ویاگرا کی حادثاتی دریافت جس نے سیکس کی دنیا میں انقلاب برپا کیا

بی بی سی اردو  |  Mar 27, 2023

Getty Images

ویاگرا کی ایجاد سیکس کی تاریخ میں ایک اہم موقع تھا تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ایک حادثاتی ایجاد تھی جو ایک ایسے تجربے کے دوران ہوئی جس کا مقصد کچھ اور تھا۔

ویاگرا کی فروخت کا آغاز سنہ 1998 میں ہوا اور پھر یہ تقریباً فوراً ہی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی دوا بن گئی۔

امریکی دوا ساز کمپنی فائزر کی طرف سے اتفاقاً دریافت ہونے والی ’نیلی گولی‘ ان کے لیے پیسہ کمانے والی ایک بہت ہی زبردست مشین بن گئی۔

صرف پہلے تین ماہ میں امریکیوں نے عضو تناسل کی ایستادگی کے لیے اس دوا پر ایک اندازے کے مطابق 40 کروڑ ڈالر خرچ کیے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سالانہ ویاگرا کا قانونی طور پر استعمال تقریباً 40 ٹن کے قریب ہوتا ہے۔

ویاگرا: حادثاتی دریافت کی کہانی

برطانیہ میں فائزر کے تحقیقی شعبے میں کام کرنے والے ڈاکٹر میترا بُولِل نے بی بی سی برازیل کو بتایا کہ آج جو دوا عضو تناسل کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے وہ اتفاقاً دریافت ہوئی تھی۔

سائمن کیمبل ایک کیمسٹ تھے جو فائزر کمپنی کے ساتھ دل کی بیماری کے لیے ایک دوا پر تحقیق کر رہے تھے۔

انھوں نے بی بی سی ورلڈ سروس کے پروگرام ’دی جینیئس آف ایکسیڈنٹس‘ میں بتایا کہ ’ہم نے املوڈاپین نامی ایک دوا دریافت کی جو کسی زمانے میں دل کے عارضے کے لیے چوتھی مشہور دوا تھی۔‘

اس دوران سائمن نے ایک اور دریافت کی کہ سائکلک جی ایم پی نامی مالیکیول پٹھوں کو آرام دہ بنانے میں مدد دیتا ہے۔

اس تحقیق میں شامل ایک اور سائنسدان نے بتایا کہ اس تحقیق کے دوران ایک کمپاوئنڈ کی دریافت ہوئی جسے انجائنل ہائپر ٹینشن کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاہم تحقیق کے دوران سائمن کی ٹیم کو مطلوبہ نتائج نہیں مل سکے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم بہت مایوس تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ پروگرام روک دیا جائے گا۔‘

Getty Images

’تاہم پھر ایک فیصلہ کیا گیا کہ ہم ایک آخری دس روزہ تجربہ کرتے ہیں اور اس میں رضاکاروں پر زیادہ دوائی استعمال کر کے دیکھتے ہیں کہ کیا نتائج حاصل ہوتے ہیں۔‘

یہ 1990 کی دہائی کے آغاز کی بات ہے جب ایسے سائنسی تجربات کے لیے صرف مرد رضاکار چنے جاتے تھے۔

سائمن کا کہنا ہے کہ ’دس دن بعد جب تجربہ ختم ہوا تو ہم نے سوال کیا کہ آخری نتیجہ کیا نکلا تو ہمارے پاس زیادہ جواب نہیں تھے۔‘

’ہم نے تحقیق کے سربراہ سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ رضاکار مریضوں میں، جو دل کے عارضے میں مبتلا تھے، پٹھوں میں درد، سر درد اور پیٹ کی تکالیف دیکھنے کو ملیں ہیں۔‘

لیکن اس تجربے میں شامل نرسوں نے ایک اور مشاہدہ بھی کیا تھا اور وہ مشاہدہ یہ تھا کہ رضاکاروں کو عضو تناسل کی ایستادگی کا احساس ہو رہا تھا جو معمول سے زیادہ تھا۔

یاد رہے کہ کلینیکل تجربات میں رضاکاروں سے عام سوال پوچھے جاتے ہیں جیسا کہ کیا آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں؟ یا آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟

ڈاکٹر پیٹر ایلس بھی اس نئی دوا کے اثرات پر کام کر رہے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہمیں ان سوالوں کا ایک جواب یہ ملا کہ لوگ عضو تناسل کی غیر معمولی ایستادگی محسوس کر رہے تھے۔‘

یہ نتیجہ اس تجربے میں شامل ٹیم کے لیے انتہائی حیران کن اور غیر متوقع تھا۔

ڈاکٹر پیٹر کا کہنا ہے کہ ’آٹھ رضاکاروں میں سے پانچ کے ساتھ ایسا ہوا جس کے بعد ہمیں سوچنا پڑا کہ آیا یہ دوائی کا کوئی وقتی اثر ہے یا ہم مردانہ بیماری کا علاج دریافت کر چکے ہیں۔‘

سائمن کہتے ہیں کہ ’یہ رضاکار دس دن تک وارڈ میں رہے اور انھوں نے وہی کھایا جو ہم نے ان کو دیا اور وہی پیا جو ان کو بتایا گیا۔‘

ڈاکٹر ڈیوڈ براون ویاگرا کی ایجاد میں شامل تھے، وہ کہتے ہیں کہ ان رضاکاروں سے اب بھی ملنا چاہیں گے۔

