کویت، عراق جنگ میں یرغمال بنائی جانے والی خاتون: ’میں نے سوچا آخری وقت آ چکا اب وہ ہمیں گولی ماریں گے‘

بی بی سی اردو  |  Sep 27, 2023

برایونی رینولڈس نے یکم اگست 1990 کو اس مسافر طیارے میں سوار تھیں جس نے دہلی سے کویت شہر کے لیے پرواز بھری تھی۔ برایونی رینولڈس کی عمر اُس وقت 24 سال تھی اور وہ طیارے کے کیبن کریو کی ممبر تھیں۔

پلان یہ تھا کہ کویت پہنچ کر انھیں اگلے ہی روز یعنی دو اگست کو واپس لندن جانے والی پرواز میں سوار ہونا تھا۔

دو اگست کی صبح برٹش ایئرویز کی ایک پرواز بی اے 149 ایندھن بھرنے کے لیے کویت ایئرپورٹ پر اُتری۔

برایونی رینولڈس اب 58 سال کی ہیں اور بیڈ فورڈ شائر میں ہارلنگٹن کے قریب رہتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب وہ کویت کے ریجنسی پیلس ہوٹل میں دو اگست کی صبح بیدار ہوئیں تو ان کے دروازے کے نیچے سے انھیں ایک تحریر ملی۔

تحریر میں کہا گیا کہ کویت پر حملہ ہو گیا ہے۔

جس ہوٹل میں وہ ٹھہری ہوئی تھیں اس کی لابی مسلح عراقی فوجیوں سے ’پوری طرح بھری‘ ہوئی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ یہ صورتحال دیکھ کر ’اُس وقت مجھے احساس ہو گیا کہ ہم بڑی مصیبت میں پھنس چکے ہیں۔‘

انھوں نے اور ان کے ایئر لائن کے عملے کے دیگر ساتھیوں نے اپنے اپنے اہلخانہ سے فون پر بات کرنے کی کوشش کی لیکن ٹیلی فون لائنیں کاٹ دی گئی تھیں۔

بعد میں فلائٹ بی اے 149 کے مسافر اور عملہ بھی اسی ہوٹل میں آ گیا کیونکہ عراقیوں نے اس مسافر طیارے کو خالی کرا کر تباہ کر دیا تھا۔

BBCبی اے 149 طیارے کو دھماکے سے اڑا دیا گيا تھا

اگلے تین ہفتوں تک وہ ہوٹل میں پھنسے رہے کیونکہ عراقی فوج اس ہوٹل کو ایک اڈے کے طور پر استعمال کر رہی تھی۔

18 اگست کو ہوٹل میں ’یرغمال‘ بنائے گئے غیرملکی شہریوں سے ان کے پاسپورٹ لے لیے گئے اور انھیں بسوں میں ٹھونس کر کویت کی ہسپتال یونیورسٹی لے جایا گیا۔

رینولڈس کہتی ہیں کہ ’میں پوری طرح سے گھبرائی ہوئی تھی۔‘

’آپ کے خیالات صرف تاریخ کے حوالے سے پیدا ہوتے ہیں کہ جب دوسری عالمی جنگ میں لوگوں کو الگ کیا گیا تھا تو کیا ہوا تھا۔ میرے ذہن میں بھی یہ بات آئی کہ یہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔‘

یونیورسٹی میں انھیں 12، 12 افراد پر مشتمل گروپس میں تقسیم کر دیا گيا اور ایک گروپ کو ایک وقت میں ایک ساتھ لے جایا گيا۔

انھوں نے کہا: ’ہم نے سوچا کہ فائرنگ سکواڈ کے لیے 12 ایک اچھی تعداد ہے۔ اور پھر جب ہماری باری آئی تو میرا دل بے انتہا تیزی کے ساتھ دھڑک رہا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ اس کے بجائے انھیں ایک گھر میں لے جایا گیا جہاں دیواروں پر چاروں طرف گندگی تھی۔ انھیں چٹائیوں کے ساتھ وہیں سونے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔

پہلی رات رینولڈس کے گروپ کو کھانے کے لیے ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں انھیں ’بھیڑ کا سر جس کی آنکھیں ابھی تک موجود تھیں، ایک قسم کے چکنائی والے سرمئی شوربے میں‘ کھانے کے لیے پیش کیا گیا۔

انھوں نے کہا: ’اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ہمارے پاس کھانے کے لیے یہی بہترین کھانا ہے تو شاید میں تھوڑا اور کھانے کی کوشش کرتی۔‘

اگلے دن انھیں کویتی شاہی خاندان کے سمر پیلس میں منتقل کر دیا گیا۔ ’آپ جیسا سوچ رہے ہیں وہ اتنا عظیم الشان نہیں تھا۔‘

انھیں صرف دو بار ورزش کے لیے باہر جانے کی اجازت دی جاتی تھی اور انھیں ٹیلی ویژن پر عراقی رہنما صدام حسین کی تقریریں دکھائی جاتی تھیں۔

رینولڈس نے کہا کہ ’ہمیں زندہ بچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ بس یہی سوال تھا کہ وہ ہمیں کب گولی مارنے والے ہیں، ہمیں زندہ نکلنے کی کوئی امید نہیں تھی۔‘

تاہم بعد ازاں خواتین اور بچوں کو رہا کر دیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ آزادی کے راستہ 40 ڈگری سینٹی گریڈ گرمی میں صحرا سے ہوتا ہوا بغداد تک 17 گھنٹے کا سفر تھا۔

انھوں نے مزید کہا: ’ایک موقع پر ہم بصرہ کے بالکل باہر رک گئے۔ وہ (فوجی) ہمیں کوچ سے ریگستان میں کھودے ہوئے ایک بڑے گڑھے کی طرف لے جانے لگے تو میں نے سوچا کہ ہمارا آخری وقت آ گیا ہے، وہ ہمیں گولی مار دیں گے۔‘

’پھر وہ ہنسے اور ہم سب کو بس میں واپس لے آئے۔ انھیں ہمیں اس طرح تنگ کرنا پسند تھا۔‘

انھیں عراق کے ایک ہوٹل میں لے جایا گیا جہاں یرغمالیوں سے کہا گیا کہ وہ سب ’اسی صورت میں گھر جا پائیں گے اگر انھیں ان کا پاسپورٹ دیا جائے۔‘

بہرحال رینولڈس کو ان کی 25 ویں سالگرہ کے دن ان کا پاسپورٹ واپس کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

صدام حسین نے جن مسافروں کو بطور ’انسانی ڈھال‘ استعمال کیا وہ آج بھی جواب کے منتظر ہیں

آپریشن وکٹرسرچ: ایک لاپتہ فوجی طیارے کی کہانی جسے ماہی گیروں نے ڈھونڈ لیا

اور پھر دو ستمبر کو وہ برطانیہ کے ہیتھرو ایئرپورٹ پہنچیں۔ ان کے مرد ساتھی دسمبر تک گھر نہیں پہنچ سکے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ انھیں برٹش ایئرویز میں کام پر واپس آنے کے لیے ’پریشان‘ کیا گيا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’برٹش ایئرویز سے مجھے ہر روز فون آتا تھا۔ وہ کہتے کہ یہ ایک ’کیئر کال‘ ہے اور مجھے بتاتے کہ میں جتنی چاہوں چھٹی لے سکتی ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ مجھ سے پوچھتے کہ میں کب واپس آ سکتی ہوں۔‘

انھیں ابتدا میں ’بڈی روسٹرز‘ پر رکھا گیا، جس میں یہ ہوتا ہے آپ ایک قابل اعتماد ساتھی کے طور پر انھی پروازوں پر ہوں گے۔

