کائنات میں خلائی مخلوق کی تلاش جو اب ’کچھ ہی دیر کی بات رہ گئی ہے‘

بی بی سی اردو  |  Sep 30, 2023

اکثر ماہرین فلکیات اب یہ نہیں پوچھتے کہ کیا کائنات میں کہیں اور بھی زندگی موجود ہے بلکہ اب ان کے ذہنوں میں سوال یہ ہے کہ ہم اسے کب تلاش کر پائیں گے؟

اکثر ماہرین کو امید ہے کہ ہماری زندگیوں میں ہی، شاید اگلے چند برسوں میں ہم کائنات میں کہیں زندگی کے آثار کا پتہ لگانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

ایک سائنسدان جو مشتری پر آئندہ کچھ عرصے میں جانے والے ایک مشن کے سربراہ ہیں کہتے ہیں کہ سیارے کے جومتعدد برفیلے چاند ہیں ان میں سے کسی پر اگر زندگی نہ ہوئی تو یہ ان کے لیے ’حیرت کی بات‘ ہو گی۔

ناسا کی جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ (جے ڈبلیو ایس ٹی) نے حال ہی میں ہمارے نظام شمسی سے باہر ایک سیارے پر زندگی کے غیر معمولی آثار دریافت کیے ہیں اورابھی کائنات کے ایسے کونوں پر بھی ان کی نظر ہے جہاں ممکنہ طور پر زندگی موجود ہو سکتی ہے۔

ایسے کئی مشنز جو یا تو اس وقت جاری ہیں یا شروع ہونے والے ہیں ہمارے وقت کی سب سے بڑی سائنسی دریافت کرنے کے لیے ایک نئی خلائی دوڑ کا حصہ ہیں۔

سکاٹ لینڈ کی ’ایسٹرونمر رائل‘ (ایک ایسا نام جو 200 سال سے سکاٹ لینڈ میں بہترین ماہرِ فلکیات کو دیا جاتا ہے)پروفیسر کیتھرن ہیمانز کہتی ہیں کہ ’ہم لامحدود ستاروں اور سیاروں کے ساتھ ایک لامحدود کائنات میں رہتے ہیں اور یہ ہم میں سے بہت سے لوگوں پر عیاں ہو چکا ہے کہ ان میں صرف شاید ہم ہی ذہین ترین نہیں ہیں۔‘

’اب ہمارے پاس اس سوال کا جواب دینے کی ٹیکنالوجی اور صلاحیت موجود ہے کہ کیا ہم کائنات میں اکیلے ہیں۔‘

’گولڈی لاکس زون‘

ٹیلی سکوپس کے ذریعے اب ایسے ستاروں کے گرد چکر لگانے والے سیاروں کے ماحول کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے جو ہماری دنیا سے بہت دور موجود ہیں اور ان ٹیلی سکوپس کو ایسے کیمیکلز کی تلاش ہوتی ہے جو زمین پر کم از کم صرف جاندار ہی پیدا کر سکتے ہیں۔

اس طرح کی ایک دریافت رواں ماہ کے شروع میں سامنے آئی تھی۔ زمین سے 120 نوری سال کے فاصلے پر موجود ایک سیارہ جس کا نام کےٹو-18بی ہے پر ایک ایسی گیس کی موجودگی کا پتہ چلا تھا جو عام طور پر زمین پر سمندر میں موجود جاندار پیدا کرتے ہیں۔

یہ سیارہ اس زون میں آتا ہے جسے ماہرین فلکیات ’گولڈی لاکس زون‘ کہتے ہیں۔ یہ وہ حصہ ہے جو کہ اپنے ستارے سے ایک مناسب فاصلے پر موجود ہے جس کے باعث یہاں درجہ حرارت نہ تو بہت زیادہ گرم ہوتا ہے اور نہ ہی بہت ٹھنڈا بلکہ بالکل ایسا کہ جو یہاں مائع پانی کی موجودگی یقینی بناتا ہے جو زندگی کی موجودگی کے لیے ضروری ہے۔

