یہ نومبر 1897 کی بات ہے۔ برسا منڈا دو سال 12 دن جیل میں گزارنے کے بعد رہا ہو رہے تھے۔ ان کے دو ساتھیوں ڈونکا منڈا اور ماجھیا منڈا کو بھی رہا کیا جا رہا تھا۔
یہ تینوں ایک ساتھ جیل کے مین گیٹ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ جیل کلرک نے رہائی کے کاغذات کے ساتھ کپڑوں کی ایک چھوٹی گٹھڑی بھی دی۔
برسا نے اپنے پرانے سامان پر ایک نظر ڈالی اور یہ دیکھ کر تھوڑے پریشان ہوئے کہ ان کی چپل اور پگڑی موجود نہیں۔
جب ڈونکا نے برسا کے ساتھ پوچھا کہ برسا کی چپل اور پگڑی کہاں ہے تو جیلر نے جواب دیا کہ کمشنر فوربس نے ہمیں حکم دیا ہے کہ آپ کی چپل اور پگڑی آپ کو نہ دیں کیونکہ صرف برہمنوں اور جاگیرداروں کو چپل اور پگڑی پہننے کی اجازت ہے۔
اس سے پہلے کہ برسا کے ساتھی کچھ کہتے، برسا نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں چپ رہنے کو کہا۔ جب برسا اور ان کے ساتھی جیل کے دروازے سے باہر آئے تو تقریباً 25 لوگ ان کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔
برسا کو دیکھتے ہی انھوں نے نعرہ لگایا کہ ’برسا بھگوان کی جے۔۔۔‘ برسا نے کہا کہ ’آپ سب مجھے بھگوان نہ کہیں۔ اس لڑائی میں ہم سب برابر ہیں۔‘
جھارکھنڈ کے سب سے قابل احترام شخص
برسا منڈا نے بہت چھوٹی عمر میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کا بگل بجایا۔ انھوں نے یہ لڑائی اس وقت شروع کی جب وہ 25 سال کے بھی نہیں تھے۔
وہ 15 نومبر 1875 کو منڈا قبیلے میں پیدا ہوئے۔انھیں بانسری بجانے کا شوق تھا۔ انگریزوں کو سخت چیلنج دینے والے برسا کا قد صرف 5 فٹ 4 انچ تھا۔ شروع شروع میں وہ بوہونڈا کے جنگلات میں بھیڑ بکریاں چراتے تھے۔
جان ہوفمین نے اپنی کتاب ’انسائیکلو پیڈیا مینڈارینیکا‘ میں لکھا ہے کہ ’ان کی آنکھوں میں ذہانت کی چمک تھی اور ان کا رنگ عام قبائلیوں سے کم سانولا تھا۔ برسا ایک عورت سے شادی کرنا چاہتے تھے لیکن جب وہ جیل گئے تو برسا نے اسے چھوڑ دیا۔‘
سنہ 1940 میں جھارکھنڈ کے دارالحکومت رانچی کے قریب رام گڑھ میں منعقدہ کانگریس کے کنونشن میں مرکزی دروازے کا نام برسا منڈا گیٹ رکھا گیا۔
عیسائیت اختیار کی اور پھر اسے چھوڑ دیا
برسا منڈا کی ابتدائی تعلیم سالگا میں جے پال ناگ کی نگرانی میں ہوئی۔ انھوں نے ایک جرمن مشن سکول میں داخلہ لینے کے لیے عیسائیت قبول کی لیکن جب انھیں لگا کہ برطانوی لوگ قبائلیوں کے مذہب تبدیل کرنے کی مہم میں مصروف ہیں تو انھوں نے عیسائیت چھوڑ دی۔
قصہ مشہور ہے کہ ان کے ایک عیسائی ٹیچر نے ایک بار کلاس میں سر منڈوائے ہوئے لوگوں کے لیے گالی گلوچ کی۔ برسا نے احتجاجاً اپنی کلاس کا بائیکاٹ کیا۔ اس کے بعد انھیں کلاس میں واپس نہیں لیا گیا اور سکول سے بھی نکال دیا گیا۔
بعد ازاں انھوں نے عیسائیت کو ترک کر کے اپنا نیا مذہب ’برصیت‘ شروع کیا۔ جلد ہی منڈا اور اوراون قبائل کے لوگ ان کے مذہب کی پیروی کرنے لگے۔ جلد ہی انھوں نے انگریزوں کی تبدیلی کی پالیسی کو ایک چیلنج کے طور پر لیا۔
برسا منڈا پر 500 روپے کا انعام
