’ڈیٹنگ ایپ کے ذریعے شادی طے ہوئی مگر وہ شادی سے ایک دن پہلے بھاگ گیا‘

بی بی سی اردو  |  Jun 06, 2023

BBC

’لوگ جب بھی کسی لڑکی کو ڈیٹنگ ایپ پر دیکھتے ہیں تو فوراً تنقید کرنے لگتے ہیں، جب کہ وہ خود بھی اسی ایپ پر موجود ہوتے ہیں۔ میں بھی اُن سے یہی سوال پوچھ سکتی ہوں کہ ’برو تم کیا کر رہے ہو ڈیٹنگ ایپ پر؟‘

لائبہ زینب نے بظاہر یہ الفاظ ہنستے ہوئے کہے مگر ان کے اگلے جملے میں ہی اس موضوع کی اہمیت اور سنجیدگی اس وقت واضح ہو گئی جب انھوں نے بتایا کہ ڈیٹنگ ایپس پر پاکستانی خواتین صارفین کو صرف اُن کے عورت ہونے کی وجہ سے امتیازی سلوک اور تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

بہت سے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ڈیٹنگ ایپس کا استعمال عام ہو رہا ہے اور صارفین میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں، تاہم معاشرتی پابندیوں اور روایات کی وجہ سے خواتین صارفین کو بعض اوقات منفی ردِعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

’لڑکی ڈیٹنگ ایپ پر آ جائے تو کردار پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں‘

نادیہ راشد ڈیٹنگ ایپ ’مُز‘ کی مدد سے 2019 میں اپنے شوہر کو ملیں اور سنہ 2022 میں اُن کی شادی ہوئی۔ڈیٹنگ ایپ سے نادیہ کو خود تو فائدہ ہوا مگر ساتھ انھوں نے ان ایپس سے منسلک منفی امیج کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا۔

انھوں نے کہا ’ابھی بھی بہت سے لوگ ہیں جو اس کو ٹیبو سمجھتے ہیں۔ چند والدین نہیں چاہتے کہ ان کے بچے ڈیٹنگ ایپ کی مدد سے اپنا پارٹنر ڈھونڈیں یا شادی کریں۔‘

صبا بانو ملک نے بتایا کہ پاکستان ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں لوگوں میں شادی کرنے اور کروانے کا شوق ’جنون‘ کی حد تک پایا جاتا ہے مگر جب انھوں نے جیون ساتھی ڈھونڈنے کے ارادے سے پروفائل بنائی اور ایپ کی ضرورت کے مطابق اپنی تصویر، نام اور اُن خصوصیات کو درج کیا جو وہ اپنے متوقع پارٹنر میں ڈھونڈ رہی تھیں، تو ’امید کے برعکس اچانک مجھے ایک ایسی خاتون کے طور پر دیکھا گیا جس نے شادی نہیں کی یا جو شادی کے لیے مناسب نہیں ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اگر ایک لڑکی ڈیٹنگ ایپ پر آ جائے تو اس کے ارادوں پر شک کیا جاتا ہے اور بغیر کسی وجہ کے اس کی نیت کو بُرا تصور کیا جاتا ہے اور بعض اوقات تو کردار پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔

’دفتر کے لوگ پروفائل کی سکرین شاٹس لے کر آپس میں شیئر کرتے ہیں‘

ڈیٹنگ ایپس کے استعمال پر 27سالہ سلویٰ رانا بتاتی ہیں کہ جب ان کے اپنے دوستوں نے اُن کا پروفائل دیکھا تو انھوں نے اُن سے اس بارے میں ہنسی مذاق کرتے ہوئے ان ایپس کی موجودگی پر سوالات اٹھائے۔

سلویٰ نے بتایا کہ ان کے لیے تعجب کی بات یہ تھی کہ ان کے وہ دوست خود بھی اس ایپ پر موجود تھے، لیکن خود لڑکے ہونے کی وجہ سے ان کی ایپس پر موجودگی اُن کی نظر میں کوئی مسئلہ نہیں تھی مگر ’وہ مجھے شرمندہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ میں ایپ چھوڑ دوں گی۔‘

