’پری پیریڈ کومک بُک‘: ’ہم ماہواری کو ایسے لیتے ہیں جیسے بچی نے گناہ کر دیا‘

بی بی سی اردو  |  Oct 02, 2023

BBC’پری پیریڈ کومک بُک‘ کی مدد لینے والی دو بچوں کی والدہ منیزہ ابریز

’میری بیٹی کو جب پہلی بار ماہواریہوئی تو وہ سکول میں تھی لیکن اس نے بہت اچھے طریقے سے اس کا سامنا کیا۔۔۔‘ یہ کہنا ہے منیزہ ابریز کا جو ایک گھریلو خاتون ہیں اور دو بچوں کی والدہ ہیں۔

منیزہ ابریز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اپنی دوستوں سے بھی بات کرتی ہوں کہ دیکھو تمہاری بچیاں بھی اس عمر میں آ رہی ہیں، اُن سے بات کرو، اُن کو پہلے سے ماہواری کے بارے میں بتاؤ لیکن میری دوست اتنا زیادہ پریشان ہو جاتی ہیں کہ بچیوں سے اس حوالے سے بات کیسے کی جائے۔‘

منیزہ ابریز نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے جب انھیں پہلی بار ماہواری ہوئی تھی، بتایا کہ ’جب پہلی بار مجھے ماہواری ہوئی تو امی نے مجھے سینیٹری آئٹم دیے اور کہا کہ بس چینج کر لو، تو مجھے بہت عجیب سا محسوس ہوا۔ میں بہت زیادہ پریشان تھی، امی کے ساتھ میری بہت اچھی بات چیت تھی لیکن اس بارے میں بات کرنا شروع سے ایک ممنوعہ موضوع سمجھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے بہت زیادہ تفصیل مجھے نہیں بتائی گئی۔‘

’میرے لیے یہ سب بہت زیادہ پریشان کن تھا۔ ایک ذہنی تناؤ تھا کیونکہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ میرے ساتھ کیا ہوا۔ مجھے لگا کہ مجھے کینسر ہو گیا یا کوئی بیماری ہو گئی ہے۔‘

پرانے وقتوں میں ہی نہیں بلکہ آج کے زمانے میں بھی ماہواری پر بات کرنا ممنوعہ موضوع سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ایسا فطری عمل ہے جس سے تقریباً ہر عورت گزرتی ہے۔

BBC

پاکستان بھر میں خواتین کو سینیٹری مصنوعات کی سہولت فراہم کرنے والی ویب سائٹ ’سپر وومن‘ کی چیف ایگزیکٹیو صدف الطاف لوہیا کا بھی بچپن ایسے ہی مسائل سے بھرپور تھا۔

صدف الطاف بتاتی ہیں کہ ’جب مجھے بتایا گیا کہ بیٹا کچھ ایسی باتیں ہیں جو آپ نے چھپا کر رکھنی ہیں اور اپنے گھر میں بھائیوں کو نہیں بتانی تو مجھے اور زیادہ پریشانی ہونے لگی۔‘

’لیکن میں نہیں چاہتی تھی کہ ہماری بچیوں کے ساتھ بھی ایسا ہو۔ اسی لیے میں نے یہ سوچا کہ کیوں نہ ایسی کتاب بنائی جائے جو اس سلسلے میں بچیوں کی رہنمائی کر سکے۔‘

صدف الطاف نے گذشتہ ماہ پاکستان کی پہلی پری پیریڈ کومک بُک سیریز متعارف کروائی، جس کا مقصد نوعمر لڑکیوں کو ماہواری آنے سے پہلے اس بارے میں آگاہی دینا ہے۔

BBCپاکستان کی پہلی پری پیریڈ کومک بُک سیریز متعارف کروانے والی صدف الطاف ’آٹھ سال کی بچی پریشان ہے تو اسے کیسے سمجھایا جائے‘