برسا کی جدوجہد کا آغاز چائی باسا سے ہوا جہاں انھوں نے 1886 سے 1890 تک چار سال گزارے۔ وہاں سے انگریزوں کے خلاف قبائلی تحریک شروع ہوئی۔ اس دوران انھوں نے نعرہ لگایا: ’ابویا راج ایتے جانا / مہارانی راج توڈو جانا‘(یعنی اب منڈا راج شروع ہو چکا اور مہارانی کا راج ختم ہو چکا ہے)۔
برسا منڈا نے اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ حکومت کو کوئی ٹیکس نہ دیں۔ 19ویں صدی کے آخر میں انگریزوں کی زمینی پالیسی نے روایتی قبائلی زمینی نظام کو تباہ کر دیا تھا۔
ساہوکاروں (سود پر ادھار دینے والے) نے ان کی زمین پر قبضہ کرنا شروع کر دیا اور قبائلیوں کو جنگل کے وسائل استعمال کرنے سے روک دیا گیا۔ منڈا لوگوں نے ایک تحریک شروع کی جسے انھوں نے ’الگلان‘ کا نام دیا۔
اس وقت برسا منڈا ریاست کے قیام کے لیے پرجوش تقریریں کیا کرتے تھے۔ کے ایس سنگھ اپنی کتاب ’برسا منڈا اینڈ ہز موومنٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’برسا اپنی تقریر میں کہتے تھے، ڈرو مت۔ میری سلطنت شروع ہو گئی ہے۔ سرکار کا راج ختم ہو گیا۔ ان کی بندوقیں لکڑی میں بدل جائیں گی۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ میری سلطنت کو نقصان پہنچاؤ، انھیں راستے سے ہٹا دو۔‘
انھوں نے تھانوں اور جاگیرداروں کی املاک پر حملے شروع کر دیے۔ کئی مقامات پر برطانوی پرچم کی جگہ سفید جھنڈا لگا دیا گیا جو منڈا راج کی علامت تھا۔ اس وقت برطانوی حکومت نے برسا پر 500 روپے کا انعام رکھا تھا جو ان دنوں بہت بڑی رقم ہوا کرتا تھا۔
برسا کو پہلی بار 24 اگست 1895 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ انھیں دو سال کی سزا سنائی گئی۔ جب وہ دو سال بعد رہا ہوئے تو رو پوش ہو گئے اور انگریزوں کے خلاف تحریک چلانے کے لیے اپنے لوگوں سے خفیہ ملاقاتیں کرنا شروع کر دیں۔
سردار تحریک سے متاثر
برسا منڈا سے بہت پہلے 1858 میں انگریزوں کے خلاف سردار تحریک شروع ہو چکی تھی، جس کا مقصد جبری مزدوری کو ختم کرنا تھا۔ اسی وقت بدھو بھگت نے رانچی کے قریب سلاگین گاؤں میں قبائلیوں کو انگریزوں کے خلاف منظم کیا تھا۔
بدھو بھگت نے 50 کے قریب قبائلیوں کو اکٹھا کیا تھا جن کے ہاتھ میں ہمیشہ تیر اور کمان ہوتے تھے۔ ان کا نعرہ تھا ’یہ ہمارا ملک ہے اور ہم اس پر حکومت کریں گے۔‘
جب بھی کوئی زمیندار یا پولیس افسر لوگوں پر زیادتی کرتا پایا جاتا تو بدھو اپنی ٹیم کے ساتھ اس کے گھر پر حملہ کر دیتے تھے۔
تہین سنہا اور انکیتا ورما اپنی کتاب ’دی لیجنڈ آف برسا منڈا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ایک بار مہم پر جانے سے پہلے بدھو اور ان کے ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک شیو مندر میں پوجا کریں گے۔ جب وہ مندر پہنچے تو وہاں تالا لگا ہوا تھا۔ وہ ابھی تک سوچ ہی رہے تھے کہ کیا کرنا ہے، اچانک مندر کے اندر سے 20 پولیس والے باہر نکلے، اس کے بعد انکاؤنٹر شروع ہوا جس میں بدھو سمیت 12 قبائلی مارے گئے اور باقی افراد کو قیدی بنا لیا گیا۔‘
