Getty Images
پاکستان کرکٹ بورڈ نے آئی سی سی کو لکھے گئے ایک خط میں پاکستانی سکواڈ کو ورلڈ کپ کے لیے ویزا ملنے میں ’غیرمعمولی تاخیر‘ اور انڈیا کی جانب سے ’امتیازی سلوک‘ روا رکھنے کو ’ناقابلِ قبول‘ قرار دیا ہے۔
آئندہ ماہ ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب انڈین ریاست حیدرآباد کے لیے روانہ ہونا ہے تاہم تاحال انڈیا کی جانب سے پاکستانی کھلاڑیوں اور سٹاف کو ویزے جاری نہیں کیے گئے ہیں۔
پاکستان نے اپنا پہلا وارم اپ میچ 29 ستمبر کو نیوزی لینڈ کے خلاف حیدر آباد میں کھیلنا ہے اور پہلے ہی پاکستان کرکٹ ٹیم گذشتہ ہفتے دبئی میں ہونے والی ’ٹیم بلڈنگ ایکسرائز‘ ویزا میں تاخیر کے باعث ملتوی کر چکی ہے۔
پی سی بی کے ترجمان عمر فاروق کیلسن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈین ہائی کمیشن کی جانب سے ہر روز 24 گھنٹے کا وقت دے دیا جاتا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہوا ہے اور اب بات کل پر چلی گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی تمام ٹیموں میں سے صرف پاکستان کو ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے جو ناقابلِ قبول اور اگر اب کل بھی ویزا نہیں دیا جاتا تو معاملہ مزید تاخیر کا شکار ہو گا اور پاکستان کی ورلڈ کپ کے لیے تیاری متاثر ہو گی۔‘
اکثر انڈین صحافیوں کی جانب سے پاکستان کو ویزا ملنے میں تاخیر کی وجہ یہ بتائی جا رہی تھی کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے پاسپورٹ دینے میں تاخیر کی گئی ہے۔
تاہم پی سی بی کی جانب سے آئی سی سی کو لکھے گئے خط میں اس تاخیر کی وجہ ممکنہ طور پر انڈین وزارت داخلہ سے ’این او سی‘ نہ دیا جانا بتایا گیا ہے۔ خیال رہے انڈین وزیرِ داخلہ بی جے پی کے رہنما امت شاہ ہیں جو ماضی میں پاکستان مخالف بیانات دیتے رہے ہیں۔ ان کے بیٹے جے شاہ آج کل بی سی سی آئی کے چیئرمین ہیں۔
عمر فاروق کیلسن کا کہنا تھا کہ ’یہ بات مضحیکہ خیز ہے کہ پاسپورٹ دینے میں تاخیر کی گئی، پاکستان ٹیم جس دن ایشیا کپ سے واپس آئی ہے، تمام پاسپورٹ جمع کروا دیے گئے تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک بین الاقوامی ایونٹ ہے جس کے لیے سالوں پہلے سے منصوبہ بندی کی جاتی ہے، ایسے نہیں ہو سکتا کہ پاسپورٹ تاخیر کی وجہ بنیں۔‘
Getty Imagesآئی سی سی کو لکھے گئے خط میں کیا کہا گیا ہے؟
پی سی بی کی جانب سے آئی سی سی کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ اگر اس طرح کی تاخیر پاکستانی ٹیم اور پی سی بی کے اہلکاروں کو دیکھنے کو مل رہی ہے تو پھر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی مداحوں اور صحافیوں کی ویزا درخواستوں میں کتنی تاخیر ہو گی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان میں بھی اب اس حوالے سے دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے اور دنیا بھر سے مداحوں کے ویزا کے حوالے سے شکایات آ رہی ہیں۔‘
پی سی بی کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ میزبان کے طور پر بی سی سی آئی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والے ممالک کو ویزا کی وقت پر فراہمی کو یقینی بنائے۔
پی سی بی نے آئی سی سی سے اس ضمن میں چار سوال بھی پوچھے ہیں کہ آیا بی سی سی آئی نے بطور میزبان آئی سی سی کو کوئی گارنٹی دی تھی کہ ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والی ٹیموں کو ویزا فراہم کیے جائیں گے۔ اگر بی سی سی آئی پاکستان ٹیم کو بروقت ویزے فراہم نہیں کرتا تو کیا یہ اس معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی؟ اگر ایسا ہے تو بی سی سی آئی کو کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور انڈین حکومت کی جانب سے ویزا نہ دیے جانے کی صورت میں آئی سی سی کیا کارروائی کرے گا؟
یاد رہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان سفارتی کشیدگی کرکٹ پر بھی اثر انداز ہوتی رہی ہے۔
Getty Imagesسنہ 2011 کے ورلڈ کپ میں موہالی میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان سیمی فائنل کھیلا گیا تھا جسے دیکھنے کے لیےپاکستان کے س وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی بھی گئے تھےسیاسی تناؤ اور ورلڈ کپ کے شیڈول کے اعلان میں تاخیر
پاکستان کی کرکٹ ٹیم اس سے پہلے سنہ 2012-13 میں ون ڈے سیریز کھیلنے کے لیے انڈیا گئی تھی جس میں پاکستان نے انڈیا کو تین صفر سے شکست دی تھی۔
اس کے بعد سے دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان سیاسی تناؤ کے باعث پاکستان اور انڈیا نے ایک دوسرے کے ملک میں جا کر سیریز کھیلنے سے انکار کیا۔
گذشتہ دس برس میں پاکستان نے انڈیا جا کر سنہ 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شرکت کی تھی۔
اس ورلڈ کپ سے پہلے بھی ایشیا کپ میں انڈیا کی پاکستان آنے سے معذرت کے بعد سے دونوں بورڈز کے سربراہان کے درمیان دبئی میں ملاقاتیں ہوئی تھیں جس کے بعد ایشیا کپ کو ہائبرڈ ماڈل پر کھیلنے پر اتفاق ہوا تھا۔
اس ورلڈ کپ کے شیڈول اور پاکستان انڈیا میچ کی تاریخ بھی متنازع رہی تھی۔ عام طور پر ورلڈ کپ کا شیڈول کئی ماہ پہلے سامنے آ جاتا ہے تاہم اس مرتبہ شیڈول کا اعلان صرف دو ماہ پہلے کیا گیا۔
اسی طرح ابتدائی طور پر انڈیا اور پاکستان کا میچ 15 اکتوبر کو احمد آباد میں شیڈول تھا تاہم اسی روز ہندوؤں کے تہوار نوراتری کا پہلا روز ہونے کی وجہ سے اب یہ میچ ایک دن قبل یعنی 14 اکتوبر کو کھیلا جائے گا۔
یہی نہیں حیدرآباد کی پولیس کی پولیس کی جانب پاکستان ٹیم کو 29 ستمبر کو کھیلے جانے والے پہلے وارم اپ میچ کے لیے سکیورٹی فراہم کرنے معذوری ظاہر کی تھی جس کے بعد اب اس میچ میں تماشائیوں کو آنے کی اجازت نہیں ہو گی۔