سلویٰ نے کہا کہ ’مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ہم آف لائن بھی وہی چیزیں کر رہے ہوتے ہیں۔ رشتہ ڈھونڈنے کے لیے لوگوں سے مل رہے ہوتے ہیں، اُن سے بات چیت کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر جب بات آن لائن چلی جاتی ہے تو لوگ آپ کے کردار پر سوال اٹھانے لگتے ہیں۔‘

نادیہ بتاتی ہیں کہ اگر آپ کے دفتر کے لوگ آپ کی پروفائل دیکھ لیں تو مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ’ہر کوئی سکرین شاٹ لیتا ہے اور آپس میں اِدھر اُدھر شیئر کرتے ہیں۔‘

پاکستانیوں کے لیے کسی عورت کا اپنے لیے پارٹنر تلاش کرنے کا اختیار رکھنا تسلیم کرنا مشکل ہے‘

صبا نے بتایا کہ ان کا خاندان کچھ عرصہ قبل ہی پاکستان منتقل ہوا تھا اور اس لیے ان کے گھر والوں کا سوشل سرکل کچھ زیادہ وسیع نہیں ہے۔ ’اسی لیے میں نے سوچا کہ میں خود کیوں نا اپنے لیے کسی کو ڈھونڈوں۔‘

صبا نے اسی بارے میں کہا کہ ’ڈیٹنگ ایپس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایپس پاکستان میں استعمال ہو رہی ہیں اور پاکستانیوں کے لیے اس بات کو تسلیم کرنا مشکل ہے کہ کوئی عورت اپنے لیے پارٹنر تلاش کرنے کا اختیار رکھتی ہو۔‘

لائبہ کا کہنا تھا کہ چاہے آپ کو ان ایپس کے ذریعے کوئی ملے یا نہیں لیکن یہ تجربہ پھر بھی آپ کو ایک اچھا جیون ساتھی ڈھونڈنے میں مدد دے سکتا ہے۔

’مجھ سے جب کوئی پوچھتا ہے کہ تمھیں لائف پارٹنر میں کیا چاہیے تو میرا جواب ہمیشہ ہی ہوتا ہے کہ اگر میں نے اتنے زیادہ لوگوں کو ڈیٹ نہ کیا ہوتا تو مجھے یہ کبھی پتہ نہ ہوتا کہ مجھے اپنے لائف پارٹنر میں کیا نہیں چاہیے! اتنے زیادہ لوگوں کے بارے میں پتا ہو گا تو آپ کے لیے فیصلہ کرنا آسان ہو گا کہ آپ کس طرح کے انسان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔‘

کیا ڈیٹنگ ایپس کے استعمال کا تجربہ خواتین کے لیے ہمیشہ اچھا ہوتا ہے؟

جب ہم نے ان خواتین سے ڈیٹنگ ایپس استعمال کرنے کے تجربے کے بارے میں پوچھا تو ان میں سے ہر ایک نے کہا کہ یہ ایک ’ملا جلا تجربہ‘ رہا۔

نادیہ نے کہا کہ ’اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ کیا ڈیٹنگ ایپ پر پارٹنر ملنا آسان ہے تو اس کا جواب ہے ’نہیں بالکل آسان نہیں ہے!‘

’ایسا نہیں ہے کہ کہ آپ کو بالخصوص شادی کے لیے ڈیٹنگ ایپ پر کوئی آرام سے بہت جلدی مل جائے۔‘

ان کے مطابق اس کی بڑی وجہ ان ایپس پر جعلی اور فیک پروفائلز کی موجودگی ہے۔

’لوگ وہ نہیں ہوتے جو وہ اپنے آپ کو دکھا رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ فیک ہوتے ہیں، بتائی گئی معلومات جھوٹ ہوتی ہیں، شناخت جعلی ہوتی ہے، تصویریں جعلی ہوتی ہے، بعض پروفائلز میں تو تقریباً ہر بات ہی فیک ہوتی ہے۔‘

