شی جن پنگ کے چین میں اتنے فوجی اور سینئر حکومتی اہلکار کیوں ’غائب‘ ہو رہے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Sep 24, 2023

Getty Images

وہ لوگ جو چینی صدر شی جن پنگ کے قابل اعتماد اور پسندیدہ افراد میں شمار ہوتے تھے وہ اب رفتہ رفتہ غائب ہوتے نظر آتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میںکئی اعلیٰ عہدوں پر فائز چینی حکام کی گمشدگیوں نے اس بارے میں شدید شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں کہ کیا چینی صدر خصوصاً فوج سے منسلک افراد کا ’صفایا‘ کر رہے ہیں۔

اس کی تازہ ترینمثال چینی وزیر دفاع لی شانگفو کی ہے جو گزشتہ چند ہفتوں سے منظرعام سے غائب ہیں۔ اگرچہ ان کی غیر موجودگی کو پہلے تو محسوس نہیں کیا گیا تاہم جب ایک اعلیٰ امریکی سفارت کار نے ان کی غیر موجودگی کی نشاندہی کی گئی تو پھر اس احساس نے شدت اختیار کر لی۔

خبر رساں ادارے رؤئٹرز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنرل لی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے لیے ہتھیاروں کی خریداری کی نگرانی کرتے تھے اور ان سے فوجی سازوسامان کی خریداری پر تفتیش کی جا رہی تھی۔

ان کا ’غائب ہونا‘ راکٹ فورسز کےان دو اعلیٰ عہدیداروں کو ہٹائے جانے کے کچھ عرصہ بعد سامنے آیا۔ ان عہدے داروں میں سے ایککا تعلق جوہری میزائلوں کو کنٹرول کرنے والے فوجی دستے سے جبکہ دوسرے ایک فوجی عدالت کے جج تھے۔

اب تازہ ترین افواہیں یہگردش کر رہی ہیں کہ چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے سنٹرل ملٹری کمیشن (جو کہ مسلح افواج کو کنٹرول کرتے ہیں) کے کچھ کیڈرز بھی زیر تفتیش ہیں۔

’صحت کی وجوہات‘ کے علاوہ، انکو ہٹائےجانے کی کوئی سرکاری وضاحت نہیں دی گئی اور معلومات کے اسی فقدان کے باعث قیاس آرائیاں بھی عروج پر ہیں۔

ان تمام معاملات میں بنیادی نظریہ یہ ہے کہ حکام پی ایل اے میں بدعنوانی کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں۔ ان حالات میں فوج کو انتہائی چوکس کر دیا گیا ہے۔

جولائی میں صدر شی جن پنگکی جانب سے ایک غیر معمولی اعلان کیا گیا جس میں عوام سے پچھلے پانچ سالوں میں ہونے والی بدعنوانی کے بارے میں معلومات طلب کی گئیں۔ بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق صدر شی جن پنگنے ملک بھر میں معائنوں کا گویا ایک نیا دور شروعکر دیا ہے اور اپریل سے اب تک پانچ فوجی اڈوں کا دورہ کر چکے ہیں۔

سنگاپور کی نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی کے ایک ریسرچ فیلو جیمزچار جو سی سی پی اور فوج کے درمیان تعلقات کا مطالعہ کرتے ہیں کا کہنا ہے کہ چین میں ایک طویل عرصے سے فوج میں بدعنوانی ایک شدید مسئلہ رہا ہے خاص طور پر جب سے چین نے 1970 کی دہائی میں اپنی معیشت کو آزاد کرنا شروع کیا تھا۔

جیمزچار کا کہنا ہے کہ ’ہر سال چین فوج پر10 کھرب یوآن(چینی کرنسی)سے زیادہ خرچ کرتا ہے جس میں کچھ خریداری میں صرف ہوتی ہے جسے قومی سلامتی کی وجوہات کی بناء پر مکمل طور پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ شفافیت کا یہ فقدان چین کے یک جماعتی مرکزی نظام کی وجہ سے مزید بڑھ گیا ہے۔‘

ڈاکٹر چار کے مطابق جس طرح کی عوامی جانچ پڑتال دوسرے ممالک میں افواج کی، کی جاتی ہے اس کے برعکس چین کی مسلح افواج کی نگرانی خصوصی طور پر سی سی پیکرتی ہے۔