کہا جاتا ہے کہ دس گولیاں لگنے کے باوجود بدھو نے مرتے ہوئے کہا کہ ’آج تم جیت گئے ہو لیکن یہ تو شروعات ہے۔ ایک دن ہمارا ’الگلان‘ تمہیں ہماری زمین سے باہر پھینک دے گا۔‘
ڈومباری پہاڑ پر سپاہیوں سے مقابلہ
سال 1900 تک، برسا کی جدوجہد چھوٹا ناگپور کے 550 مربع کلومیٹر پر پھیل چکی تھی۔ 1899 میں انھوں نے اپنی جدوجہد کو مزید وسعت دی۔ اسی سال 89 زمینداروں کے گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ قبائلی بغاوت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ رانچی کے ضلع کلکٹر کو فوج کی مدد مانگنے پر مجبور ہونا پڑا۔
ڈومباری پہاڑی پر فوج اور قبائلیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی۔ کے ایس سنگھ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’جیسے ہی قبائلیوں نے سپاہیوں کو دیکھا، وہ اپنی کمان، تیر اور تلواریں لہرانے لگے۔ انگریزوں نے مونڈاری میں ایک مترجم کے ذریعے انھیں ہتھیار ڈالنے کو کہا۔ پہلے تین راؤنڈ فائر کیے گئے لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ قبائلیوں نے محسوس کیا کہ برسا کی یہ پیشگوئی سچ ثابت ہوئی کہ انگریزوں کی بندوقیں لکڑی اور گولیاں پانی میں تبدیل ہو گئی ہیں۔‘
اس فائرنگ کا جواب انھوں نے چیخ کر دیا۔ اس کے بعد انگریزوں نے دو راؤنڈ فائر کئے۔ اس بار دو افراد مارے گئے۔ تیسرے راؤنڈ میں تین قبائلی گر گئے۔ ان کے گرتے ہی انگریز سپاہیوں نے پہاڑ پر حملہ کر دیا۔
کے ایس سنگھ نے لکھا ہے کہ ’اس تصادم میں سینکڑوں قبائلی مارے گئے تھے اور پہاڑی پر لاشوں کا ڈھیر لگ گیا تھا۔ فائرنگ کے بعد سکیورٹی فورسز نے قبائلیوں کی لاشوں کو کھائیوں میں پھینک دیا اور کئی زخمیوں کو زندہ دفن کر دیا گیا۔
اس فائرنگ کے دوران برسا بھی وہاں موجود تھے لیکن وہ کسی طرح وہاں سے فرار ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس فائرنگ میں تقریباً 400 قبائلی مارے گئے تھے تاہم برطانوی پولیس نے صرف 11 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔
برسا کو چکردھر پور کے قریب پکڑا گیا
تین مارچ کو برطانوی پولیس نے چکردھر پور کے قریب ایک گاؤں کو گھیر لیا۔ برسا کے قریبی ساتھیوں کومٹا اور بھرمی کو گرفتار کیا گیا لیکن برسا کا کہیں پتا نہیں تھا۔
تبھی ایس پی روش کو ایک جھونپڑی نظر آئی۔ توہین سنہا اور انکیتا ورما لکھتے ہیں کہ ’جب روش نے اس جھونپڑی کے دروازے کو دھکیلا تو وہ اندر کا منظر دیکھ حیران رہ گئے۔ برسا منڈا جھونپڑی کے بیچ میں عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ ٹانگیں پھیلائے بیٹھے تھے۔ وہ فوراً کھڑے ہوئے اور اشارہ کیا کہ وہ ہتھکڑیاں پہننے کے لیے تیار ہیں۔‘
روش نے اپنے کانسٹیبل کو برسا کو ہتھکڑی لگانے کا حکم دیا۔برسا کو دوسرے راستے سے رانچی لے جایا گیا تاکہ لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ انھیں گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن جب برسا رانچی جیل پہنچے تو ہزاروں لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے وہاں پہلے سے موجود تھے۔
