آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی مدد سے تیار کردہ تصاویر کی شناخت کیسے کی جا سکتی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Mar 25, 2023

گذشتہ ہفتے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے سے بنائی گئی جعلی تصاویر سوشل میڈیا پر سامنے آئی تھیں۔

ان جعلی تصاویر میں سابق امریکی صدر ٹرمپ کی گرفتاری کو دکھایا گیا تھا جنھیں توشہ خانہ ریفرنس میں ایک ایسی خاتون جن سے ان کا مبینہ افیئر تھا کو رقم دینے کے الزام میں فرد جرم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم ابھی تک ان پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوا ہے۔

سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ان تصاویر کو بہت سے افراد نے جعلی قرار دیا کیونکہ یہ بہت سے افراد کو بیوقوف بنانے میں ناکام رہی تھیں مگر چند ایک ان تصاویر کے جھانسے میں آگئے تھے۔

جمعرات کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم تروتھ سوشل پر بھی ایک آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی مدد سے تیار کردہ اپنی تصویر شیئر کی جس میں انھیں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر دعا کرتے دکھایا گیا تھا۔

ایسے میں جب آجکل آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی مدد سے تیار کردہ تصاویر عام ہیں تو آپ ان کیشناخت کیسے کر سکتے ہیں اور آپ اصل اور جعلی تصویر میں فرق کیسے کر سکتے ہیں؟

کیا کچھ عجیب نظر آ رہا ہے؟

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر جیسا کہ اوپر دی گئی تصویر، یہ ہمیں غیر معمولی نظر آتی ہے کیونکہ اس تصویر میں کسی بھی لمحے کے حقیقی رنگوں کے بجائے ایسا لگتا ہے کہ جیسا فنکاروں نے اسے ڈرامائی انداز میں بنوایا ہو۔

اور اگر اس کا بغور جائزہ لیں تو اس میں اور بھی بہت سی ایسی چیزیں دکھائی دیں گی جو واضح طور پر اس کے جعلی ہونے کا پتا دیں گی۔

اس تصویر کے وسط میں دیکھیں، ٹرمپ کا ہاتھ اصل سے بہت چھوٹا ہے اور بائیں طرف موجود پولیس افسر ایک ایسی چیز کو تھام رہا ہے جو ہاتھ سے زیادہ پنجہ دکھائی دیتی ہے۔

اسی طرح اگر آپ تصویر میں موجود ٹرمپ کی گردن کو دیکھیں تو آپ محسوس کریں گے جیسے ان کے سر اور چہرے کی تصویر کو اس تصویر پر چپکا دیا گیا ہو۔

آرٹیفشیل انٹیلیجنس کے ماہر اور بی بی سی کی ریڈیو سیریز دی فیوچر ول بی سنتھیسز کے پریزینٹر ہنری اجدر کہتے ہیں کہ موجودہ ٹیکنالوجی جسم کے بعض حصوں خصوصاً ہاتھوں کی تصویر کشی کے لیے بہت اچھی نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ ان تصاویر کو زوم ان کریں تو اکثر آپ کو ہاتھوں کی انگلیوں کی تعداد میں فرق نظر آئے گا۔

دیگر لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟

اس کی جانچ کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ چند نیوز سائٹ دیکھیں تو آپ کو اس کی تصدیق ہو جائے گی کہ ٹرمپ کو گرفتار یا ان پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔ کم از کم اب تک وہ مجرم نہیں ہیں۔

اگر اور جب ٹرمپ کو الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو ان کی گرفتاری پوری دنیا میں سرخیوں کی خبر بن جائے گی۔ اور آپ تصور کر سکتے ہیں اگر سابق صدر کسی طرح پولیس سے فرار ہو جاتے ہیں تو میڈیا کی شہہ سرخیاں کیا ہوں سکتی ہیں۔

اس کو جانچنے کے لیے ایک اور اچھا طریقہ اس سیاق و سباق کے بارے میں سوچنا ہے جس میں یہ تصویر شیئر کی جا رہی ہے۔ کون اسے شیئر کر رہا ہے اوراس کے مقاصد کیا ہیں؟

ہنری اجدر کا کہنا ہے کہ اکثر لوگ اپنے وسیع تر سیاسی خیالات و نظریات کو بڑھانے کے لیے تصاویر شیئر کرتے ہیں، یہاں تک کہ اکثر وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ آیا یہ تصاویر مستند ہیں بھی یا نہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ہم نے ایسی جعلی تصاویر اور ویڈیوز کی دیگر مثالیں بھی دیکھی ہیں جیسا کہ نینسی پیلوسی کی آڈیو ریکارڈنگ کو آہستہ کر دیا گیا تھا تاکہ وہ نشے میں دھت محسوس ہوں۔

یہ ہیرا پھیری کا بڑا ہی شاندار طریقہ تھا جس نے بہت سے لوگوں کو بیوقوف بنایا تھا یا کم از کم جس پر بہت سے لوگ یقین کرنا چاہ رہے تھے۔

مزید عجیب تفصیلات

ان تصاویر کو اگر غور سے دیکھیں تو یہ خود بہت سی عجیب تفصیلات بتا دیتی ہیں۔ جیسا کے غیر فطری جلد اور چہرے کی رنگت، چہرے کے دھندلے نقش اس کی بہت بڑی علامت ہیں کہ تصویر جعلی ہے۔

اوپر پیش کی گئی تصویر میں، تصویر کے دائیں جانب ایک شخص واضح طور پر دھندلے چہرے کے ساتھ دکھائی دے رہا ہے۔ اور ٹرمپ کے بال دھندلے نظر آتے ہیں، جبکہ ان کا چہرہ فوکس میں ہے۔

اسی طرح آرٹیفیشل انٹیلیجنساب تک آنکھوں کو بھی اچھی طرح پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔

جیسا کے اوپر دی گئی تصویر میں پولیس اہلکار ڈونلڈ ٹرمپ کا پیچھا کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ بالکل مختلف سمت میں دیکھ رہے ہیں۔

مستقبل میں مشکل

آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ماہرین نے بی بی سی کو بتایا کہ اگرچہ جعلی تصاویر کا آنا کوئی نئی بات نہیں ہے مگر جس رفتار سے اے آئی کے شعبے میں کام ہو رہا ہے اور جتنی جدت آ رہی ہے اس کے غلط استعمال کے بہت امکانات ہیں اور یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں ہمیں فکرمند ہونا چاہیے۔

ایک ڈیجیٹل مواد کا تجزیہ کرنے والی کمپنی ٹروپک کے منیر ابراہیم کہتے ہیں کہ ’مصنوعی مواد تیزی سے تیار ہو رہا ہے اور مستند اور جعلی مواد کے درمیان فرق کو سمجھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘

ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شہرت سے جعلی تصاویر کی نشاندہی آسان ہو جاتی ہے۔ لیکن نامعلوم لوگوں کی تصاویر اس کام کو مزید مشکل بنا سکتی ہیںاور ایسے میں اے آئی ٹیکنالوجی بھی ہر وقت بہتر ہوتی جا رہی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More