BBCآخری یرغمالی کے آتے آتے کرسمس آ چکا تھا

بہر حال انھوں نے کہا کہ یہ زیادہ دنوں تک نہیں رہا۔ رینولڈز نے دعویٰ کیا کہ انھیں بتایا گیا کہ ’دیگر لڑکیاں مجھ سے تنگ آ چکی ہیں‘ اور انھیں ان کے اپنے سابق یرغمالی ساتھیوں سے دور رکھا گیا۔

’ہم سب کو (لازمی طور پر) کافی سالوں تک ایک دوسرے سے الگ رکھا گیا اور ہمیں یہ بتایا جاتا رہا کہ صرف ہم ہی تکلیف میں ہیں اور باقی سب اس کا مقابلہ کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا: ’اب ہم جانتے ہیں کہ یہ سچ نہیں تھا۔‘

’ہم سب نے محسوس کیا ہے کہ ہم نہ صرف کویت میں ایک مشترکہ تجربے سے گزرے بلکہ جب سے ہم واپس آئے ہیں ہم ایک مشترکہ تجربہ سے گزرے تھے۔‘

برطانیہ واپسی کے تقریباً چھ ماہ بعد نجی طور پر ان میں پوسٹ ٹراما کے مرحلے پی ٹی ایس ڈی کی تشخیص ہوئی۔

لیکن سنہ 1997 تک کئی سالوں تک جدوجہد کرنے کے بعد انھیں طبی بنیادوں پر ریٹائر کر دیا گیا۔

انھوں نے کہا: ’میں سوچنے لگی کہ میں 30 سال سے پاگل ہوں، میں نہیں چاہتی کہ کوئی اور اس طرح کا محسوس کرے جیسا میں نے محسوس کیا۔‘

رینولڈس ان سابقہ یرغمالیوں میں سے ایک ہیں جو اگلے چند مہینوں میں لندن ہائی کورٹ میں پیش کیے جانے والے دعوے میں شامل ہیں۔

اس گروپ کے لیے پیروی کرنے والی قانونی فرم ’میک کیو جیوری اینڈ پارٹنرز‘ نے کہا کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ حکومت اور برٹش ایئرویز کو معلوم تھا کہ عراق کا کویت پر حملہ شروع ہو چکا ہے لیکن پھر بھی انھوں نے طیارے کو کویت میں اُترنے کی اجازت دی کیونکہ ان طیاروں کو کویت میں فوجی آپریشن کے لیے ٹیم داخل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔

برٹش ایئرویز کے ایک ترجمان نے کہا کہ ’ہمارا دل ان تمام لوگوں کے لیے دعا گو ہے جو 30 سال قبل جنگ کے اس حیران کن مرحلے میں پھنس گئے تھے اور جنھیں واقعی ایک ہولناک تجربے سے گزرنا پڑا تھا۔‘

’سنہ 2021 میں جاری ہونے والے برطانوی حکومت کے ریکارڈ نے تصدیق کی ہے کہ برٹش ایئرویز کو حملے کے بارے میں خبردار نہیں کیا گیا تھا۔‘

لیکن انھوں نے ایئر لائن کے ذریعے رینولڈس کے علاج کے بارے میں کیے جانے والے دعووں پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

حکومت کے ایک ترجمان نے کہا: ’ان واقعات اور ان مسافروں اور عملے کے ساتھ بدسلوکی کی تمام تر ذمہ داری مکمل طور پر اس وقت کی عراق کی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔‘

برٹش ایئرویزسے سبکدوش ہونے کے بعد رینولڈس نے اداکاری کی تربیت حاصل کی اور اب ٹوڈنگٹن میں ایک چھوٹی سی تھیٹر کمپنی چلا رہی ہیں۔

لیکن کویت کی دہشت کی کہانی لمبی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اب بھی جب میں سوتی ہوں میں تو کویت کا خواب دیکھ رہی ہوتی ہوں، میرے دماغ کا ایک حصہ اب بھی وہیں ہے، وہ جاتا ہی نہیں ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More