نادیہ کے مطابق ایسے لوگ یا تو ’صرف آپ کا وقت ضائع کرنے کے لیے وہاں (ایپس) پر موجود ہوتے ہیں یا بعض اپنی دکھ بھری کہانیاں سنا کر ہمدردی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آپ سے دھوکے سے پیسے اینٹھنا چاہتے ہیں۔‘

ایک طرف نادیہ کو مُز کے ذریعے اپنا ’سؤل میٹ‘ ملا جن سے اب وہ شادی کر چکی ہیں اور وہ دوسری خواتین کو بھی ایپس استعمال کرنے کی ترغیب دیتی ہیں، لیکن ساتھ ہی ہم سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کچھ سخت تجربے بھی بیان کیے جو انھیں اسی ایپ پر پیش آئے۔

نادیہ نے اپنی پہلی شادی کے اختتام کے بعد دوبارہ جیون ساتھی کے تلاش میں ڈیٹنگ ایپس کا رُخ کیا تھا۔ ان کے مطابق پاکستان کے روایتی ’رشتہ آنٹی‘ کے طریقے سے جو رشتے انھیں دکھائے جاتے تھے وہ ان سے بالکل مطمئن نہیں تھیں چنانچہ انھوں نے ڈیٹنگ ایپس استعمال کرنے کا سوچا۔

ان کے مطابق انھوں نے ایک ایسی ایپ کا انتخاب کیا جہاں ان کی سوچ کے مطابق زیادہ تر لوگ شادی کی ارادے سے ہی موجود ہوں گے، مگر درحقیقت انھیں وہاں بھی ایسے بہت سے لوگ ملے جن کا ارادہ شادی کا بالکل نہیں تھا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’ڈیٹنگ ایپ کے ذریعے شادی طے ہوئی مگر وہ آدمی فراڈ نکلا اور شادی سے ایک دن پہلے بھاگ گیا۔‘

’ایک آدمی ملا جس سے رشتہ طے ہو گیا مگر شادی سے ایک دن پہلے ان کی شادی ٹوٹ گئی کیونکہ اس آدمی نے کہا کہ وہ شادی پر نہیں آ رہا۔‘

نادیہ نے کہا کہ ’ڈیٹنگ ایپ استعمال کرنے کا تجربہ جہاں اچھا ہو سکتا ہے وہی اتنا برا بھی ہو سکتا ہے کہ سوچیں کل آپ کی شادی ہے آج آپ کو سلون جانا ہے اور مہندی لگانی ہے اور اچانک آپ کو پتہ چلتا ہے کہ وہ شخص تو شادی کرنے آ ہی نہیں رہا، وہ فراڈ تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’میں بہت روئی۔۔۔ اس آدمی نے فون کا جواب دینا چھوڑ دیا۔۔۔ میرے والد روئے، میری والدہ روئیں۔ ہمیں یہ نہیں پتا تھا کہ ہم کیا کریں گے، یہ نہیں پتا تھا کہ اپنے رشتے داروں کو کیا کہیں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ وہ اپنا تجربہ اس لیے شیئر کرنا چاہتی ہیں کہ ان ایپس پر آنے والے محتاط رہیں۔ ’میں نہیں چاہتی کہ دوسری خواتین بھی اس درد سے گزریں جس سے میں گزری ہوں۔‘

Getty Images’جعلی پروفائلز‘

فراڈ کے علاوہ بہت سی جعلی پروفائل بھی ان ایپس پر موجود ہوتی ہیں۔

صبا نے بتایا کہ انھوں نے بہت زیادہ پروفائل پر پاکستانی اور ترکی کے اداکاروں کی تصاویر دیکھی ہیں۔

’یہ بھی ہوا کہ مجھے ایسی پروفائلز ملیں جن پر میری ہی تصویر استعمال کی گئی تھی۔ ان پروفائل میں سے دو اکاؤنٹ ویریفائیڈ بھی تھے۔‘

لائبہ نے بھی کچھ ایسی کہانی سنائی کہ ان کی کزن کی تصویر سے لوگوں نے اکاؤنٹس بنائے ہوئے تھے جبکہ ان کی کزن خود ان ایپس پر موجود نہیں تھیں۔