’انھوں نے تاریخ رقم کی، اگرچہ اس وقت شاید وہ تھوڑا سا پیسہ کمانا چاہتے تھے لیکن انھوں نے لوگوں کی زندگیوں میں بڑی تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کیا۔‘

جس تحقیق میں ویاگرا کی حادثاتی دریافت ہوئی، وہ 1992 میں ہوئی تاہم اس دریافت کے بعد فائزر کمپنی نے 21 مزید ٹرائل کیے۔

سائمن کہتے ہیں کہ ’ان تجربات میں وہ مریض شامل تھے جن کو عضو تناسل کی ایستادگی کے مسائل کا سامنا تھا اور ہر تجربے میں دوا نے کام کیا جو حیران کن تھا کیونکہ عام طور پر کسی تجربے میں سو فیصد نتائج نہیں ملتے۔‘

ان تجربات کی ایک اور بات بھی دلچسپ تھی۔

سائمن کیمپبل کہتے ہیں کہ ’عام طور پر جب مریض کو دوائی دی جاتی ہے تو وہ بھول جاتے ہیں، ان کو دوا لینا یاد نہیں رہتا‘ تاہم اس تجربے میں ایسی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔

’مجھے تجربے میں شامل لوگوں نے بتایا کہ رضاکار مریضوں نے غیر استعمال شدہ ویاگرا واپس کرنے سے انکار کر دیا۔‘

’ہم جانتے تھے کہ ہم نے کس کو کتنی گولیاں دی ہیں لیکن مریضوں نے جھوٹ بولا کہ ان کے پاس اب کوئی گولی باقی نہیں بچی۔‘

’آپ اعداد کو بھول جائیں، مریض خود کہہ رہا تھا کہ میں گولی واپس نہیں کروں گا۔‘

ویاگرا کے کلینکل تجربات اتنے کامیاب رہے کہ فائزر نے اسے جلد سے جلد مارکیٹ میں لانے کا فیصلہ کیا۔

یہ بھی پڑھیے

ویلیسی: خواتین کے لیے ’نئی ویاگرا‘ اتنی متنازعہ کیوں ہے؟

ویاگرا اب بغیر نسخے کے دستیاب لیکن استعمال کے لیے کن باتوں کا جاننا ضروری ہے؟

مردوں میں مقبول ویاگرا خواتین کے لیے کیوں نہ بن سکی؟

Getty Images

چھ ماہ کے اندر امریکی ایجنسی ایف ڈی اے نے گولی کو فروخت کے لیے منظور بھی کر دیا۔ 1998 میں ویاگرا مارکیٹ میں آ گئی اور اسے ’بلیو پل‘ (نیلی گولی) کا نام بھی ملا۔

ان رضاکاروں کی وجہ سے کروڑوں لوگوں کا فائدہ ہوا اور ویاگرا دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دوا بن گئی۔

سائمن کہتے ہیں کہ ’دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے تجربے کے دوران، جب حادثاتی طور پر اس گولی کے اس اثر کا علم ہوا، تو ہم نہیں جانتے تھے کہ ایسی کسی دوا کی ضرورت بھی ہے۔‘

لیکن دنیا کی تاریخ میں یہ ایک پرانا مسئلہ رہا ہے۔ تاریخی اعتبار سےاس مردانہ مسئلے کا پہلا باقاعدہ تذکرہ قدیم مصر کی تحریروں سے ملتا ہے جو دو ہزار قبل از مسیح کی ہیں۔

اس وقت کے طبیبب مشورہ دیتے تھے کہ مریض مگرمچھ کے بچے کا دل حاصل کریں اور اس کا عضو تناسل پر مساج کریں تاہم ویاگرا کی دریافت نے اس مسئلے کا انقلابی حل پیش کیا۔

سائمن بتاتے ہیں کہ بنیادی طور پر ویاگرا مردانہ عضو تناسل میں خون کے بہاؤ کو بہتر بناتی ہے۔

’انسانی دماغ ایک نیورو ٹرانسمیٹر خارج کرتا ہے جسے نائٹرک آکسائیڈ کہتے ہیں جو عضو تناسل کی شریانوں میں جا کر سائیکلک جی ایم پی خارج کرتا ہے۔‘

’جن افراد میں عضو تناسل کی ایستادگی کا مسئلہ ہوتا ہے ان میں دراصل مناسب مقدار میں سائیکلک جی ایم پی نہیں بن رہا ہوتا اور ویاگرا اس عمل کو بہتر بناتی ہے۔‘

سائمن کہتے ہیں کہ ویاگرا دراصل ایک طبی مسئلے کا حل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’پچاس ملی گرام گولی کے 70 فیصد نتائج حاصل ہوتے ہیں تاہم ذیابطیس اور ہائپر ٹینشن کے مریضوں میں اس کے نتائج ساٹھ فیصد ہیں جبکہ جن مریضوں کا مثانہ نکالا جا چکا ہوتا ہے، ان میں چالیس فیصد تک نتائج حاصل ہوتے ہیں۔‘

سائمن بتاتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مثانہ نکالتے وقت، سرجن عضو تناسل کی چند رگوں کو کاٹ دیتے ہیں۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک مؤثر دوا ہے۔ مجھے ایسے لوگوں سے علم ہوا جو وہیل چیئر پر تھے کہ اب وہ بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘

واضح رہے کہ اب ویاگرا کو دیگر امراض کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ دماغ کے کینسر کا علاج بھی اس دوا سے ممکن بنانے پر تحقیق ہو رہی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More