’ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ کے بعد ماں نے بتایا کہ میرے اصلی والد سے ان کی پرتگال میں ملاقات ہوئی تھی‘

بی بی سی اردو  |  Sep 30, 2023

BBCلیوک ڈیویز

انگلینڈ میں مانچسٹر کے مضافات میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں روچڈیل میں پرورش پانے والےلیوک ڈیویز ہمیشہ سے ہی خود کو اپنے خاندان سے قدرے مختلف محسوس کرتے تھے۔

اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’میں نے سوچا کہ میں ہم جنس پرست ہوں کہیں اسی لیے تو ایسا نہیں ہے کہ خاندان سے خود کو الگ محسوس کرتا ہوں۔‘

یہاں تک کہ جب وہ اپنے والدین لز اور گیری کے ساتھ 18 سال کے ہو گئے اور وہ انھیں چاہتے بھی تھے تاہم وہ بہت ہی عجیب محسوس کرتے تھے۔

لیوک اس حوالے سے مسلسل سوچوں میں گم رہتے اور اپنے آپ سے ہی سوال کرتے رہتے۔ دوسری جانب اب لوگبھی ان کی ظاہری خد و خال کو دیکھ کر ان کے بارے میں رائے دینے سے نہ چوکتے تھے۔

ایک بار جب وہ انٹرویو کے لیے گئے تو ہائرنگ مینیجر نے ان سے کہا کہ ’آپ کو یقینی طور پر تین کیٹیگریز میں سے ایک کو منتخب کرنا ہو گا۔ اور اس درجہ بندی میں ’ورکنگ کلاس، ہم جنس پرست اور ان کے والدین کی مختلف نسل‘ شامل تھی۔

لیوک کی پرورش سفید فام برطانوی والدین نے کی تھی، اس لیے اگر کوئی ان سے ایسا کچھ کہتا تو وہ الجھن میں پڑ جاتے۔ انھیں کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔

آخر کار انھوں نے ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہاپنے بارے میں کچھ ٹھوس معلومات حاصل کر سکیں اور اپنے اندر اٹھنے والے سوالات کو حل کر سکیں۔

جنوری سنہ 2019 میںلیوک کا ڈی این اے ٹیسٹ ہوا اور پلک جھپکتے ہی ان کی زندگی بدل گئی۔

اس کے بعد کے تین سالوں میں ان میں اور ان کے خاندان میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ انھوں نے بی بی سی تھری کے ’سٹرینجر ان مائی فیملی‘ پروگرام میں اپنے اسسفر کے بارے میں بات کی ہے۔

کتنی راتیں بے خواب گزاریں

جینیاتی علوم کی ماہر لورا ہاؤس کا کہنا ہے کہ ’ڈی این اے ٹیسٹ کروانا بہت آسان ہے۔ آپ کو ایک ٹیوب میں تھوکنا ہوتا ہے اور اسے لیبارٹری بھیجنا ہوتا ہے۔ پھر آپ کو نتائج آن لائن مل جاتے ہیں۔‘

لورا مزید کہتی ہیں کہ ٹیسٹ دو قسم کے نتائج فراہم کرتا ہے: ’پہلا نسلی ہے، جو آپ کے ڈی این اے کے ایک بڑے ڈیٹا بیس سے موازنہ کرتا ہے اور مماثلت تلاش کرتا ہے۔‘

لیوک بتاتے ہیں کہ ان دنوں انھوں نے نتائج کے انتظار میں کئی راتیں بغیر سوئے گزاری تھیں۔

اب وہ اس فکر میں مبتلا تھے کہ آگے کیا ہوگا۔

27 سال کی عمر میں لیوک نے ڈی این اے ٹیسٹ سےاپنے بارے میں جان لیا کہ ان کے حیاتیاتی والد افریقی اور پرتگالی تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ انھوں نے جس گیری کو اپنی پوری زندگی والد کہا، وہ ان کے والد نہیں بلکہ ان کا تو کوئی اور ہی والد تھا۔

'یہ نتائج میرے لیے بہت حیران کن تھے‘

نتائج موصول ہونے کے چند دن بعد لیوک نے اپنی ماں لز سے بات کی۔ انھیں یاد ہے کہ وہ یہ گفتگو کرتے ہوئے بارہا اشکبار ہوئے۔

ان کی والدہ نے انھیں بتایا کہ گیری سے ملنے کے چند ہفتے بعد وہ دوستوں کے ساتھ چھٹیاں گزارنے پرتگال گئیں، جہاں ان کا کارلوس نامی بارٹینڈر کے ساتھ جنسی تعلق بن گیا تھا۔

تاہم ان کی ماں نے 27 سالوں تک اس بات کو خفیہ رکھا تھا۔

لیوک کہتے ہیں کہ ’اس صورتحال کی وجہ سے ہمیں بہت سی چیزوں سے نمٹنا پڑا جن کے لیے ہم تیار نہیں تھے۔ لیکن ہم نے بغیر کسی غصہ اور جذباتی پن کے ان چیزوں کے بارے میں سکون سے بات کی۔

’ہم سب انسان ہیں، اور ہم سب میں کچھ نہ کچھ خامیاں ہیں اور ہمیں ان تمام چیزوں پر اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کا حق ہے۔‘

تاہم ان نتائج کا لیوک پر اثر پڑا۔ انھوں نے اپنی نوکری چھوڑ دی۔ انھوں نے بتایا کہ اس حقیقت کے سامنے آنے کے بعد ان کی ذہنی صحت بھی متاثر ہوئی۔