’ان اکاؤنٹس کو رپورٹ کرنے کی بہت کوشش کی مگر کچھ فائدہ حاصل نہ ہوا، یہاں آپ کی تصویر اٹھا کر کوئی بھی پروفائل بنا سکتا ہے۔ پاکستان ایک قدامت پسند ملک ہے اور یہاں ان باتوں پر رشتے ٹوٹ سکتے ہیں، طلاقیں ہو سکتی ہیں اور قتل بھی۔‘

سٹاکنگ کا مسئلہ

ایک اور مسئلہ سٹاکنگ کا ہے جو لائبہ اور صبا دونوں کو پیش آیا۔

انھوں نے بتایا کہ دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسا کہ انسٹاگرام پر ان کے پبلک پروفائلز ہیں اور جب انھوں نے بعض لوگوں کو ڈیٹنگ ایپس پر سوائپ رائٹ نہیں کیا تو ان لوگوں نے انھیں ان کے دوسرے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ لائبہ کے مطابق ’یہ بہت خوفناک تھا اور یہ بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔‘

پاکستانی خواتین اِن ڈیٹنگ ایپس میں کن فیچرز کو شامل یا تبدیل کروانا چاہتی ہیں

اس بارے میں بی بی سی بات کرنے والی تمام خواتین نے چند ایک فیچرز یا تبدیلی کے بارے میں بات کی ہے۔

1۔ پروفائل بنانے کے لیے شناختی کارڈ کا استعمال:

نادیہ کے مطابق ان ایپس میں کسی نہ کسی طرح پروفائل بنانے کے لیے شناختی کارڈ کا استعمال لازمی ہونا چاہیے، جس کی مدد سے جعلی پروفائلز کا مسئلہ کسی حد تک حل ہو سکتا ہے۔

’لوگوں کے ٹیلی فون نمبرز بہت زیادہ ہو سکتے ہیں، ای میل ایڈریس بہت زیادہ ہو سکتے ہیں لیکن قومی شناختی کارڈ نمبر صرف ایک ہی ہو گا۔ اس طرح ایک شناختی کارڈ سے پھر کسی شخص کی ایک ہی پروفائل ہو گی اور اس پر وہی نام اور تصویر ہو جو شناختی کارڈ پر موجود ہے۔‘

2۔ اپنی لوکیشن کو چھپانے کا فیچر:

صبا کا کہنا تھا کہ ’اپنی لوکیشن کو چھپانے کا فیچر ہو تو اچھا ہو گا۔

لائبہ نے کہا کہ ریڈیس کو 10 سے 20 کلومیٹر سے 30 سے 40 کلومیٹر تک بڑھا دینا بھی فائدہ مند ہو گا، ’اس طرح آپ کے پاس زیادہ لوگوں کے آپشنز ہوں گے اور (حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایگزیکٹ لوکیشن بھی کسی کو پتہ نہیں چلے گی۔‘

3۔ اصل تصویر کے ذریعے ویریفکیشن کا طریقہ کو مزید بہتر بنانا:

صبا، نرمل اور نادیہ تینوں کا یہ کہنا تھا کہ ویریفیکیشن کے طریقے کو مزید بہتر بنانا چاہیے اور اس کے لیے ویڈیو یا تصویر کا استعمال کرنے سے بہتری حاصل ہو سکتی ہے۔

4۔ دوسرے ممالک میں لوگوں سے بات کرنے کا فیچر فری ہونا چاہیے:

نرمل کے مطابق ’چند ایپس پر کچھ فیچرز کے لیے آپ کو پیسے دینے پڑتے ہیں اور سبسکرائب کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ کے ملک سے باہر کسی اور ملک میں کسی سے بات کرنا چاہیں تو اس کے لیے آپ کو پیسے دینے پڑتے ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ آپ کو اجازت ہونی چاہیے کہ دنیا میں کسی سے بھی بات کر سکیں کیونکہ بنیادی طور پر یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More