NASA

اس سیارے پر کام کرنے والی ٹیم کو ایک سال کے عرصے میں یہ معلوم ہونے کی توقع ہے کہ آیا بظاہر غیرمعمولی شواہد اصل میں مصدقہ ہیں یا اب موجود نہیں اور صرف کچھ دیر کے لیے ہی تھے۔

کیمبرج یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف ایسٹرونومی کے پروفیسر نکّو مدھوسودھناس تحقیق کی قیادت کر رہے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر ان شواہد کی موجودگی تصدیق ہو جاتی ہے تو ’یہ زندگی کی تلاش کے بارے میں ہمارے سوچنے کے انداز کو یکسر بدل دے گی۔‘

اگر ہمیں اپنی تحقیق میں پہلے ہی سیارے پر زندگی کے آثار ملتے ہیں تو اس سے کائنات میں (زمین کے علاوہ بھی)زندگی کی موجودگی کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔

اگر ان کی ٹیم کو سیارے کےٹو-18بی پر زندگی کے آثار نہیں ملتے تو ان کی ٹیم کے پاس مزید تحقیق کے لیے گولڈی لاس زون میں موجود مزید 10 سیارے ہیں اور ممکنہ طور پر اس کے بعد بھی بہت سے ایسے سیارے ہوں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر کچھ ثابت نہیں بھی ہوتا تو یہ ہمیں ’ایسے سیاروں پر زندگی کو موجودگی کے امکان سے متعلق اہم معلومات فراہم کرے گا۔‘

پروفیسر مدھوسودھن پیش گوئی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پانچ سالوں میں کائنات میں زندگی کے بارے میں ہماری سوچ میں ’ایک بڑی تبدیلی‘ آ جائے گی۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اس وقت تک ہمیں کے2-18بی جیسے نصف درجن سیاروں کا مطالعہ کرنے کا موقع مل چکا ہو گا یا ایسے سیاروں کا بھی جو ان سے قدرے گرم ہیں۔‘

ان کی یہ تحقیق ایسے کئی پراجیکٹس میں سے ایک ہے جو کائنات میں زندگی کے آثار ڈھونڈنے کے لیے یا تو جاری ہیں یا مستقبل قریب میں شروع ہونے کو ہیں۔ ان میں سے کچھ ہمارے نظامِ شمسی میں موجود دیگر سیاروں پر تحقیق کر رہے ہیں، جب باقی ’ڈیپ سپیس‘ یعنی خلا میں دور دراز سیاروں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔

NASA

لیکن ناسا کی جمیز ویب ٹیلی سکوپ طاقتور ہونے کے باوجود کچھ معاملات میں محدود بھی ہے۔ زمین کے حجم اور سورج سے اس کا فاصلہ یہاں زندگی کی موجودگی کو یقینی بناتا ہے۔ تاہم جیمز ویب ٹیلی سکوپ زمین سے غیر معمولی فاصلے پر موجود اپنے حجم جتنے یا (کےٹو-18بی زمین سے آٹھ گنا بڑا ہے) یا جن ستاروں کے گرد یہ سیارے گردش کر رہے ہیں ان کے حجم جتنے سیاروں کو نہیں دیکھ پائے گا کیونکہ ستارے کی چمک کے باعث یہ اسے دکھائی نہیں دیں گے۔

لہذا ناسا کا منصوبہ ہے کہ ہیبیٹیبل ورلڈ آبزرویٹری (ایچ ڈبلیو او) سنہ 2030 کی دہائی میں کام کرنے لگے گی۔ یہ ایک انتہائی مؤثر اور جدید ’سن شیلڈ‘ ہو گی جو اس ستارے کی روشنی کو بہت کم کر دے گا جس کے گرد سیارہ گردش کر رہا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمین جیسے سیاروں کے ماحول کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے نمونے بھی حاصل کر سکے گا۔

اس دہائی کے آخر میں انتہائی بڑی ٹیلی سکوپ (ای ایل ٹی) بھی فعال ہونے والی ہے جو کہ چلی کے صحرا سے صاف شفاف ماحول میں خلا کا جائزہ لے رہی ہو گی۔

اس میں نصب آئینے کا قطر 39 میٹر ہے جو کسی بھی آلے میں موجود اب تک کا سب سے بڑا آئینہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ گذشتہ تمام ٹیلی سکوپس کے مقابلے سیاروں کے ماحول کا بہت تفصیل سے مطالعہ کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔

ماحول کا تجزیہ کرنے والی ان تینوں ٹیلی سکوپس میں ایک تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے جسے کیمیا دان گذشتہ سینکڑوں سالوں سے استعمال کرتے آئے ہیں تاکہ مواد میں موجود کیمیکلز کی ان سے نکلنے والی روشنی کے ذریعے نشاندہی کی جا سکے۔

تاہم یہ ٹیلی سکوپس اتنی زیادہ طاقتور ہیں کہ وہ سیکڑوں نوری سال کے فاصلے پر ستارے کے گرد چکر لگانے والے سیارے کے ماحول سے روشنی کی چھوٹی سی کرن کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

روشنی کس طرح سیارے کے ماحول کو ظاہر کرتی ہے؟NASA

جہاں بہت سے ماہر فلکیات زندگی کی موجودگی کے لیے دور دراز کے سیاروں کی طرف دیکھ رہے ہیں جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی اس تلاش کے مرحلے کو محدود کیے ہوئے ہیں، یعنی اپنے نظام شمسی کے سیاروں تک محدود ہیں۔

سیاروں میں زندگی کے سب سے زیادہ امکانات مشتری کے چاند یوروپا پر ہیں، جو کہ اس کے متعدد برفیلے چاند میں سے ایک ہے۔

یہ ایک خوبصورت دنیا ہے جس کی سطح پر دراڑیں ہیں جو شیر کی دھاریوں کی طرح نظر آتی ہیں۔ یوروپا کی برفیلی سطح کے نیچے ایک سمندر ہے، جہاں سے پانی کے بخارات نکل کر خلا میں شامل ہوتے ہیں۔

ناسا کا کلیپر اور یورپی سپیس ایجنسی (ای ایس اے) کا جوپیٹر آئسی مون ایکسپلورر (جوس) وہ دونوں مشن ہیں سنہ 2030 کی دہائی کے اوائل میں وہاں پہنچیں گے۔

NASA

سنہ 2012 میں جوس مشن کی منظوری کے فوراً بعد میں نے یورپی مشن کی سرکردہ سائنسدان پروفیسر مشیل ڈوہرٹی سے پوچھا کہ کیا ان کے خیال میں زندگی کی تلاش کا کوئی امکان بھی ہے۔ انھوں نے جواب دیا تھا کہ ’یہ حیرت کی بات ہو گی کہ اگر مشتری کے برفیلے چاندوں میں سے ایک پر زندگی نہ ہو گی۔‘

ناسا زحل کے گرد پائے جانے والے چاند میں سے ایک ٹائٹن پر اترنے کے لیے ’ڈریگن فلائی‘ نامی خلائی جہاز بھی بھیج رہا ہے۔

یہ ایک اور دنیا ہے جس میں کاربن سے بھرپور کیمیکلز سے بنی جھیلیں اور بادل ہیں جس کی وجہ سے وہاں نارنجی رنگ کا کہرا جما ہوتا ہے۔ پانی کے ساتھ ساتھ ان کیمیکلز کو زندگی کے لیے ضروری جزو سمجھا جاتا ہے۔

مریخ اس وقت تو جانداروں کے لیے بہت زیادہ غیر موزوں ہے لیکن ماہرین فلکیات کا خیال ہے کہ یہ سیارہ کبھی سرسبز تھا اور وہاں گھنے جنگلات اور سمندر تھے اور یہ زندگی کی موجودگی کے لیے موزں ماحول تھا۔

ناسا کا پرزروینس روور اس وقت ایک ایسے گڑھے سے نمونے اکٹھے کر رہا ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ یہ ایک قدیم دریا کا ڈیلٹا یعنی اُس کا وسطی حصہ تھا۔

سنہ 2030 کی دہائی میں ایک الگ مشن کے تحت ان پتھروں کو زمین پر لایا جائے گا تاکہ ممکنہ مائیکرو فوسلز کا تجزیہ کیا جا سکے جو اب سے پہلے ختم ہو چکے ہیں۔