ڈی این اے کے نتائج کے باعث لیوک کو یہ سمجھنے میں مدد ہوئی کہ وہ اکثر لوگوں کے ایک گروپ میں ایک اجنبی شخص کی طرح کیوں محسوس کرتے تھے تاہم ان نتائج نے کئی نئے سوالات کو بھی جنم دیا۔

لیوک نے پورے وثوق سے کہا کہ ’آپ کو ہر گفتگو یا ہر لمحہ یاد آتا ہے جب آپ اذیت سے گزرے تھے۔ بظاہر میری ماں کو بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی صورتحال کا شکار ہیں۔‘

لیوک کو یاد ہے کہ بچپن میں روچڈیل کے رہائشی ان سے پوچھا کرتے تھے کہ ’آپ حقیقتاً کہاں کے ہیں؟‘

اپنی نئی شناخت کے ساتھ رہنے کی جدوجہد کرتے ہوئے لیوک نے فیصلہ کیا کہ انھیں اپنے حیاتیاتی والد کو تلاش کرنا ہو گا لیکن اس معاملے میں سب سے بڑا خوف یہ تھا کہ ’یہ حقائق ان کے خاندان کو تباہ کر دیں گے۔‘

اپنے والدین سے بات کرنے کے بعد لیوک کارلوس کی تلاش شروع کرتے ہیں اور اس معاملے میں لورا سے مدد مانگتے ہیں۔

اس کے لیے انھوں نے 23 ملین سے زیادہ لوگوں کا آن لائن ڈیٹا بیس استعمال کیا۔ ان لوگوں نے بھی اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا تھا۔ لورا کی مدد سے ہی لیوک نے اپنے حیاتیاتی دادا اور ایک اور قریبی رشتہ دار کی شناخت کرنے میں کامیابی حاصل کی۔

اس نئی معلومات کی بنیاد پر لیوک نے مزید جاننے کے لیے پرتگال کا سفر کیا۔

وہاں لیوک نے اینجلا کیمپوس سے ملاقات کی۔ اینجلا ایک پرتگالی ماہر نسب ہیں اور انھوں نے کارلوس کو تلاش کرنے میں لیوک کی مدد کی۔

انھیں پتا چلا کہ کارلوس کس بار (شراب خانے) میں کام کرتے ہیں۔ لیوک وہاں کارلوس سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

کارلوس نے لیوک کو بتایا کہ وہ اب لندن میں رہتے ہیں اور یہ کہ وہ بخوشی ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کے لیے راضی ہیں۔

ان کے ٹیسٹ کے نتائج نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ کارلوس ہی لیوک کا حیاتیاتی والد تھے۔

بہت سے لوگوں کو پتا لگنے میں کافی دیر ہو جاتی ہے

کارلوس بھی لیوک سے ملنے کے لیے پرجوش تھے اور وہ اپنے دو بیٹوں کے ساتھ ان سے ملنا چاہتے تھے۔ بہرحال ان سے ملنے کے بعد لیوک کو یوں محسوس ہوا کہ وہ بھی ان کے اپنے ہی ہیں اور وہ ان کے ساتھ فوراً ہی گھل مل گئے۔

لیوک کہتے ہیں کہ ’میرا اپنے والد اور بھائیوں سے ملنا ایک ناقابلِ یقین حد تک خوبصورت لمحہ تھا۔

’میں نے ایسا بالکل بھی محسوس نہیں کیا کہ میں ان کی زندگی میں فٹ ہونے کی کوشش کر رہا ہوں۔‘

اپنے حیاتیاتی خاندان کو جاننے کے بعد لیوک کو اپنی شناخت کو بہتر طریقے سے قائم کرنے میں مدد ملی۔

ان کی دادی گنی بساؤ کے پیسیفک جزیرے کی رہنے والی ہیں۔ پہلی بار جب لیوک نے ان کے ساتھ اپنی تصویر دیکھی تو انھیں پہلی ہی بار میں اپنے افریقی نسب سے واقعی جڑا ہوا محسوس ہوا۔

لیوک اب کسی اجنبی کی طرح محسوس نہیں کرتے۔

انھوں نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ تمام اختلافات جنھوں نے مل کر مجھے بنایا ہے وہ میری زندگی کے بہترین حصے ہیں۔‘

اپنے حیاتیاتی والد سے ملنے کے بعد سے لیوک کا اپنے والدین اور کارلوس دونوں کے ساتھ قریبی اور پرخلوص رشتہ ہے۔

لورا کو ایسے ہی کسی نتیجے کی توقع تھی۔ انھوں نے کہا کہ ’بہت سے لوگ (اپنے حیاتیاتی خاندان کو تلاش کرنے کے لیے) بہت دیر سے نکلے اور جب تک وہ ان کا اتا پتا چلانے میں کامیاب ہوتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر مر چکے ہوتے ہیں۔ اس لیے انھیں اپنے سوالوں کا کوئی جواب نہیں مل پاتا ہے۔‘

ایسا لگتا ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹنگ کو بڑھانا لیوک جیسے لوگوں کی مدد کرنے میں خاصی اہمیت کا حامل ہے۔

لورا وضاحت کرتی ہیں کہ ’20 سال پہلے اگر آپ نہیں جانتے تھے کہ آپ کے والد کون ہیں، تو آپ کے پاس یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔‘

بہر حال اپنے حیاتیاتی والد کی تلاش نے لیوک کو اپنے بارے میں بھی بہت کچھ سکھایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں تین سال کے اس سفر پر رہا ہوں جہاں مجھے ہر قسم کے جذبات کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اس عمل میں مجھے احساس ہوا کہ میں اس زندگی کے لیے کتنا شکر گزار ہوں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More