکہ ان میں پیدا ہونے والی نمی کو کم کیا جا سکے جبکہ ویکیوم کلینر کے ساتھ بھی ان میں جذب ہونے والے گرد و غبار کو صاف کیا جا سکتا ہے۔

’کچے گوشت کے ساتھ سبزیاں اور پھل رکھے گئے تو بیکٹیریا سے بھرپور سلاد بنے گی‘Getty Images

پرانے دور میں شاپنگ کے لیے جاتے وقت کپڑے کے بنے تھیلے (شاپنگ بیگز) ساتھ رکھے جاتے تھے تاکہ سامان اٹھانے میں آسانی ہو جس کی جگہ پلاسٹک کے بیگز نے لے لی۔

تاہم حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کے پیش نظر ڈسپوزیبل پلاسٹک بیگز کے بجائے ایک بار پھر ماحول دوست سمجھے جانے والے کپڑوں سے بنے تھیلے استعمال کرنے کا رجحان سامنے آ رہا ہے جنھیں بار بار استعمال کیا جا سکتا ہے۔

لیکن یہ بیگز صفائی کی ترجیحات میں اکثر شامل ہونے سے محروم ہی رہ جاتے ہیں۔

یونیورسٹی آف ایریزونا کے مائیکروبائیولوجسٹ چارلس پی گربا کا کہنا ہے کہ ’شاپنگ کے لیے استعمال یہ تھیلے لمبے عرصے صاف نہ ہونے کی صورت میں اپنے اندر جراثیم کی افزائش کا سبب بن جاتے ہیں اور یہ اتنے ہی خطرناک بن سکتے ہیں جیسے ہمارے زیر جامہ (انڈرویئر) میں موجود ای کولی بیکٹیریا جس سے انفیکشن ہوسکتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا ’اگر آپ کچے گوشت کی مصنوعات اور کچی سبزیاں لے جانے کے لیے ایک ہی تھیلے کا استعمال کرتے ہیں تو آپ آنتوں میں انفیکشن کرنے والے بیکٹریا ’سلمونیلا‘ کی سلاد بہت آسانی سے بنا سکتے ہیں۔‘

یو ایس نیشنل کلیننگ انسٹی ٹیوٹ کا عملہ تجویز کرتا ہے کہ ان بیگز کو ہفتے میں کم از کم ایک بار لازمی دھویا جائے وہ بھی مشین کے بجائے ہاتھ سے کیونکہ واشنگ مشین میں دھونے کی صورت میں یہ خراب ہو سکتے ہیں۔‘

کافی مشین، دیگر مصنوعات کی صفائی نظر انداز کرنا مہنگا پڑ سکتا ہےGetty Imagesمحققین کو اپنے مطالعے میں کافی کے برتنوں کے اندر 67 مختلف اقسام کے جراثیم ملے

امریکہ میں آرگنائزیشن آف ہیلتھ اینڈ پبلک سیفٹی کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق آپ کے باورچی خانے میں سب سے زیادہ جراثیم آپ کی کافی مشین اور دیگر بجلی سے چلنے والی مصنوعات میں پائے جاتے ہیں۔

محققین کو اپنے مطالعے میں کافی کے برتنوں کے اندر 67 مختلف اقسام کے جراثیم ملے۔

یہ بھی پڑھیے:

حفظان صحت اور صفائی: خود کو اور اپنی چیزوں کو کتنی بار صاف کیا جائے؟

کان کا میل صاف کرنے کا سب سے اچھا طریقہ کیا ہے؟

کون سی ٹوتھ پیسٹ اور کیسا برش؟ دانتوں کی صفائی کے صحیح اور غلط طریقے

ماحولیاتی تبدیلی کیا ہے؟ ایک آسان گائیڈ

کافی بنانے کے عمل میں کیا جانے والاگرم پانی تمام جراثیم کو ختم نہیں کر سکتا اور کیفین بیکٹیریا کے بڑھنے میں معاون ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ کافی بنانے کے عمل کے دوران معدنیات (منرلز) کی موجودگی کافی مشین کے کام میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

اس وجہ سے ماہرین کافی میکر کو کم از کم ہر تین ماہ بعد مکمل صاف کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

کئی مشینیں ایسی دستیاب ہیں جو ہر 100 یونٹس کے استعمال کے بعد صفائی کا الرٹ دیتی ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More