یہ ان بہت سے منصوبوں میں سے کچھ ہیں جو ہمارے نظام شمسی میں سیاروں پر زندگی کے آثار تلاش کرنے کے لیے جاری ہیں یا آنے والے سالوں میں تلاش کے کام کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ بعض دوسرے نظام شمسی سے بہت آگے دور خلا میں زندگی کی تلاش کر رہے ہیں۔

کیا وہاں موجود ایلیئنز ہم تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں؟

کچھ سائنسدان اسے سائنس فکشن سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں اس کے امکانات بہت کم ہیں لیکن خلا سے موصول ہونے والے ریڈیو سگنلز کی تلاش کئی دہائیوں سے جاری ہے اور سرچ فار ایکسٹرا ٹیریسٹریل انٹیلی جنس (سیٹی) انسٹیٹیوٹ کے ذریعے اس پر کام کیا جا رہا ہے۔

خلا میں تمام جگہ دیکھنا ایک بہت مشکل کام ہے کیونکہ یہ لا محدود ہے اس لیے فی الحال ان کی تلاش خاصی بے ترتیب رہی ہے۔

تاہم جے ڈبلیو ایس ٹی جیسی ٹیلی سکوپس کی صلاحیت سے خلائی مخلوق کی موجود ہونے کے ممکنہ مقامات کی نشاندہی کرنے کا مطلب ہے کہ سیٹی انسٹیٹیوٹ اپنی توجہ کچھ مخصوص مقامات پر مرکوز کر سکتا ہے۔ کائنات میں زندگی کے مطالعہ کے لیے سیٹی انسٹیٹیوٹ کے کارل ساگن سینٹر کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نتھالی کیبرول کے مطابق ’اس سے تحقیق میں نئی امنگ پیدا ہوئی ہے۔‘

انسٹیٹیوٹ نے اپنی ٹیلی سکوپ کو جدید بنایا ہے اور اب وہ دور دراز کے سیاروں سے ملنے والے ریڈیو سگنلز کی تلاش کے لیے ان آلات کا استعمال کر رہا ہے۔

ایک انتہائی سینیئر ایسٹروبائیولوجسٹ کی حیثیت سے ڈاکٹر کیبرول سمجھتی ہیں کہ کچھ سائنس دان کیوں سیٹی انسٹیٹیوٹ کی جانب سے سگنل کی تلاش پر شک کرتے ہیں۔

تاہم ڈاکٹر کیبرول کا کہنا ہے کہ دور دراز کے ماحول سے کیمیائی سگنیچرز کا ملنا، چاند کے قریب سے کچھ مخصوص اشیا کے گزرنے کے باعث سامنے آنے والی دلچسپ ریڈنگز اور مریخ کے مائیکرو فوسلز بھی اس بارے میں سوالات کو جنم دیتے ہیں۔

کسی سگنل کی تلاش ’زندگی کے آثار تلاش کرنے کے لیے تمام مختلف طریقوں میں سب سے زیادہ مشکل معلوم ہو سکتی ہے، لیکن یہ سب سے زیادہ غیر مبہم بھی ہے اور یہ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’تصور کریں کہ ہمارے پاس ایک ایسا سگنل آتا ہے جسے ہم حقیقت میں سمجھ سکتے ہیں۔‘

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’تیس سال پہلے ہمارے پاس سیاروں کے دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگانے کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ اب 5000 سے زیادہ ایسے سیارے دریافت ہو چکے ہیں جن کا علم فلکیات اور فلکیات کے ماہرین بے مثال تفصیل سے مطالعہ کر سکتے ہیں اور اکثر کا کر چکے ہیں۔

کارڈف یونیورسٹی کے ڈاکٹر سوبھوجیت کےٹو-18 بی کا مطالعہ کرنے والی ٹیم کے رکن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تمام چیزیں ایک ایسی ممکنہ دریافت کے لیے ہمارے سامنے ہیں جو ایک ناقابل یقین سائنسی پیش رفت کا باعث بن سکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر ہمیں زندگی کے آثار ملتے ہیں تو یہ سائنس میں ایک انقلاب برپا کردینے والی خبر ہو گی اور یہ انسانیت کے اپنے آپ کو اور کائنات میں اپنے مقام کو دیکھنے کے انداز میں بھی ایک بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More