اگرچہ صدرشی نے مسلح افواج کے اندر بدعنوانی کو ختم کرنے اور اس کی ساکھ کو کسی حد تک بحال کرنے میں کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

ڈاکٹر چار نے مزید کہا ’بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اگر ناممکن نہیں تو ایک بہت بڑا اقدام ہے‘ کیونکہ اس کے لیے ’نظام کو از سر نو مرتب کرنے‘ کی ضرورت ہو گی اور مجھے خدشہ ہے کہاس طرح آمرانہ ریاستکا تسلط برقرار رہے گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جب تکچینی کمیونسٹ پارٹیکی حکومت ایک مناسب قانونی نظام قائم کرنے پر آمادہ نہیں ہو گی جس کی خود سے منظوری نہیں دی گئی ہے، اس طرح کیچھانٹیاں ہوتی رہیں گی۔‘

Getty Imagesجنرل لی شان گفو کو کئی ہفتوں سے عوام میں نہیں دیکھا گیا چینی وزیر خارجہ کن گینگ سے کیا پوچھ گچھ جاری ہے؟

ایک ایسے وقت میں جب چینی حکومتامریکہ کے ساتھ اپنے مشکل تعلقات کو آگے بڑھا رہی ہے تو ان گمشدگیوں کو چینی حکومت کا ممکنہ طور پر جنونی پن کہا جا سکتا ہے۔

جولائی میں چین میں انسداد جاسوسی کا ایک توسیعی قانون نافذ ہوا جس سے حکام کو تحقیقات کرنے کے دوران اختیارات اور رسائی دی گئی۔ اس کے فوراً بعد، چین کی ریاستی سلامتی کی وزارت نے عوامی طور پر شہریوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ جاسوسی کی سرگرمیوں سے نمٹنے میں مدد کریں۔

جنرل لی کی گمشدگی کی بازگشت میں وزیر خارجہ کن گینگ کی برطرفی سے بھی تعلق جوڑنے کی قیاس آرائیاں شامل ہیں۔

رواںہفتے وال سٹریٹ جرنل نے رپورٹشائع کی کہ چینی وزیر خارجہ کن گینگ سے مبینہ طور پر ان غیر ازدواجی تعلقات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں جس کے نتیجے میں امریکہ میں ایک بچے کی پیدائش بھی عمل میں آ چکی ہے۔

چین کے ماہرتجزیہ کار بل بشپ نے اس حوالے سے کہا۔

’اشرافیہ (کمیونسٹ پارٹی) کے حلقوں میں افیئر رکھنا قابل اعتراض بات نہیں تاہم کسی ایسے شخص کے ساتھ رہنا جس پر غیر ملکی انٹیلی جنس کے ساتھتعلقات کا شبہ ہو اور آپ کے کلیدی جغرافیائی سیاسی حریف کا پاسپورٹ رکھنے والا بچہ پیدا کرنا اب کسی جرم سے کم نہیں۔‘

دوسری جانب یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ چینی صدر’اصطبل کو صاف کرنے کے لیے‘ پارٹی کے اندرونی دباؤ میں یہ کام کر رہے ہیں۔

یاد رہےکووڈ19 کی عالمی وبا کے بعدسے چین کی معیشت سست روی کا شکار ہے اور بڑی تعداد میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی بے روزگاری جیسے چیلینج کا بھی ملک کو سامنا ہے۔

چین کے سیاسی نظام کے تحت صدر شی چین کے صرف صدر ہی نہیں ہیں بلکہ فوج کے اعلیٰ رہنما بھی ہیں۔

ایک طرح سے دیکھا جائے تو اعلیٰ عہدے داروں کا منظرعام سے غائب ہونا صدر شی کی قیادت میں عدم استحکام کی علامت ہیں۔

تجزیہ کار اس حقیقت کو تسلیمکر رہے ہیں کہ وزیر دفاع جنرل لی اور وزیر خارجہ کن گینگ، جو نہ صرف وزیر تھے بلکہ ریاستی کونسلر کے طور پر بھی نہات اعلیٰ عہدے پر فائز تھے، کا چناؤ صدر شی کی طرف سے کیا گیا تھا تاہم اب ان کے اچانک زوال کو چینی صدر کے فیصلوں اور طاقت میں کمی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