بیڑیوں میں عدالت لایا گیا
مقدمے کے دن کمشنر نے فیصلہ کیا کہ برسا کو جیل سے ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں لایا جائے گا تاکہ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں کہ برطانوی حکومت کا مقابلہ کرنے کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
کمرہ عدالت میں کمشنر فوربس، ڈی سی پی براؤن کے ساتھ فرنٹ بینچ پر بیٹھے تھے۔ اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔
پھر باہر سے شور سنائی دیا۔ باہر ایک بہت بڑا ہجوم برسا کی رہائی کا مطالبہ کر رہا تھا۔ تقریباً 40 مسلح پولیس والے اس کے ساتھ چل رہے تھے۔
یہ صاف نظر آرہا تھا کہ برسا کو جیل میں کوڑوں سے بری طرح پیٹا گیا تھا لیکن ایسا نہیں لگتا تھا کہ برسا کو کسی قسم کی تکلیف ہے۔ یہ منظر دیکھ کر براؤن کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
ان کا خیال تھا کہ برسا کو بیڑیوں میں جکڑ کر دربار میں لانے سے یہ پیغام جائے گا کہ انگریزوں کے خلاف بغاوت کا نتیجہ کتنا برا ہو سکتا ہے لیکن اس کا اثر الٹا ہوا۔
لوگ ڈرنے کے بجائے برسا کی حمایت میں نکل آئے تھے۔ برسا کے خلاف ڈکیتی، ہنگامہ آرائی اور قتل کے 15 مقدمات میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
جیل میں موت
برسا کو جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا تھا۔ انھیں تین ماہ تک کسی سے ملنے نہیں دیا گیا۔ انھیں سورج کی روشنی حاصل کرنے کے لیے ہر روز صرف ایک گھنٹے کے لیے اپنے سیل سے باہر نکالا جاتا تھا۔
ایک دن جب برسا بیدار ہوئے تو انھیں تیز بخار اور پورے جسم میں شدید درد تھا۔ ان کا گلا بھی اتنا خراب ہو گیا تھا کہ ان کے لیے پانی کا ایک گھونٹ پینا بھی محال تھا۔ کچھ ہی دنوں میں انھیں خون کی الٹیاں آنے لگیں۔ نو جون 1900 کو صبح 9 بجے برسا کی وفات ہو گئی۔
بعد ازاں رانچی جیل کے سپرنٹنڈنٹ کیپٹن اینڈرسن نے انکوائری کمیٹی کے سامنے ایک بیان میں کہا کہ ’جب برسا کی لاش کوٹھری سے باہر لائی گئی تو جیل میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔‘
لاش کا پوسٹ مارٹم 9 جون کو شام 5.30 بجے کیا گیا۔ اس کے جسم میں پانی کی بڑی مقدار پائی گئی۔ ان کی چھوٹی آنت مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ان کی موت کی وجہ ہیضہ بتائی گئی۔
برسا کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ انھیں زہر دیا گیا۔ جیل انتظامیہ نے آخری لمحات میں انھیں طبی امداد نہیں دی، اس سے اس خدشے کو مزید تقویت ملی۔
اپنے آخری لمحات میں، برسا کو چند لمحوں کے لیے ہوش آیا۔ ان کے منہ سے الفاظ نکلے کہ ’میں صرف ایک جسم نہیں ہوں۔ میں مر نہیں سکتا۔ تحریک جاری رہے گی۔‘
برسا کی موت کے ساتھ ہی منڈا تحریک میں نرمی آئی لیکن ان کی موت کے آٹھ سال بعد برطانوی حکومت نے ’چھوٹا ناگ پور کرایہ داری ایکٹ‘ پاس کیا، جس میں یہ شرط تھی کہ غیر قبائلی زمین نہیں خرید سکتے۔