صدف الطاف لوہیا بتاتی ہیں کہ کامک بُک کا خیال اس لیے آیا کیونکہ ایک تو ہم لوگوں میں پڑھنے کی عادت ختم ہو رہی ہے اور اگر میری بیٹی ہو گی تو میں اس کے ہاتھ میں فون نہیں دوں گی بلکہ اس کو بولوں گی کہ بیٹا چلو میرے ساتھ بک پڑھو۔‘

صدف الطاف لوہیا نے اس کومک بُک کا مقصد بتاتے ہوئے کہا کہ ’سب سے پہلے تو یہ سوچ تھی کہ اگر آٹھ سال کی بچی پریشان ہے تو اس کو کس طرح سمجھایا جائے، ماں کیسے بچی کو بتائے کہ ہارمونل تبدیلیاں ہو رہی ہوتی ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’جب کتاب کا خیال آیا تو ہمارے ساتھ الگ الگ ماہرین، ڈاکٹرز، سائیکالوجسٹ کا بورڈ بنا۔ ہمیں اس پری پیریڈ کومک بک سیریز کی پہلی بک شائع کرنے میں تقریباً اٹھ مہینے لگے۔ تصویروں کی جب باری آئی تو گرافکس میں بھی بہت ٹائم لگا کیونکہ میری کہانی اس بچی کی ہے جو ابھی اٹھ سال کی ہے اور جسے ابھی پیریڈ سٹارٹ نہیں ہوئے۔‘

BBC

منیزہ ابریز نے بتایا کہ ’میں نے سوچا کہ میں اپنی بیٹی کو اس بارے میں کیسے سمجھاؤں۔ یوٹیوب پر سرچ کیا تو بہت زیادہ مواد انگلش اور ہندی میں تھا لیکن مجھے اُردو میں اس موضوع پر کوچ نہیں ملا۔‘

منیزہ ابریز کو پھر پری پیریڈ کومک بک کے بارے میں پتا چلا اور انھوں نے اس کی مدد سے اپنی بیٹی کو ماہواری کے بارے میں بتایا۔

’جب میری بیٹی نے یہ پری پیریڈ کومک بک پڑھی تو اس کے ذہن میں دس قسم کے سوال آئے اور اسے کتاب سے ان سوالوں کے جواب بھی مل رہے تھے۔ اس کومک بک میں جو بات مجھے سب سے اچھی لگی کہ ایک تو تفصیل میں چیزوں کو بتایا گیا اور یہ بھی کہ ہمیں اپنی بیٹیوں کو کس طرح سمجھانا چاہیے۔‘

’گھر کے مرد بھی بچیوں کی مدد کریں‘

منیزہ ابریز کا ماننا ہے کہ بچیوں کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے بیٹوں اور مردوں کو بھی اس بارے میں ضروربتانا چاہیے۔

’اس موضوع پر آگاہی کی کمی ہے۔ ہماری مائیں بھی ہمیں نہیں بتاتی تھیں۔ ہمارے زمانے میں تو مائیں کہتی تھیں کہ گھر کے مردوں کو نہ پتا چل جائے تو اب کم از کم یہ ختم ہونا چاہیے۔‘

صدف الطاف لوہیا کا کہنا تھا کہ ’میں تو یہ چاہتی ہوں کہ گھر کے مرد بھی بچیوں کی مدد کریں۔‘

’ہر وقت مائیں یا بڑی بہنیں ساتھ نہیں ہوتیں۔ ہمیں اپنے گھروں میں اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم نے اس موضوع کو بالکل الگ رکھ دیا ہے۔‘

’ہم ماہواری کو ایسے لیتے ہیں جیسے بچی نے گناہ کر دیا۔ تو ہمیں اس معاملے کو نارملائز کرنا پڑے گا، بات کرنی پڑے گی تاکہ بچیوں کے دل سے ڈر اور خوف نکلے اور وہ پُراعتماد ہوں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More