اگر کوئی ان گمشدگیوں کو ’سیاسی صفائی‘ کے طور پر دیکھتا ہے تو یہ بات بھی یاد رہے کہانھیں گزشتہ سال اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے بعد اتنی جلدی ایک قانون نافذ کرنا پڑا جس نے نہ صرف کامیابی سے ممکنہ حریف دھڑوں کو بے اثر کیا بلکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ روابط بڑھانے میں موثر کردار ادا کیا۔

تاہمایک دوسرا نقطہ نظر یہبھی ہے کہ یہ صدر شی کی طرف سے طاقت کا ایک اور مظاہرہ ہے۔چین میں ماؤزے تنگ کے بعد کوئی اور چینی رہنما صدر شی کے کریک ڈاؤن کا مقابلہ نہیں کر پایا۔

ایک اندازے کے مطابق انھوں نے تمام عرصے کے دوران ہزاروں کیڈرز کو نشانہ بنایا اور 2013 میں اپنا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد شروع کی گئی مہم سے نچلی سطح اور اعلیٰ حکام دونوں نہ بچ پائے۔

انھوں نے مسلح افواج کو بھی نشانہ بنایا جس میں 2017 تک 100 سے زائد سینئر افسران کو عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔

اس وقت سرکاری خبر رساں ایجنسی شِنہوا نے ایک آرٹیکل میں کہا تھا کہ یہ تعداد ’نیا چین بنانے کے لیے جنگوں میں ہلاک ہونے والے جرنیلوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔‘

’صدر شی ہاں میں ہاں ملانے والوں کے درمیان گھرے ہوئے ہیں‘

لیکن ان تازہ ترین گمشدگیوں اور ان کے حتمی اثرات کے حوالے سے اب کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اہلکاروں اور افسران کی گمشدگیوں سے فوج اور حکومت میں خوف کی فضا پیدا ہونے کا خدشہ ہے اور ان مطلوبہ نتائج کے اثرات حوصلہ شکن بھی ہو سکتے ہیں۔

کئی سالوں سے منظم طریقے سے اپنے مخالفین کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اور اعلیٰ عہدوں پر موجود افسران کو ہٹا دینے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ صدر شی اپنی ہاں میں ہاں ملانے والوں کے درمیان گھرے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر جیمز چار کا کہنا ہے کہ انھیں افراد کی باہمی سوچ کا خطرہ صدر شی کی قیادت کا ’حقیقی عدم استحکام‘ ہے، کیونکہ یہ چین کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔

درحقیقت یہ گمشدگیاں آبنائے تائیوان میں ایک کشیدہ دور کے دوران ہوئی ہیں، چین نے حالیہ ہفتوں میں وہاں مزید جنگی جہاز اور فوجی طیارے بھیجے ہیں۔

کارنیگی چائنا تھنک ٹینک سے تعلق رکھنے والے ایان چونگ کہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی اور دفاعی سفارت کاری کے حوالے سے رابطے میں کسی قسم کی رکاوٹ ’خاص طور پر تشویشناک‘ ہو گی کیونکہ اس سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کو سنبھالنا ذیادہ مشکل ہو سکتا ہے۔

تاہم بعض دیگرعہدے داروں کا خیال ہے کہ چین کی فوجی قیادت کچھ اعلیٰ عہدیداروں کی تبدیلی کو برداشت کرنےکا حوصلہ رکھتی ہے۔

بیشتر افراد کا ماننا ہے کہ ان گمشدگیوں کے صدر شی کی قیادت کے استحکام پر دیرینہ اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ میں چینی اشرافیہ کی سیاست کے ماہر نیل تھامس کا کہنا ہے کہ جن کیڈرز کواب تک نشانہ بنایا گیا ہے ان میں سے کوئی بھی ان کے قریبی سرکل کا حصہ نہیں ہیں۔

زیادہ تر مبصرین جس بات پر متفق ہو سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ واقعات چینی نظام کی غیر شفافیت کو نمایاں کرتے ہیں۔

ڈاکٹر چونگ کا کہنا ہے کہ ’یہ عملپالیسی کے نفاذ کے تسلسل اور کسی بھی کام کی سطح کے وعدوں یا یقین دہانیوں کی ساکھ کے بارے میں سوالات کو جنم دیتا ہے۔‘

بالآخر، ان اہلکاروں کی گمشدگی کی کارروائیوں نے ’نتائج میں بے چینی ‘ کو ہوا دی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More